Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت مسلک کا بیچ پختہ ہو گیا

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

اہلِ سنت مسلک کا بیچ پختہ ہو گیا

 داستانِ هدایت ….. مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ

 مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ نے ایک شیعہ گھرانے میں آنکھ کھولی اور سارا گرد و پیش سب کا سب شیعہ تھا اللہ رب العالمین نے ان کو ہدایت اور توفیق دی اور ان کو سنی بنایا۔ وہ فرماتے تھے کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا تو کچھ دن بعد اپنی ہمشیرہ کے ہاں گیا ان کے شوہر سنی تھے وہاں جا کر جب سنی عبادات و رسومات سامنے آئیں تو مجھے بہت اچھی معلوم ہوئیں چنانچہ شیعوں کی جو چیزیں دیکھیں تھیں ان سے سخت نفرت ہوگئی اور میرے دل میں کچھ سوالات پیدا ہوئے میں نے ان سوالات کے متعلق مولانا تھانویؒ کی خدمت میں ایک خط لکھا اور اپنی ساری کیفیات اور ساری تفصیلات لکھیں اور مولانا تھانویؒ نے بہت شافی اور کافی جواب دیا اس کے بعد مجھے مزید اطمینان ہوگیا اور میرے اندر اہلِ سنت مسلک کا جو ایک بیج تھا وہ اور پختہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ بہت اونچے درجے کے اور مضبوط سنی بنے اور وہ ایسے سنی تھے کہ آدمی کو ان پر رشک آنا چاہئے

تعارف

شیخ طریقت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ نجیب الطرفین سید تھے آپ کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے۔

مولانا سید زوار حسین شاہ بن سید احمد حسین بن سیداکبر علی بن سید نوازش علی بن سید بشارت علی بن سید روشن علی بن سید شریف حسین بن سید کمال الدین بن سید حمزه بن سید بدوح بن سید عظیم بن سید بڈھایابرہان بن سید جلال بن سید کمال بن سید ممیرز بن سید عبد السلام بن سید تاج الدین بن سید شاہ محمد بن سید حامد نوبہار بن سید شہاب الدین بن سید شاہ زید بن سید احمد زاہد بن سید حمزه بن سید ابوبکر بن سید احمد حمزہ بن سید احمد توختہ بن سید علی کاکی بن سید حسین ثانی بن سید محمد المدنی ولایتی بن سید حسین ناصر ترمذی بن سید موسی حمیص بن سید علی بن سید حسین اصغر بن سید امام زین العابدینؓ بن سیدنا حضرت امام حسینؓ بن سید نا حضرت علیؓ۔۔۔

شاہ صاحبؒ کے خاندانی شجرہ میں درج ہے کہ شاہ زیدؒ کے ایک صاحبزادے ٹانڈہ کی جانب تشریف لائے تھے اور وہیں رہائش اختیار کر لی تھی۔

 مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اپنی خود نوشت سوانح " نقش حیات" میں جو اپنا سلسلہ نسب تحریر فرمایا ہے اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ شاہ زیدؒ کے انہی صاحبزادے کی اولاد میں سے ہیں اس طرح شاہ صاحبؒ اور مولانا سید حسین احمد مدنیؒ دونوں کا سلسلہ نسب شاہ زیدؒ پر پہنچ کر ایک ہو جاتا ہے۔۔

شیعیت کا جال کیسے پھیلا

 شاہ صاحبؒ کا آبائی وطن قصبہ گوہلہ تحصیل کیتھل ضلع کرنال ہندوستان ہے۔

 یہ ہستی شاہ زیدؒ جو امام زین العابدینؒ کے بیٹے سید حسین اصغرؒ کی اولاد سے تھے ان کے زمانہ سے صحیح العقیدہ سنی سادات کی تھی شاہ صاحبؒ کا خاندان نسبی شرافت و فضیلت کے ساتھ ساتھ علم و فضل میں بھی ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن دولت کی فراوانی اور عیش و عشرت کی زندگی کی وجہ سے علمی رجحان کم ہوتا گیا۔ چنانچہ شاہ صاحبؒ کے دادا سیداکبر علی کے زمانہ میں ایک شیعہ پٹواری آپؒ کے علاقہ میں آگیا جس نے اپنی شیریں بیانی اور زہریلی کہانی سنا سنا کر شیعیت کا وہ جال پھیلا دیا کہ اکثر سیدھے سادھے مسلمان اس کے عقائد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے چونکہ اس علاقہ میں دینی علوم کا چرچا ختم ہو گیا تھا اس لیے پٹواری کو شیعیت کی تبلیغ کا خوب موقع ملا چنانچہ شاہ صاحبؒ کے دادا سید اکبر علی جو اس علاقہ کے معزز بزرگ سمجھے جاتے تھے اور بڑے زمیندار بھی تھے جب وہ اس شیعہ پٹواری کے جال میں پھنس گئے تو اس علاقہ کے بکثرت سنی مسلمان جو ان کے زیر اثر تھے وہ بھی شیعہ ہو گئے۔اس طرح شیعیت نے اس خاندان میں جنم لیا۔

شیعہ والدین کی ضعیف الاعتقادی

شاہ صاحبؒ کے والد صاحب سید احمد حسینؒ نے تین شادیاں کیں، پہلی شادی میں ایک صاحبزادہ ہوا جو چند ماہ کے بعد وفات پاگیا اور ایک صاحبزادی ہوئی جو ماشاء اللہ حیات ہیں جنھوں نے شاہ صاحبؒ کا ہر موقع پر خیال رکھا جن کے صاحبزادے سید ذوالفقار حسین و حافظ محمد اسلم صاحبان ہیں اس پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا ، سید احمد حسینؒ نے دوسری شادی کی جس سے شاہ صاحبؒ 26 ذی الحجہ 1329ھ مطابق 18 دسمبر 1911ھ قصبہ گوہلہ میں پیدا ہوئے۔ دادا صاحب حیات تھے اس لیے نومولود کا نام زوار حسین تجویز ہوا۔ ابھی شاہ صاحبؒ ڈیڑھ سال کے ہوں گے کہ والدہ ماجدہ فوت ہو گئیں۔ والد ماجد نے تیسری شادی کی جس سے دولڑکے چار لڑکیاں ہوئیں، ایک لڑکا دولڑکیاں بچپن میں فوت ہوگئے اور دوسرے صاحبزادے سید افتخار حسین 1978ء میں فوت ہوئے شاہ صاحبؒ کی عمر سترہ سال کی ہوگا کہ والد ماجد 1928ء میں انتقال کر گئے شاہ صاحبؒ اور بڑی ہمشیرہ اور بعض رشتہ داروں کے علاوہ خاندان کے اکثر افراد اس وقت تک شیعہ ہیں شاہ صاحبؒ اکثر ٹھسکہ میراں میں اپنی ہمشیرہ کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور راستے میں اپنے ماموں عبد الرشید کے پاس سیانہ سیداں میں بھی قیام کرتے تھے۔ بچپن ہی سے دین داری اور پرہیز گاری آپ کی گھٹی میں پڑچکی تھی اپنے ساتھیوں کے مقابلہ میں آپ کو بچپن ہی سے نیک لوگوں اور اولیاء کرامؒ کی صحبت پسند تھی اور اپنے شیعہ والدین کی ضعیف الاعتقادی پر دل ہی دل میں افسوس کرتے اور ان کی بداعتقادی سے سخت متنفر تھے، آپ کے والد سخت مزاج اور ترش رو تھے اس وجہ سے آپ ان سے بہت ڈرتے تھے لیکن ان کے طریق عبادات اور رسومات و اعتقادات پر دل نہیں جمتا تھا اور ان کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثلا ایک مرتبہ محرم کے دنوں میں نیاز کیلئے کھانا تیار کیا گیا، والد صاحب فاتحہ دینے بیٹھے تو اپنی تیسری بیوی پر بہت سرافروختہ ہوئے کہ پانی کا گلاس کھانے کے ساتھ کیوں نہیں رکھا اگر مردے کے گلے میں لقمہ پھنس گیا تو کیا ہوگا۔ اسی طرح ایک روز وہ کھانے پر فاتحہ دے رہے تھے کہ شاہ صاحبؒ باہر سے گھر تشریف لائے اور دروازہ بند کر دیا تو والد صاحب نے فورا چیخ کر کہا: ارے! دروازہ کیوں بند کر دیا اسے فوراً کھول ، مردے کیسے آئیں گے۔

تعلیمی مراحل

شاہ صاحبؒ نے دو جماعتیں اپنے قصبہ گوہلہ میں پڑھیں، تیسری میں تھے کہ آپ کی ہمشیرہ آپ کو ٹھسکہ میراں لے گئیں وہاں تیسری سے چھٹی تک پڑھا اسی دوران میں اسکول کے بقیہ وقت اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حافظ کمال الدین صاحبؒ سے ناظرہ قرآن کریم پڑھنا شروع کیا ۔ اس دوران چند سورتیں سورۃ یٰس اور سورة تبارک الذی حفظ کرلی تھی اس طرح آپ کی ابتدائی تعلیم ایک صحیح العقیدہ سنی حافظ سے ہوئی جس کا اثر آگے چل کر بہت اچھا ہوا ۔ شاہ صاحبؒ نے ساتویں جماعت قصبہ شاہ آباد میں پڑھی اور 1926ء میں ٹھسکہ میراں میں مڈل کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد ان ٹرینڈ ٹیچر مقرر ہوگئے پھر جے وی پاس کرنے کے بعد بحیثیت اول مدرس پرائمری سکول تقرر ہوگیا دو سال بعد اجرانہ کلاں تحصیل تھانیسر تبادلہ ہو گیا۔

تمام برائیوں کی جڑ تین چیزیں

شاہ صاحبؒ کا زیادہ قیام اپنی ہمشیرہ صاحبہ کے ہاں رہا جن کے خاوند قاضی لطیف حسین صاحبؒ سنی العقیدہ تھے، نیز حافظ کمال الدین صاحبؒ کی شاگردی کےاثرات نے آپ کے فطری میلان کو قوت بخشی، مزید یہ کہ شیعہ سنی اختلاف کی تحقیق کیلئے بعض احباب کے مشورے سے شاہ صاحبؓ نے مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہؒ سے بھی خط و کتابت کی اور مولانا موصوفؒ کے مشورہ پر آپ نے مولانا عبد الشکور لکھنوی قدس سرہ کی اکثر تصانیف کا مطالعہ کیا ان سب چیزوں نے شاہ صاحبؒ کے میلان طبع میں سونے پر سہاگے کا کام کیا اور آپ نے اچھی طرح محسوس کر لیا کہ چونکہ مذہب شیعہ میں تین بنیادی چیزیں ایسی ہیں جو تمام برائیوں کی جڑ ہیں تبرّا۔۔۔تقیہ۔۔۔تمتع جو کسی مذہب میں روانہیں ہیں۔۔ ایسے مذہب سے کس طرح خیر کی توقع کی جاسکتی ہے لہذا شاہ صاحبؒ خوب غوروفکر کرنے کے بعد ایک راسخ العقید و سنی مسلمان بن گئے۔

سنی ہونے کے بعد مصائب کا سامنا

جب شاہ صاحبؒ کے سنی عقائد کا علم آپ کے شیعہ رشتہ داروں کو ہوا تو وہ آپ کے راستہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں اور پریشانیاں پیدا کرنے کے درپے ہو گئے جس سے آپ کے عزم و استقلال میں ان کی توقعات کے خلاف اضافہ ہی ہوتا گیا، جب کوئی حربہ کارگر نہ ہوا تو خاندان والے شیعوں نے آپ کے خلاف سوشل بائیکاٹ کی مہم شروع کردی یعنی سقا، بھنگی، حجام، تیلی اور کمھار وغیرہ کو شاہ صاحبؒ کے ہاں کام کرنے سے روک دیا گیا، معاشرے کے یہ تمام افراد سنی العقیدہ تھے نیز شاہ صاحبؒ کے اجداد ہی نے ان کو قرب وجوار کے دیہات سے لاکر یہاں آباد کیا تھا اور ان لوگوں کو باقاعدہ اجرت نہیں دی جاتی تھی بلکہ فصل خریف اور فصل ربیع دونوں میں ان کا معمولی سا حصہ مقرر تھا اس طرح وہ محکوم اور غلام کی طرح رہتے تھے اور اپنے آقاؤں کے خلاف قدم اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔

لیکن حق سبحانہ و تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے ان لوگوں کے دلوں میں رحم ڈال دیا اور انھوں نے ریاست وامارت کے دباؤ کے باوجود عقائد کے پیش نظر چوری چھپے، وقت بے وقت اور کئی کئی دن کی تاخیر سے جیسا موقع ہوتا شاہ صاحبؒ کے گھر کے کام انجام دیتے رہے اور یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا لیکن آپ کے پایہ استقلال میں ذرا بھی تزلزل واقع نہ ہوا۔

اس ناکامی و نامرادی کے باوجود بھی شاہ صاحبؒ کے شیعہ رشتہ دار اپنی فتنہ پردازیوں اور ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے، چنانچہ انھوں نے اپنے پروگرام کے مطابق رمضان المبارک سے کچھ عرصہ قبل انسپکٹر آف اسکولز اور دیگر حکام سے مل کر شاہ صاحبؒ کا تبادلہ مسلم اکثریت والے گاٶں اجرانہ کلاں سے خالص ہندو آبادی والے گاؤں اجرانہ خورد کے اسکول میں کرا دیا تاکہ آپ کو کھانے، پینے، نماز، روزہ اور دیگر عبادات میں تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے، یہ تمام حربے صرف اس لیے کیے جارہے تھے کہ شاید آپ پریشان ہو کر اپنے عقائد سے رجوع کرلیں۔ مگر حق سبحانہ و تعالی کی نصرت واعانت ہر ہر قدم پر آپ کے شامل حال رہی اور آپ کے عقائد و خیالات مزید راسخ ہوتے گئے۔

جب شاہ صاحبؒ اجرانہ خورد میں تبادلہ کے بعد انسپکٹر آف اسکولز کو درخواست دی جس میں اپنی خوردونوش کی تکلیف و عبادات میں خلل کا ذکر کیا تو انسپکٹر آف اسکولز نے آپ کو بلا کر کہا کہ آپ کے ہی خاندان والوں نے آکر آپ کی طرف سے درخواست کی تھی کہ آپ اس گاؤں میں تبادلہ چاہتے ہیں، اس وقت آپ کو اس سازش کا علم ہوا اور آپ نے انسپکٹر صاحب کو واقعہ کی حقیقت سے آگاہ کیا چنانچہ انسپکٹر آپ کی گفتگو سے متاثر ہوا اور فورا آپ کا تبادلا اجرانہ خورد سے اجرانہ کلاں کر دیا۔

بیعتِ و خلافت

اسی دوران شاہ صاحبؒ نے مولانا اسلام الدین کے واسطہ سے بذریعہ خط خواجہ محمد سعید قریشی ہاشمی احمد پوریؒ سے بیعت کر لی اور منشی فاضل کا امتحان 1932ء میں پاس کیا اور پھر دہلی میں ٹیچر مقرر ہوئے یہ نو سال وہاں رہے 1935ء میں خواجہ محمد سعید قریشیؒ نے شاہ صاحبؒ کو ایک خط دے کر خواجہ فضل علی قریشیؒ مسکین پوروالوں کے پاس بھیجا کہ ان کو خلافت دیدیں۔

پاکستان ہجرت اور دین اسلام کی خدمات

پاکستان ہجرت کے بعد شاہ صاحبؒ خیر پورٹامیوالی میں سکونت پذیر ہوئے 1956ء میں قرآن کریم آپ نے حفظ کیا اور پھر 1966ء میں کراچی منتقل ہو گئے اور دو کام کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا

 (1)۔۔۔۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی تبلیغ و ترویج اور

(2)۔۔۔۔ تصنیف وتالیف اکیس سے زائد کتابیں سوانح، فقہ، سلوک وغیرہ موضوعات پر لکھیں "عمدة السلوك" "عمدة الفقہ" "وزبدة الفقہ" "مکتوبات معصومیه" ، "انوار معصومیه" "گلدسته مناجات" ، ان کی مشہور تصانیف ہیں۔۔۔

 شاہ صاحبؒ کی وفات 1400ھ بمطابق 1980ء کو ہوئی۔

 (ماخوذ از مقامات زواریہ)