Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تاریخ الطبری مصنفہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

تاریخ الطبری مصنفہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری

تاریخ طبری تصنیف ابو جعفر محمد بن جریر طبری بھی ایسے مواد پر مشتمل ہے ۔ جو اہلِ سنت کے معتقدات کے خلاف ہیں۔ انہیں باتوں کو کچھ نا سمجھ شیعہ پیش کر کے عوام اہلِ سنت کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو ۔

 تاریخ آئمہ:

آنحضرتﷺ کے انتقال کے بعد جن لوگوں نے سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت سے انکار کیا ۔ وہ سیدہ فاطمہؓ کے گھر پر تھے۔ تو سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ کو بھیجا کر جو لوگ خانہ سیدہ فاطمہؓ میں ہیں ان کو وہاں نہ رہنے دیں اور وہ نکلنے سے انکار کریں تو بزور شمشیر وہاں سے نکالیں ۔ اس پر سیدنا عمرؓ آگ لکڑی لے کر وہاں اس قصد سے پہنچے۔ کہ گھر میں آگ لگا دیں ۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہؓ نے کہا۔ اے پسر خطاب کیا تو میرا گھر جلانے آیا ہے ۔ ؟ حضرت نے کہا بے شک اسی ارادے سے آیا ہوں ۔ ورنہ جو لوگ اس گھر میں ہیں۔ وہ سب چل کر سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کریں دوسری روایت میں ہے کہ جب سیدنا عمرؓ نے گھر میں آگ لگانے کی قسم کھائی تو لوگوں نے کہا کہ اس گھر میں تو سیدہ فاطمہؓ بھی ہیں ۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ہوا کریں۔ 

(تاریخ طبری جلد سوم صفحہ98 )

(تاریخ ائمه مصنفه سید علی حیدر نقوی صفحہ 151 تا 152)

 نوٹ

یہ عبارات اور ایسی ہی دوسری عبارات سے اہلِ تشیع یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کہ ہمارا مسلک صحیح ہے۔ کیونکہ خود سنیوں کی کتابوں میں ایسی کئی شہادتیں موجود ہیں ۔ کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ سیدہ فاطمہؓ کے دشمن تھے۔ اور بِنت رسولﷺ کی دشمنی دراصل رسول اللہﷺ سے دشمنی ہے ۔ لہٰذا دشمنانِ رسولﷺ و آلِ رسولﷺ منصب رسولﷺ سے وہ خلافت کے مستحق کیونکر ہو سکتے ہیں۔

 جواب :

"تاریخ طبری" کے مصنف، محمد بِن جریر طبری کا مختصر سوانحی خاکہ پہلے پیش خدمت ہے ۔

ابو جعفر محمد بِن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب 324ھ میں طبرستان کے شہر آمل میں پیدا ہوئے ۔ آمل شہر کی نسبت سے آملی بھی کہلائے ۔ اور طبرستان کی طرف نسبت سے طبری بھی کہلائے۔ دونوں میں سے مشہور طبری ہے۔ علم و فضل میں اپنے وقت کے بے مثل شخص تھے۔ اور مسلمان علماء میں ان کا بہت اونچا مقام تھا۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کی کتابوں میں انہیں اہلِ سنت کا امام لکھا گیا ہے لیکن ان کے بارے میں بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں۔ کر ان میں تشیع پایا جاتا تھا ۔ ان قائلین کے چند دلائل ملاحظہ ہوں ۔

 دلیل اول

 ابنِ جریر طبری میں تشیع تھا۔

 دلائل ملاحظہ ہوں:

ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا۔ جو شیعیت میں غلو رکھتا تھا۔ ان کا حقیقی بھانجا ابوبکر محمد بِن عباس خوارزمی جو ایک بلند پایہ ادیب اور ہجو گو شاعر تھا۔ غالی رافضی تھا۔ اس کا باپ علاقہ خیوا کے مقام خوارزم کا رہنے والا تھا۔ اور ماں مؤرث طبری کی بہن جریر کے گھرانے کی تھی ۔ 

 وَهُوَابْنُ أُخْتِ أَبِي جَعْفَر محمد بن جرير الطبري صاحب تاریخ

(ابنِ خلکان صفحہ 400)

 اس نے اپنے ننہال میں پرورش پائی ۔ اور آخر میں جو یہ ایسے نامی غالی شیعہ افراد کی سرپرستی میں رہا۔ وہ اپنے ماموں ( ابن جریر طبری کے رافضی مسلک ہونے کا اظہار درج ذیل اشعار میں فخریہ بیان کرتا ہے۔

یہی اشعار شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب الکنی و الالقاب میں بھی درج کیے ہیں۔

 الكنى والالقاب

 بآمل مَوْلَدِي وَبَنُو جَرِيرٍ فَاخْوَالِي وَيَحْكِي الْمُرُوخَالَه فَهَا أَنَا رَافِضِي عَنْ تُرَاث وَغَيْرِى رَافِضِي عَنْ كَلاله 

(الكنی والالقاب جلد اول صفحہ 22 مطبوعه تہران طبع جديد بحث ابوبكر) 

 ترجمہ 

 مقام آمل میری جائے پیدائش ہے ۔ اور جریر کے بیٹے میرے ماموں ہیں۔ اور آدمی اپنے ماموں کے مشابہ ہوتا ہے۔ ہاں ہاں میں جدی پشتی شیعہ ہوں۔ اور میرے سوا شیعہ کہلانے والا جدی پشتی نہیں بلکہ دور کا شیعہ ہے۔

 دلیل دوم

ابنِ جریر اپنی تصنیف تاریخ الاسم والملوک (المعروف تاریخ طبری) میں سیدنا امیر معاویہؓ کے متعلق یوں کہتا ہے ۔

 تاریخ طبری

 كَانَ جَعْفَرُ بن ابي سفيان مِمَّنْ ثَبَتَ يَوْمَ حُنَيْنٍ مَعَ رَسُولِ اللهِﷺ مِنْ أَصْحَابِهِ وَلَمْ يَزَلُ مَعَ أَبِيهِ مُلَانزما لِرَسُولِ اللَّهِﷺ حَتَّى قُبِضَ وَتْوفي جَعْفَرُ فِي وَسُطِ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةؓ لعنه الله 

(تاریخ طبری جلد 13 صفحہ 24 ذكر من مات او قتل سن 80 مطبوعه بيروت)

 ترجمہ:

سیدنا جعفر بن ابی سفیانؓ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں۔ جو غزوہ حنین میں حضورﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے ۔ اور زندگی بھر یہ اپنے والد سیدنا ابوسفیانؓ کے ساتھ حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہے۔ یہ سیدنا جعفرؓ سیدنا امیر معاویہؓ کی خلافت کے درمیان میں فوت ہوئے

 تاریخ طبری

 وقد روى نوفل بن معاويہؓ عن النبيﷺ تُوفي نوفل بالمدينة في خلافة يزيد بن معاويه لعنهما الله

 ترجمہ:

سیدنا نوفل بن معاویہؓ نے حضورﷺ سے حدیث روایت کی ہے اور یہ نوفل مدینہ منورہ میں یزید بِن معاویہ (ان دونوں پر لعنت ہو) کی خلافت کے دوران فوت ہوا۔

( تاریخ طبری جلد 13 صفحہ 28)

 نوٹ:

ان دونوں حوالہ جات میں ابنِ جریر طبری نے سیدنا امیر معاویہؓ پر لعنت بھیجی ۔ اور فعل یہ عقیدہ کسی سنی کا ہرگز نہیں ہو سکتا اس لیے اس فعل کی وجہ سے بھی اس کی شیعت ثابت ہوتی ہے۔

 دلیل سوم

 البدایہ والنہایہ

ابنِ جریر طبری کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا

 ابوجعفر بن جرير الطبرى وقد كانت وَفَاتُهُ وَقَتَ الْمَغْرِبِ عَشِيَّةَ يَوْمِ الْأَحَدِ ليَوْمَيْنِ بَقِيَا مِن شوال من سَنَة عَشَرَ وَ ثلثمائة وَقَدْ جَاوَزَ الثَّمَانِينَ بِخَمْسِ سِنِينَ أَوْ سِتِ سِنِينَ وَفِي شَعْرِ رَأسِهِ وَلِحْيَهِ سَوَادٌ كَثِيرٌ وَ دُفَنِ فِي دَارِہ لانَ بَعْضَ عَوَامِ الْحَنَابَلَةِ وَرُعَاعِهِمْ منَعُوا مِنْ دَفَنيْهِ نَهَارًا وَنَسَبُوهُ إِلَى الرِّقْضِ وَلَمَّا توفى اجْتَمَعَ النَّاسِ مِنْ سَائِرِ الْأَقْطَارِ بَغدَادَ وَصَلُّوا عَلَيْهِ بدَاره دفن بھا

 ترجمہ

 ابو جعفر جریر طبری کی وفات بوقت مغرب ہفتہ کے دن ہوئی۔ جبکہ 310 ہجری مکمل ہونے کو صرف دو دن باقی تھے۔ بوقت انتقال ابنِ جریر کی عمر پچاسی یا چھیاسی برس تھی۔ اور اس کے سر اور داڑھی کے بال اکثر سیاہ تھے ۔ اپنے گھر میں ہی دفن کیے گئے. کیونکہ کچھ حنبلی حضرات نے دن کے وقت اِنہیں دفن کرنے سے روک دیا تھا۔ اور اِنہیں رافضیوں کی طرف منسوب کیا تھا۔ جب فوت ہوئے ۔ تو تمام اطراف کے لوگ بغداد جمع ہو گئے۔ اور اسی گھر میں ان کی نماز جنازہ پڑھی جس میں انہیں دفن کیا گیا تھا ۔ 

(البدایة والنہایہ جلد 11 صفحہ 146 ، 147مطبوعہ بیروت طبع جدید) 

 دلیل چہارم 

 تذكرة الحفاظ :

 حدیث خم غدیر جو کہ اہلِ تشیع کے ہاں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ولایت کی بہت بڑی دلیل ہے اس حدیث کو ابنِ جریر نے کئی طریقوں سے صحیح ثابت کیا ہے ۔ چونکہ اس کی صحت شیعت کی تقویت ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی ابنِ جریر کے تشیع ہونے کو بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں رقم طراز ہیں ۔

 تذكرة الحفاظ  

 وَ لَمَّا بَلَغهُ إِنَّ ابْنَ أَبِي دَاوُد تَكَلَّمَ فِي حَدِيثِ غَدِ يُرِحْم عَمَل كِتَابِ الْفَضَائِلِ وَتَكَلَّمَ عَلَى تَصْحُم الحديث قُلْتُ رَأَيْتُ مُجَلِدًا مِنْ طُرُقِ الْحَدِيث لا بن جرير فاند ھشتُ لَهُ وَلِكَثْرَةِ تِلْكَ الطرق 

 (تذكرة الحفاظ جلد دوم صفحہ 13، مطبوعہ بیروت طبع جدید)

 ترجمہ 

جب ابنِ جریر کو یہ علم ہوا۔ کہ ابنِ ابی داؤد نے غدیر خم کی حدیث پر اعتراض کیا ہے۔ تو اس نے اس کی تردید اور حدیث کی صحت کے موضوع پر کتاب الفضائل لکھی۔ میں (ذہبی) نے ابنِ جریر کی مزکور کتاب کی ایک جلد دیکھی ہے ۔ میں اسے پڑھ کر حیران ہو گیا اور اس کے کثرت طرق نے مجھے ششدل کر دیا۔

 نوٹ 

ابنِ جریر کی ایک کتاب الخصائص نامی کا تذکرہ الذریعہ جلد 7 صفحہ 163 پر بھی ہے جو سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فضائل پر لکھی گئی ہے۔

 دلیل پنجم

 لسان الميزان

 أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ السليماني الحَافِظُ فَقَالَ كَانَ يَضَعُ لِلرَّوَافِضِ

(السان الميزان جلد پنجم صفحہ 100 مطبوعہ بیروت) (ميزان الاعتدال جلد سوم صفحہ 35)

 ترجمہ :

 حافظ احمد بِن علی سلیمانی کہتے ہیں۔ کہ ابنِ جریر رافضیوں کے لیے حدیثیں گھڑا کرتا تھا ۔

 دلیل ششم

 البداية والنہايہ

 إِنَّهُ كَانَ يَقُولُ بِجَوَازِ مَسْحِ الْقَدَمَيْنِ فِي الْوُضُوء وَإِنَّهُ لَا يُوجِبُ غَسْلَهُمَا وَقَدْ اشْتَهَرَ عَنْهُ هذا .

(البداية والنهاية جلد 11 صفحہ 147 مطبوعه بیروت) 

 ترجمہ 

ابنِ جریر وضو کے دوران پاؤں کے مسح کا قول کیا کرتا تھا۔ اور ان کا دھونا واجب نہیں سمجھتا تھا اور یہ بات اس کی بہت مشہور تھی۔

 تفسیر طبری 

 عَنْ عِكْرَمَة قَالَ لَيْسَ عَلَى الرجلَيْنِ عغسْلٌ إِنَّمَا نَزَلَ فِيهِمَا الْمَسَحُ عَنْ أَبِي جَعْفَرَ قَالَ امْسَح عَلَى رَأْسِكَ وَقَدْمَيْكَ وَ الصرَابُ مِنَ الْقَوْلِ عِنْدَنَا فِي ذَالِكَ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَ بِعُمُوم مَسْحِ الرِجلَيْنِ بِالمَاءِ فِي الْوُضُوء كَمَا أَمَرَ بِعَمُوم مَسْحُ الوَجْهِ بِالتُّرَابِ فِي التَّيَمُّمِ

(تفسیر طبری جلد 5 صفحہ 82 - 83 مطبوعہ بیروت)

 ترجمہ 

سیدنا عکرمہؓ سے روایت ہے کہ پاؤں کا دوران وضو دھونے کا حکم نہیں بلکہ ان کا مسح کرنا نازل ہوا ہے۔ سیدنا ابوجعفرؓ کہتے ہیں ۔ کہ اپنے سر اور دونوں قدموں پر مسح کیا کرو ۔ ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ پاؤں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عام مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح تییم میں چہرہ کے عموم کا مسح کرنا فرمایا ہے ۔

 نوٹ:

شیعہ سنی فقہ کے مابین مختلف مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔ کہ اہلِ سنت وضو کے دوران پاؤں کے دھونے کے قائل ہیں۔ اور اہلِ تشیع ان پر مسح کے قائل ابنِ جریر نے شیعہ مسلک کو صواب قرار دے کر اپنی شیعیت بیان کردی ۔

 دلیل ہفتم

ابنِِ جریر کی تاریخ الامم والملوک بہت مشہور تصنیف ہے۔ اس کتاب کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ابو مخنف لوط بِِن یحییٰ سے مروی ہے۔ گذشتہ اوراق میں کتاب یازدہم کے عنوان کے تحت ہم مقتل ابی مخنف کی روشنی میں اس کا امامی شیعی ہونا ثابت کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ابنِِ جریر نے وہ روایات جو اہلِ سنت کے عقائد کے مخالف ہیں ۔ انہیں واقدی سے بھی روایت کیا ہے ۔ واقدی یعنی محمد بِن عمر کو اگرچہ اہلِ سنت کی کتب اسمائے رجال میں سنی بھی لکھا گیا ہے۔ اور تنقید بھی کی گئی ہے ۔ یہ بہت بڑا کذاب ہے ۔ لیکن کتب شیعہ میں اسے تقیہ باز شیعہ کہا گیا ہے ۔ اہلِ سنت تو بس ظاہر پر چلتے ہیں۔ لیکن گھر کے بھیدی بخوبی جانتے ہیں۔ کہ یہ ہمارا آدمی ہے ۔ اور گدھا شیر کی کھال پہن کر شیر بنا ہوا تھا۔ واقدی کو شیعہ تسلیم کرنے کا کتب شیعہ سے حوالہ ملاحظہ ہو ۔

 الذريعة 

 قَالَ ابْنُ النَّدِيم أَنَّهُ كَانَ يَتَشَيعُ حُسْنَ المَذْهَبِ يَلْزِمُ التَّقِيَّةَ  

(والذریعه جلد 16 صفحہ 120)

 ترجمہ:

ابنِ ندیم نے کہا کہ واقدی مذہب شیعہ رکھتا تھا۔ اور وہ اس میں اچھے مذہب پر تھا۔ اور اپنے لیے تقیہ لازم کیے ہوئے تھا۔

 الكنى والالقاب:

 وَقَالَ ابْنُ القَدِيمِ إِنَّ الوَاقِدِى كَانَ يَتَشَيَّعُ حُسْنَ الْمَذْهَبِ يَنْزِمُ التَّقِيَّةَ وَهُوَ الَّذِي روى أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامِ كَانَ مِن مُعْجِزَاتِ النَّبِيّ ﷺ كالعصا لموسٰى عليه السلام و احْيَاءِ الْمَوْتى لِعِيسَىٰ بْنَ مَرْيَمَ عليه السلام وَ غَيْرِ ذَالِكَ مِنَ الأَخْبار 

 ( الكنى والالقاب جلد سوم صفحہ 280 تذكرة الواقدی) 

 ترجمہ:

ابنِِ ندیم نے کہا کہ واقدی مذہب شیعہ میں بہت اچھا تھا ۔ اور تقیہ کا خوکر تھا ۔ یہ وہی ہے کہ جس نے روایت کی کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ حضورﷺ کے معجزات میں سے تھے۔ جس طرح حضرت موسیٰؑ کے لیے عصا اور حضرت عیسیٰؑ کے لیے مردے زندے کرنا۔ وغیر ذانک

 تاریخ طبری

 قال محمد وحدثني عبد الله بن موسىٰ المخزومي قَالَ لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ رضى الله عنه أَرَادُ وسَقَ رَأْسِهِ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِ نَائِلَةٌ وَامَ البَنِينَ فَمَنَعْنَهُمْ وَصَحن وَضَرَبْنَ الْوُجُوهَ وَخَرَقْنَ ثِيَابَهُنَّ 

( تاریخ طبری سن 35ھ جلد 5 صفحہ 144)

 ترجمہ

 کہا محمد (واقدی) نے مجھے عبداللہ بن موسیٰ محزومی نے روایت بیان کی۔ کہ جب سیدنا عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا گیا۔ اور قاتلوں نے آپ کا سر انور جدا کرنے کی کوشش کی تو سیدنا عثمانؓ کی بیویاں سیدہ نائلہؓ اور سیدہ ام البنینؓ آپ پر گر پڑیں ۔ اور اُن کو اس سے روک دیا۔ اور خوب چیخیں چلائیں۔ اور اپنے چہرے پیٹے اور کپڑے بھی پھاڑے ۔

 تاریخ طبری

 قال ابو مخنف فَحَدثني ابو زهير العیسیٰ عن قرة بن قيس التميمي قَالَ نَظْرَت إِلى تِلْكَ النِّسْوَةِ لَمَّا مَرُونَ بِحُسَيْنٍ وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ صعَنَ وَلَطَمَنَ وَجُوبهُنَّ قَالَ فَاعْتَرفتُهُنَّ عَلَى فَرَسٍ فَمَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا مِنْ نِسْوَ وَقَطَّ كَانَ أَحْسَنَ مِنْ مَنْظر رأَيتُهُ مِنْهُنَّ ذَالِكَ 

(تاريخ طبری جلد ششم صفحہ 262)

 ترجمہ:

 ابو مخنف نے کہا مجھے ابو زہیر عیسیٰ نے قرہ بن قیس تمیمی سے روایت بیان کی کہ میں نے ان عورتوں کو دیکھا جو سیدنا حسینؓ کی نعش کے قریب سے گزریں۔ ان کے اہلِ اور ان کی اولاد کے پاس سے گزریں تو چیخیں اور اپنے چہروں کو پیٹا۔ راوی کہتا ہے ۔ کہ میں جب گھوڑے پر سوار ان کے پاس آیا ۔ تو ان عورتوں کا ایسا منظر دیکھا۔ جیسا کہ زندگی بھر میں نے نہ دیکھا۔

 نوٹ

 مذکورہ دونوں روایات ثبوت ماتم اور کپڑے پھاڑنے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان دونوں میں اول الذکر کا راوی " واقدی اور مؤخر الذکر کا راوی ابو مخفف ہے۔ یہ دونوں مسلک و مذہب کے اعتبار سے امامی شیعہ ہیں۔ ان کا گزشتہ اوراق میں تفصیلی ذکر ہو چکا ہے ۔ ایک سنی العقید شخص کو بھلا کیا ضرورت تھی کہ ایک مسئلہ کے لیے روایات شیعہ ذکر کرتا پھرے جو اہلِ سنت کے نزدیک سرے سے ہی غلط ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ محمد بن جریر کا تشیع کی طرف میلان تھا۔ یہ تھیں وہ سات عدد دلیلیں جو ابنِ جریر کے تشیع اپنانے کے ثبوت میں تھیں۔ ان دلائل میں سے دلیل چھ پر اگرچہ امام ذہبی نے جرح کی۔ اور لکھا کہ جو لوگ ابنِ جریر پر رافضیوں کی خاطر احادیث وضع کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ یہ ابنِ جریر نہیں بلکہ ایک ایسے نام کا رافضی یعنی محمد بن جریر بن رستم تھا۔ پھر علامہ ذہبی یہ بھی فرماتے ہیں کہ رافضیوں کی خاطر ابنِ جریر صاحب طبری کا حدیثیں وضع کرنا یہ طعن بھی کاذب ہے لہٰذا اس سے اُن کی شخصیت مطعون نہیں ہوتی امام ذہبی نے ابنِ جریر کی صفائی میں جو کچھ فرمایا۔ وہ اس قدر مضبوط نہیں۔ کہ اس سے بقیہ چھ دلائل بھی ختم ہو جائیں ۔ حدیث خم غدیر کے بارے میں ابنِ جریر کا دو ضخیم جلدیں لکھ دینا۔ اور اس کی صحت ثابت کرنا ۔ کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں۔ ابنِ جریر سیدنا علی المرتضیٰؓ کی خلافت کو منصوص من اللہ بوواسط نبی کریمﷺ سمجھتا ہے۔ ہو سکتا ہے۔ کہ اس نے رافضیوں کو خوش کرنے کی خاطر اس حدیث کو اِدھر اُدھر من گھڑت طریقوں سے منسوب کرکے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہو۔ اسی طرح اگر یہ کٹر سنی تھا۔ تو ابو مخنف اور واقدی وغیرہ سے ثبوت ماتم پر روایات جمع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ خود اس کا حقیقی بھانجا محمد بن عباس خوارزمی قسمیہ بیان کرتا ہے ۔ کہ میں اور میرا ماموں ابن جریر جدی پشتی شیعہ ہیں ۔ سیدنا امیر معاویہؓ کو " لعنۃ اللہ علیہ کے الفاظ سے ذکر کرنا کسی سنی کا عقیدہ ہے۔ اور بوقت مرگ حنبلی العقیدہ مسلمانوں کا انہیں قبرستان میں دفن کرنے سے روکنا آخر اس کی کیا وجہ تھی۔ اور پاؤں پر مسح کو دھونے کی بنسبت صحیح کہنا یہ وہ الزام ہیں کہ جن سے برات نا ممکن ہے۔

مختصر یہ کہ اگر تسلیم بھی کر لیا جائے ۔ کہ ابنِ جریر سنی تھا۔ تو پھر اس کی وہ روایات جو اہلِ تشیع کے حق میں جاتی ہیں۔ وہ صرف اس ایک آدمی کی ہیں۔ اس کے خلاف دیگر تمام علمائے اہلِ سنت نے اُن کو تسلیم نہ کیا۔ بلکہ ان کے خلاف بکثرت روایات ذکر فرمائیں۔ اس لیے ایسی روایات ہم اہلِ سنت پر قطعاً حجت نہیں ہو سکتیں۔ مثلاً مخفف اور اقدی سے مروی ثبوت ماتم کی روایات اگرچہ با الفرض ابنِ جریر نے سنی ہوتے ہوئے ذکر کیں۔ اور دیگر سنی تصانیف میں اور عقائد میں ماتم حرام ہے۔ تو ہم ابنِ جریر کی اس کاوش کو کس طرح تسلیم کر لیں۔ کہ ایک یہ سچا ہے ۔اور دوسرے تمام سنی حضرات جھوٹے ہیں ؟ ایسی روایات سے شیعہ تو خوش ہو سکتے ہے۔ لیکن اہلِ سنت پر حجت ہر گز نہیں ہو سکتیں ۔

 فاعتبرو يااولى الابصار .

 توضيح:

قارئین کرام ! یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طبری نسبت والے تین آدمی مشہور ہوئے ہیں۔ اول محمد بن جریر بن رستم طبری آملی۔ اس شخص کے شیعہ ہونے میں کسی کو انکار نہیں۔ الذریعہ ، الکنی والقاب ، اعیان الشیعہ وغیرہ کتب میں اس کے تشیع کی تصریح موجود ہے۔ دوم محمد بن جریر بن زید طبری۔ یہ وہ ہیں۔ کہ جن کے بارے میں گزشتہ صفحات میں آپ نے پڑھا۔ تاریخ طبری کے مصنف اور تفسیر طبری کے مؤلف یہی ہیں۔ ان کا بظاہر شمار اگرچہ اہلِ سنت کے علماء میں ہوتا ہے۔ لیکن ان پر تشیع کا الزام دلائل کے ساتھ ہے۔ کیونکہ ایسے اختلافی مسائل جن میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا اختلاف ہے۔ اُن میں اُن کی کتابوں میں اہلِ تشیع کی طرف جھکاؤ ہے ۔ اسی بنا پر ان کی تحریرات ہم اہلِ سنت پر حجت نہیں ہو سکتیں۔ تیسرا شخص احمد بن عبدالله محب الدین طبری ہے۔ جس کی مشہور تصنیف ریاض النضرة ہے ان کے حالات فی الحال نہ ہمیں لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہم نے کتب اسمائے رجال میں انہیں تلاش کیا آخر میں ابنِ جریر طبری کے بارے میں ایک ثبوت پیش خدمت ہے۔ جس میں خود شیعہ بھی اس میں تشیع کے قائل نظر آتے ہیں۔

 تنقيح المقال:

 وَرَامَ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ إِثْبَاتِ كَوْنِ الرَّجُلِ إِمَامِيَّا لَا عَامِيَّا وَاسْتَدَلَ بِوُجُوْہ قَاصِرَةٍ عَنْ ذَالِكَ مِثْلَ كَوْنِهِ بَلْدَةِ كَانُوا قَدِيمي التشِيعِ خُصُوصًا فِي زَمَنِ السَّلاطين آل بويه وَ عَدْمٍ قُبُولِهِ أَحَدًا مِنَ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ السُّنَّةِ. بانه الَّتِي انْصَرَ فِيهَا أَهْلا ذَكَرَ طَرَقَ خَبرِ الغَدِيرِ وَلَا يَفعلُهُ إِلَّا شيعي 

( تنقيح المقال جلد دوم صفحہ 90 مطبوعه تہران طبع جدید باب میم)

 ترجمہ 

 روضات الجنات کے مصنف نے ابنِ جریر کے امامی شیعی ثابت کرنے کی ٹھانی۔ اور پھر اس پر جو دلائل پیش کیے ۔ وہ اس قدر مضبوط نہیں کہ ان سے اس کا شیعہ ہونا یقینی ثابت ہو جائے۔ مثلاً ایک دلیل یہ کہ ابنِ جریر اس شہر کا باشندہ تھا۔ جو قدیمی (جدی پشتی ) شیعہ تھے۔ بالخصوص ان بادشاہوں کے دور میں جو آلِ بویہ کے تھے۔

دوسری دلیل یہ کہ ان مشہور چار مذاہب میں سے ایک کو بھی ابنِ جریر نے قبول نہ کیا۔ جن میں سنیت کا انحصار ہے ۔ اور یہ بھی دلیل کہ اس نے غدیر کی حدیث کو مختلف طریقوں سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جو ایک شیعہ ہی کر سکتا ہے ۔

 نوٹ:

تنقیح المقال کی عبارت سے ہمارا مقصد یہ دکھانا ہے۔ کہ اہلِ تشیع کے نزدیک بھی ابنِ جریر کی شخصیت مشکوک ہے ۔ کچھ بادلائل اسے اپنا کہتے ہیں۔ اور بعض دوسرے اس کی تردید کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابنِ جریر وہ شخص ہے۔ جو شیعہ سنی دونوں کے مابین متنازع اور مشکوک شخصیت ہے۔ لہٰذا جو اس کی روایات مسلک شیعہ کے مطابق و موافق ہیں۔ وہ ہمیں اسی صورت قبول نہیں جس طرح اس کی وہ روایات جو مسلک اہلِ سنت کی موید میں انہیں شیعہ تسلیم نہیں کرتے ۔

 وبالله التوفيق