Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نکاح اور مفسرین شیعہ کی رائے

  مولانا اللہ یار خانؒ

نکاح اور مفسرین شیعہ کی رائے

علامه محسن کاشی مفسر زیرِ آیت مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ الخ۔(سورۃ البقرہ:آیت 187) کے یوں فرماتے ہیں قيل اطلبوا ما قدر لكم واثبته في اللوح من الولد بالمباشرة اى لا تباشر والقضاء الشهرة وحدها ولكن لا تبغا ما وضع الله النكاح له من التناسل۔

 کہا گیا کہ معنیٰ آیت کا یہ ہے کہ مباشرت سے اولاد طلب کریں جو کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے مقدر فرمائی ہے اور لوحِ محفوظ میں ثابت کر دی ہے اور عورتوں سے محض قضاء شہوت کے لیے جماع نہ کیا کریں لیکن جماع اولاد کے لیے کریں جس کے لیے خدا تعالیٰ نے نکاح کو وضع فرمایا ہے، نکاح موضوع ہے کثرتِ توالد و تناسل کے لیے۔

فائدہ: علامہ محسن کی تفسیر صافی کی اس عبارت سے صاف ثابت ہوا کہ نکاح موضوع ہے توالد و تناسل کے لیے نہ غض بصر و احصان فرج کے لیے۔ پھر یہی مفسر اسی تفسیر صافی میں فرماتے ہیں زیرِ آیت

فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ الخ۔ (سورۃ البقرہ:آیت 222) کے۔

قال هذا في الولد فاطلبو مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ لقول تعالیٰ نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُـمْ الخ۔

(سورۃ البقرہ:آیت 223)

فرمایا یہ آیت اولاد کے حق میں نازل ہوئی ہے ہیں اولاد طلب کریں خدا تعالیٰ نے جہاں سے حکم دیا ہے واسطے فرمانِ خدا تعالیٰ کے کہ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی سے جس طرح سے چاہو اس طرح سے اُن کے پاس آئیں۔ یعنی جس طرح چاہیں مباشرت کریں۔

فائدہ: اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ مفسرین شیعہ کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ نکاح کی وضع توالد و تناسل کے لیے ہے نہ قضاءِ شہوت کے لیے، جیسا کہ علی نقی صاحب کا خیال ہے۔

پھر یہی مفسر سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ سے حدیث نقل کر کے اپنے دعویٰ پر مہر ثبت کرتے ہیں کہ نکاح اور جماع توالد و تناسل کے لیے ہے۔

واما تلاوته عليه السلام هذه الايت عتيب ذلك فاستشهاد منه بها ان الله تعالىٰ سبحانه انما اراد طلب الولد اذ سماھن الحرث و يجوز ان يكون قوله تعالیٰ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ اشارة الى الامر بالمباشرة وطلب الولد في قوله تعالىٰ: فَٱلۡـَٰٔنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ۪ الخ۔ (سورۃ البقرہ:آیت 187)

اور بہر حال امام صاحبؒ کا اس مذکورہ آیت کے پیچھے اس آیت کا تلاوت فرمانا پس دلیل لانا ہے امام کا اس آیت سے اس امر پر کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے طلبِ اولاد کا چونکہ خدا تعالیٰ نے عورتوں کا نام رکھا ہے کھیتی اور جائز ہے۔

 قولِ باری تعالیٰ: مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ اشارہ ہو طرف حکم مباشرت کے اور طلبِ اولاد کے بیچ قولِ باری تعالیٰ کے ہیں اب مباشرت کریں اور طلب کریں اس چیز کو یعنی اولاد کو جو خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے مقدر فرمائی ہے۔

فائدہ: اس حدیث سے امام صاحبؒ سے نکاح کی وضع توالد و تناسل کے لیے ثابت ہوئی نہ کہ قضاء شہوت و جذباتِ نفسی کے پورے کرنے کے لیے۔

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌ الخ۔

(سورۃ النساء:آیت 1)

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں(دنیا میں) پھیلا دیئے۔ 

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا‌  الخ۔

(سورۃالحجرات:آیت 13)

ترجمہ: اے لوگو!حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو،  

فائدہ: ان دو آیتوں میں خدا تعالیٰ نے تخلیقِ مرد بیوی پر روشنی ڈال کر واضح فرما دیا ہے کہ عورت مرد کی پیدائش کی علت غائی ہی افزونی و فراوانی نسل ہے۔ تاکہ ان دونوں سے جہان آباد ہو بتایا کہ جہان کی عمارت ہی انسان سے ہے اور بقاءِ انسانی توالد و تناسل پر موقوف ہے اور یہ نکاحِ صحیح پر موقوف ہے نہ متعہ پر علی نقی شیعہ کے قلب موضوع سے خدا تعالیٰ اور اس کا رسول اور ائمہ سخت ناراض ہوں گے، آپ کا نکاح کو خواہشِ نفسی و جذبہ فطری کے لیے موضوع قرار دینا حق اور انصاف کا خون کرنا ہے۔