آپ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ سے بعض آیات کے بارے میں پوچھنا
علی محمد الصلابیآپ کا رسول اللہﷺ سے بعض آیات کے بارے میں پوچھنا
سیدنا عمرؓ رسول اللہﷺ سے بعض آیات کے بارے میں بذاتِ خود پوچھتے تھے اور کبھی کبھار اگر کسی صحابی کو رسول اللہﷺ سے کسی آیت کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنتے تو اسے یاد کر لیتے اور طالبانِ علم نبوت میں سے جسے چاہتے اسے سکھاتے۔ چنانچہ یعلیٰ بن امیہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمرؓ سے پوچھا: اللہ کے فرمان:
فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوةِ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنَكُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡـكٰفِرِيۡنَ كَانُوۡا لَـكُمۡ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا۞
(سورة النساء: آیت، 101)
ترجمہ: '’تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر ستائیں گے‘‘ کا کیا مطلب ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو امن وسکون عطا کر دیا ہے۔ تو سیدنا عمرؓ نے مجھ سے فرمایا: جس بات سے تمہیں تعجب ہے میں نے بھی اس پر تعجب کیا تو رسول اللہﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ فَاَقْبَلُوْا صَدَقَتَہٗ۔
(اس روایت کی سند صحیح ہے اور شیخین کی شرط پر ہے۔ الموسوعۃ الحدیثیۃ: مسند احمد: حدیث، 188)
’’یہ ایک صدقہ ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے، لہٰذا تم اس کے صدقہ کو قبول کرو۔‘‘
سیدنا عمر بن خطابؓ سے اس آیت کریمہ کے بارے میں پوچھا گیا:
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡ بَنِىۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ ۞
’’اور جب آپ کے ربّ نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا۔‘‘
تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَہْرَہٗ بِیَمِیْنِہٖ وَاْستَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ خَلَقْتُ ہٰؤُلَائِ لِلْجَنَّۃِ وَبِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ یَعْمَلُوْنَ ثُمَّ مَسَحَ ظَہْرَہٗ فَاْستَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ خَلَقْتُ ہٰؤُلَائِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ یَعْمَلُوْنَ۔
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر آپ کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اس سے ایک ذریت نکالی، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے ان لوگوں کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جنت والے اعمال کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ایک ذریت نکالی، اللہ نے فرمایا: میں نے ان لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جہنمیوں والے اعمال کریں گے۔‘‘
ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اسْتَعْمَلَہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَمُوَْ عَلٰی عَمَلِ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْخُلُہٗ بِہِ الْجَنَّۃَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ حَتّٰی یَمُوْتَ عَلٰی عَمَلِ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہُ بِہِ النَّارِ۔
(الفتاویٰ: جلد ، 10 صفحہ، 28)
بے شک اللہ عزوجل جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں والا کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے کاموں میں سے کسی کام پر وفات پاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل کردیتا ہے، اور جب بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں والا کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے کاموں میں سے کسی کام پر وفات پاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس عمل کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔‘‘
اور جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا:
سَيُهۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَيُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ۞ (سورة القمر: آیت، 45)
ترجمہ: ’'عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘
تو سیدنا عمرؓ سے پوچھا گیا: کون سا لشکر شکست کھائے گا؟ کون سا لشکر غالب آئے گا؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ غزوہ بدر میں میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ ڈھال سے بچاؤ کر رہے تھے اور پڑھ رہے
سَيُهۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَيُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ۞
(سورة القمر آیت، 45)
ترجمہ: اس دن میں نے اس آیت کی تفسیر کو جان لیا۔
(اس کی سند صحیح ہے اور مسلم کی شرط پر ہے۔ دیکھیے: مسند أحمد: حدیث، 175)