فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ عدیم المثال تھے
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ عدیم المثال تھے
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ خلاصہ کلام ! حضرت علی رضی اللہ عنہ زہد میں عدیم المثال تھے،نہ ہی کوئی آپ کے مقام کو پاسکا اور نہ ہی کوئی آپ سے سبقت حاصل کرسکا؛جب آپ ہی سب سے بڑے زاہد تھے توآپ ہی خلیفہ ہوں گے؛ اس لیے کہ مفضول کو تقدیم دینا ممتنع ہے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ :’’یہ دونوں احتمال باطل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر زاہد نہ تھے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جوکوئی زاہد تر ہو وہ امام و خلیفہ بننے کا زیادہ حق دار ہو۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوران کے اہل خانہ کے پاس اتنا مال اور غلام تھے جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پاس نہیں تھا۔
عبد اللہ بن احمد نے روایت کیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں :ہم سے علی بن حکیم نے بیان کیا ‘ان سے شریک نے حدیث بیان کی ؛ وہ عاصم بن کلیب سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ حضرت محمد بن کعب رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا:’’ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا؛ اور اپنے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر باندھا کرتا تھا۔ اور آج میرے مال کی زکوٰۃ چالیس ہزار تک پہنچتی ہے۔‘‘[سبق تخریجہ ]۔
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے ؛ لیکن اس روایت کے مقابلہ میں بہتر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ عراق میں بھی جو کی سوکھی روٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کھایا کرتے تھے ۔ اس لیے کہ اس روایت کی تو کوئی سند ہی نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کامال حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مال سے بہت زیادہ تھا۔ اگر صرف اسی چیز میں مقابلہ کیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی اولاد کو کیا دیتے اور اہل بیت کو کیا دیتے تھے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ تمام قریش سے زیادہ حضرات اہل بیت کو دیا کرتے تھے۔ آپ بنی عدی یا بنی تیم یا قریش کی کسی دوسری شاخ میں اتنا مال تقسیم نہیں کرتے تھے جنتا اہل بیت نبوت میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بس صرف یہی ایک بات بھی اس دلیل کے لیے کافی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس وسیع مال موجود تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوقاف مشہور تھے ۔ کیا جس انسان کے پاس کچھ بھی موجود نہ ہو وہ وقف کرسکتا ہے؟ [نیز یہ کہ آپ نے اپنی وفات کے وقت بہت سے غلام لونڈیاں اور کثیر جائداد چھوڑی تھی۔البتہ نقدی صرف سات سو درہم تھی]۔ دوسری طرف حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ فتح خیبر کے موقع پر مال غنیمت سے جو حصہ ملا تھا وہ اللہ کی راہ میں وقف کردیا تھا۔[ آپ کی کوئی زرعی اراضی نہیں تھی۔ جب شہادت پائی تو اس وقت اسّی ہزار کے مقروض تھے۔]اس کے علاوہ آپ کی کوئی زمین یا جائداد نہیں تھی۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زمین و جائداد ینبوع میں بھی تھی۔