Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مدعم اور حضرت کرکرہ رضی اللہ عنہما خدام رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو اصحاب جہنم کی آگ میں ہیں، (العیاذ باللّٰہ۔)

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

حضرت مدعم اور حضرت کرکرہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہما خدام رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہر دو اصحاب جہنم کی آگ میں ہیں، (العیاذ باللّٰہ۔) 

(مشکوٰۃ المصابیح)

 الجواب اہلسنّت

دو حق ادا کرنا اللّٰه تعالٰی نے ہر اِنسان پر لازم فرمائے ہیں:

1_حقوق اللّٰه جیسے نماز، روزہ وغیرہ...

2_حقوق العباد جیسے ناحق کِسی کا مال نہ کھانا، کِسی کو گالی نہ دینا، جان تلف نہ کرنا وغیرہ...

پھر اگر حقوق اللّٰہ میں غلطی یا کمی کوتاہی ہو جائے اور غلطی کرنے والا توبہ کرنا چاہے تو اس کے لیے تین شرائط ہیں:

2_ اس غلطی کو (جِس سے توبہ کر رہا ہے) فوراً چھوڑ دے۔

2_ آئندہ وہ غلطی کبھی بھی نہ کرنے کا عزم کرے.

3_ دِل سے اس غلطی کو کرنے پر نادم ہو۔

اگر کوئی حقوق العباد کی کمی کوتاہی سے توبہ کرنا چاہے تو چار شرائط ہیں، تین یہی مزکورہ بالا اور۔۔۔

4_چوتھی شرط یہ ہے کہ اس حق تلفی کا ازالہ کیا جائے یعنی مال چھینا تو واپس کیا جائے، گالی دی تو معافی مانگی جائے وغیرہ۔

پھر حقوق اللّٰه میں کمی کوتاہی ہوجائے تو اللّٰه تعالٰی اپنے کرم اور فضل سے معاف فرما دیں گے مگر حقوق العباد میں اگر حق تلفی ہو جائے تو اس میں معافی نہیں ہو سکتی جب تک کہ صاحبِ حق خود معاف نہ کر دے۔ اسی وجہ سے حقوق العباد کے بارے میں یہ تنبیہہ بار بار کی گئی ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے سے بہر صورت بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

 شہید کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے سوا قرضہ کے

(الحدیث)۔ 

کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔ اسی طرح ایک حدیث کا حاصل مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللّٰه تعالٰی علیھم اجمعین سے فرمایا غریب کون ہے؟ صحابہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم نے عرض کیا جِس کے پاس مال نہ ہو۔ فرمایا نہیں بلکہ بے چارہ غریب وہ ہے جو حساب والے دن بہت نیکیاں کر کے آئے گا مگر کسی کی غیبت کی ہو گی کسی کو گالی دی ہو گی کسی کا مال چھینا ہوگا وہ (جِن کے حقوق اس نے تلف کیے تھے) اس کی تمام نیکیاں لے جائیں گے اور یہ بے چارہ نیکیاں کرنے کے باوجود خالی رہ جائے گا۔

(مفہوم حدیث)

کیونکہ اس نے حقوق العباد میں حق تلفی کی ہے۔ یہاں مالِ غنیمت میں چوری کرنے کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ ان دونوں صاحبوں نے مالِ غنیمت میں امانت داری کا مظاہرہ نہیں فرمایا اور مالِ غنیمت کا ناجائز تصرف حقوق العباد کو تلف کرنا ہے جس پر سزا دی جائے گی۔ اسی واقعہ کو یہاں بیان کیا گیا ہے جو گویا اس بات پر تنبیہہ کرنا ہے کہ مالِ غنیمت میں خیانت کرنے سے بہرحال بچنا چاہیے۔ اگرچہ یہ حضرات شہید تھے مگر اس حقوق العباد کی تلفی سے ان کی یہ حالت ہوئی۔

2_یہ کہنا کہ (وہ دونوں) خدامِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ یہ خدام کا لفظ بھی روایتی دھوکہ بازی اور عامۃ الناس کو اشتعال دلانے کی مذموم جسارت ہے ورنہ مدعم ایک غلام تھا جو کِسی نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدیہ کیا تھا اور غلام کبھی اچھے اور صالح ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی اُن کی حالت کمزور بھی ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے۔ یہ غلام اُس درجے کا خادم یا محض اللّٰه تعالٰی کی رضا کے لیے خدمت کرنے کے لیے حاضر نہ ہوا تھا بلکہ غلام تھا۔ کِسی نے آپ کو ہدیہ کر دیا۔ اب جو شخص ہو گھر کا کام کاج کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اور دوسرے شخص کرکرہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹ پر سامان لادا تھا اور اتفاقاً فوت ہوگیا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ کوئی کام کر دیا جائے تو اگرچہ یہ خدمت ہی ہے مگر عرف میں اس کو خادم نہیں کہا جاتا۔ الغرض غلام اور خدام میں اچھا خاصا فرق ہے۔ شیعہ لوگ جو غلام کو خدام کہہ کر آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں انہیں عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے۔

3_ یہاں روایت میں یہ الفاظ ہر گز نہیں کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا جو کہ کافروں کے لیے خاص ہے بلکہ یہ عارضی سزا ہے جو بالآخر ختم ہو جائے گی۔

4_کسی جُرم پر مقرر شدہ سزا کا دیا جانا شرعی قاعدہ ہے۔ اس سے کوئی شخص بھی مبرا نہیں الا یہ کہ رحمٰن و رحیم اپنی رحمت کی چادر ڈال کر معاف فرما دے۔ خود رحمتِ عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (الحدیث۔) 

ہر شخص جانتا ہے کہ جو شرافت اور بلند مرتبہ اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور اولادِ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے وہ کِسی اور کو حاصل نہیں مگر اس بلند مرتبہ کے باوجود مقررہ سزا سے استثناء کیا گیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان گرامی محض مسئلہ سمجھانے کے لیے ہے ورنہ آلِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا عمل ہو جانا بہت بعید ہے۔ بہرحال یہاں پر بھی یہی مسئلہ واضح کیا گیا ہے لہٰذا یہ بات نہ قابلِ اعتراض ہے اور نہ ہی لائقِ الزام۔

5_ ان دونوں حضرات کے بارے میں یہ فرمانا کہ وہ جہنم میں ہیں ہے (کہ عارضی طور پر سزا بھگت کر جنت جائیں گے) یہ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے کہ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کو یہ حالت دکھا دی گئی اور آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا انکار کرنا کِسی مسلمان آدمی کا کام نہیں ہے۔