فدک دور فاروقی رضی اللہ عنہ اور دور عثمانی رضی اللہ عنہ میں
مولانا اقبال رنگونی صاحبفدک دور فاروقیؓ اور دور عثمانیؓ میں
سیدنا ابوبکرؓ کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ ان کے بعد سیدنا عثمانؓ اور ان کے بعد حضرت علیؓ کا دور خلافت آیا اور یہ سب حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق اس آمدنی کو خرچ کرتے رہے۔
شیعہ عالم ابن ابی الحدید عبدالحمید بن بہاؤ الدین مدائنی(656ھ) لکھتا ہے۔
کان ابوبکرؓ یأخذ غلتھا فیدفع الیھم منھا ما یکفیھم ویقسم الباقی وکان عمرؓ کذالک ثم کان عثمانؓ کذالک ثم کان علیؓ کذالک۔
(شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 296)
سیدنا علیؓ کے بعد سیدنا حسنؓ کا دور آیا، پھر سیدنا حسینؓ بھی مدینہ منورہ میں رہے مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی نہ تو کسی قسم کا مطالبہ کیا اور نہ انہوں نے اس آمدنی کو لینے سے انکار کیا حتیٰ کہ جو کچھ ان خلفائے کرامؓ کی جانب سے ملتا رہا برابر لیتے رہے اور کبھی یہ نہ کہا کہ آپؓ ہمیں اتنا کیوں دیتے ہیں، سب پر ہمارا حق ہے سب کچھ ہمیں دے دیں۔
ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ فدک کی زمین اور اس کی آمدنی خود حضور ﷺ نے بھی اپنی کسی اولاد و ازواج اور عزیزوں کو نہ دی تھی البتہ ان کا تصرف(استعمال) آپ کے ہاتھ میں تھا اور آپ ﷺ قرآن کی روشنی میں اسے ان کے حق داروں میں خرچ کرتے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس سے تجاوز نہیں کیا اگر آپؓ سیدہ فاطمہؓ کی بات سن کر انہیں یہ سب کچھ دے دیتے تو آپ ہی بتائیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کیا حضور ﷺ کے طریقے پر رہتے؟ کیا آپؓ ان لوگوں کا سامان روک کر ظلم نہ کرتے جنہیں حضورﷺ عطا فرمایا کرتے تھے؟
فدک دور علویؓ میں
سوال: سیدنا علی کا اس باب میں مؤقف کیا رہا؟ کیا آپ نے اپنے دور خلافت میں خلفائے ثلاثہؓ کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا تھا اور فدک کو وراثت سمجھتے ہوئے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے حوالے کر دیا تھا؟
جواب: نہیں سیدنا علیؓ نے بھی اپنے دور میں وہی مؤقف اختیار کیا جو حضرات شیخینؓ کا تھا، اگر یہ حق صرف حضرت فاطمہؓ کا ہوتا تو سیدنا علیؓ اپنے دور خلافت میں ضرور بالضرور اس پر قبضہ کر لیتے حضرت فاطمہؓ کی اولاد کو دے کر ہمیشہ کیلۓ یہ قضیہ ختم کر دیتے مگر تاریخ گواہ ہے کہ آپؓ نے ایسا نہیں کیا اور آسانی سے حل ہو جانے والے معاملے کی طرف توجہ تک نہ فرمائی اور اسے اس طرح رہنے دیا جس طرح پہلے سے چلا آ رہا تھا، آپ نے حضراتِ شیخین کریمینؓ کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی جو انہوں نے اپنے دور خلافت میں کیا تھا۔
مفسر قرآن علامہ محمد ابن احمد انصاری قرطبی رحمہ اللہ (271ھ) لکھتے ہیں۔
لما ولی علی لم یغیر ہذا الصدقۃ مما کانت فی ایام شیخینؓ ثم کانت بعدہ بیدہ الحسنؓ ثم بید الحسینؓ ثم بید علی ابن الحسینؓ ثم بید الحسن بن الحسنؓ ثم بید عبداللہ بن الحسینؓ ثم ولیھا بنو العباس علی ما ذکرہ الا مام البرقانی فی صحیح ولم یرد عن احد من ھؤلاء انہ تملکھا ولا ورثھا ولاورثت عنہ
( تفسیر قرطبی منقول از عمدۃ القاری جلد 7 صفحہ 173 فیض الباری جلد 4 صفحہ 46)
جب سیدنا علیؓ خلیفہ ہوئے تو فدک کے معاملے میں جو نظام حضرات شیخینؓ کے دور میں تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی پھر یہ معاملہ سیدنا حسنؓ کے پاس آیا پھر سیدنا حسینؓ کے پاس پھر سیدنا زین العابدین رحمہ اللّٰہ کے پاس پھر حضرت حسن بن حسنؓ پھر زید بن حسنؓ پھر عبداللہ بن حسینؓ پھر بنو عباس اس کے متولی ہوئے جیسا کہ امام برقانی نے اپنی صحیح میں اس کا ذکر کیا ہے اور یہ بات کسی نے نہیں لکھی کہ یہ حضرات فدک کے مالک بن گئے تھے یا یہ انہیں وراثت میں ملا تھا۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں کہ:
"اگر سیدنا علیؓ یہ سمجھتے کہ فدک سیدنا فاطمہؓ کا حق تھا تو آپؓ کے لیے یہ بات کوئی مشکل نہ تھی کہ آپؓ اسے سیدنا فاطمہؓ کی اولاد کو لوٹا دیتے مگر دنیا جانتی ہے کہ آپؓ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپؓ جانتے تھے کہ حقیقت حال کیا ہے۔"
وقد تولی علیؓ بعد ذلک وصار فدک وغیرھا تحت حکمہ ولم یعطھا لأولاد فاطمۃؓ ولا من زوجات النبی ولا ولد العباس شیئا من میراثہ فلو کان ذلک ظلما وقدر علیؓ ازالتہ لکان ھذا أھون علیہ من قتال معاویۃؓ و جیوشہ
(منہاج السنۃ جلد 6 صفحہ 347)
ان حضرات (یعنی خلفائے ثلاثہؓ)کے بعد سیدنا علیؓ خلیفہ بنے اور آپؓ کے دور خلافت میں فدک اور دوسرے اموال آپؓ کے زیر تصرف رہے مگر آپؓ نے فدک سیدہ فاطمہؓ کی اولاد کو واپس نہیں دیا اور نہ حضور اکرمﷺ کی میراث کو ورثہ میں تقسیم کیا اگر (خلفائے ثلاثہ کا اپنے عہد خلافت میں) ایسا کرنا ظلم تھا تو سیدنا علیؓ نے اپنے دور خلافت میں اس کا ازالہ کیوں نہ فرمایا حالانکہ اس ظلم کا ازالہ کرنا سیدنا معاویہؓ اور ان کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی بنسبت بہت آسان تھا۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فدک کا معاملہ جس طرح شیخینؓ کے دور میں رہا سیدنا علیؓ اور ان کے بعد جن حضرات نے بھی یہ ذمہ داری سنبھالی ان سب نے شیخین کریمینؓ کے طریقے پر ہی اسے باقی رکھا، سب اس کے متولی تو ہوئے مگر کسی کو بھی اس کا مالک نہیں بنایا گیا اور نہ اسے میراث میں دیا گیا اس حقیقت کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی شیعہ عالم سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر ظلم کی تہمت لگاتا ہے تو وہ اپنے اس تہمت میں سیدنا علیؓ کو شریک کرتا ہے کہ معاذ اللہ آپؓ نے بھی زیادتی کا ارتکاب کیا تھا۔
علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ(454 ھ) لکھتے ہیں کہ:
"حضرت فاطمہؓ کو جب حضور اکرم ﷺ کی حدیث کا پتہ چل گیا تو آپ اپنی رائے سے پیچھے ہٹ گئیں اور آپؓ نے اور نہ ہی آپؓ کی اولاد نے آئندہ کبھی اس کا مطالبہ کیا جب سیدنا علیؓ خلیفہ ہوئے تو آپؓ نے بھی وہی مؤقف اختیار کیا جو حضرت ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کا رہا تھا۔"
ثم لم یکن منھا ولا من أحد من زریتھا بعد ذلک طلب المیراث ثم ولی علی الخلافۃ فلم یعدل بھا عما فعلہ أبوبکرؓ وعمرؓ
(شرح مسلم للنووی جلد 2 صفحہ 90)
اس سلسلے کا ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے
محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ ( 1352 ھ) فرماتے ہیں:
والحال ان علیاؓ وعثمانؓ ایضاً یمشیا علی ما فعلہ الشیخانؓ وحکی ان رافضیا ذھب عند السفاح الخلافۃ العباسی فقال انی مظلوم فأجرنی قال الخلیفۃ عند من الفدک بعد ھما قال عند عثمانؓ قال ثم عند من ؟ قال عند علیؓ وھکذا قال الخلیفۃ فأی خصوصیۃ ابیبکرؓ وعمرؓ فسکت الرافضی الملعون۔
✍️(العرف الشذی بشرح الترمذی صفحہ 485)
حقیقت حال یہ ہے کہ سیدنا علیؓ سیدنا عثمانؓ بھی حضراتِ شیخینؓ کے طریقے پر ہی چلے ہیں اس بارے میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے کہ عباسی خلیفہ سفاح کے سامنے ایک شیعہ اپنی فریاد لے کر آیا اور کہا کہ میں مظلوم ہوں میری مدد کی جائے، خلیفہ نے پوچھا کہ بتا تجھ پر کس نے ظلم کیا ہے اس نے کہا ابوبکرؓ و عمرؓ نے میراث کے معاملے میں مجھ پر ظلم کیا ہے خلیفہ نے کہا اچھا یہ بتا کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کے بعد فدک کس کے پاس آیا اس نے کہا عثمانؓ کے پاس۔خلیفہ نے پوچھا اس کے بعد؟ اس نے کہا علیؓ کے پاس۔ علی ھذا القیاس۔
خلیفہ نے کہا بتا پھر اس ظلم میں ابوبکرؓ اور عمرؓ کی کون سی خصوصیت رہی اس میں تو سیدنا علیؓ بھی شریک ہوگئے چنانچہ وہ رافضی چپ ہو گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا
علامہ عبدالرحمن بن جوزی رحمہ اللہ (596 ھ) اس واقعے کے ذیل میں لکھتے ہیں۔
قال ابن عقیل الظاہر ان من وضع مذھب الرافضۃ قصد الطعن فی اصل الدین والنبوۃ۔۔۔۔الخ
( تلبیس ابلیس صفحہ98 طبع دمشق)
ابن عقیل کہتے ہیں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے رافضی (شیعہ) مذہب بنایا اس کا اصل مقصد دین اسلام اور نبوت محمدی میں طعن کرنا تھا اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ جو اعتقاد حق لائے وہ ہماری نظر سے غائب چیز ہے (اور ہم نے آپﷺ کی زبان سے کچھ بھی نہیں سنا) بلکہ ہمارا اعتماد فقط سلف صالحین یعنی صحابۂ کرامؓ و تابعین عظام رحمہم اللّٰہ کے نقل کرنے اور دیکھنے والوں کی جودت نظر پر ہے یعنی ان بزرگوں نے اپنی خوبی نظر سے ان کو بزرگ پیغمبر پایا تھا تو ان کی جودت نظر پر بھی ہمارا بھروسہ ہے ان دونوں باتوں سے ہمارا یہ حال ہے کہ گویا ہم خود وہ دیکھتے ہیں جب کہ ہمارے لیے ایسے اکابر نے دیکھ لیا تھا جن کی بزرگی دین و کمال عقل وجودت نظر پر ہمارا کامل اعتماد ہے پس رافضی مذہب کے بانی نے یہ پروپگینڈا کیا کہ جن پر تم یہ اعتماد کرتے ہو انہوں نے پیغمبر کی وفات کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ان کے خاندان پر خلافت کا ظلم کیا (یعنی خلافت ان سے چھین لی) اور ان کی صاحبزادی پر میراث کا ظلم کیا (فدک چھین لیا )تو یہ بات جب ہی ہو سکتی ہے کہ جس کے حین حیات میں اس کی نبوت کے متعلق یہ اعتقاد تھا وہ ان کی نظر میں ٹھیک شخص نہ تھا۔ (معاذ اللہ)
اول ما بدأوا بعد موتہ بظلم اھل بیتہ فی الخلافۃ وابنتہ فی ارثھا وما ھذا الا لسوء اعتقاد فی المتوفی (ایضا ص98)
خصوصاً انبیاء کے بارے میں تو یہ واجب کرتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے قوانین مقررہ کی حفاظت لازم سمجھی جائے خصوصاً ان کے اہل و عیال کے حق میں اس کے قواعد کے موافق احترام ضروری ہوتا ہے
پس جب رافضی(شیعہ) گروہ نے یہ عقیدہ رکھا کہ صحابۂ کرامؓ نے حضور اکرمﷺ کے بعد یہ سب کام (ظلم) جائز سمجھے تو اس گروہ نے صاف صاف یہ اقرار کیا کہ ہم تک جو شریعت پہنچی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس لیے کہ حضور اکرمﷺ کی جانب سے ہم تک پہنچنے میں سوائے منقول طریقہ کے اور کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے(یعنی صحابہ کرامؓ نے ہم تک یہ بات نقل کی اور ہم نے ان کی اس نقل پر اعتماد کیا )اب جب صحابۂ کرامؓ پر ہی اعتماد ختم ہو گیا تو ان کی جانب سے منقول اعتقادات و شریعت پر کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں اور جن کے اتباع پر اعتماد کرتے ہوئے شریعت پر جزم کیا گیا تھا اس سے بد اعتقادی پیدا ہو جائے گی اور یقین ختم ہو جائے گا اور ہمیشہ یہ وسوسہ رہے گا کہ جن کے اعتماد پر شریعت کا انحصار ہے انہوں نے ایسی کوئی بات نہ دیکھی جس سے اتباع اور ایمان فرض ہو اور انہوں نے یہ مصلحت اس پیغمبر کی زندگی تک رعایت رکھی اور اس کے فوت ہوتے ہی اسکی شریعت سے منحرف ہو گئے اور ان لوگوں میں سے سوائے ان کے چند گھر والوں کے اور کوئی بھی اس کے دین پر باقی نہ رہا ۔(معاذ اللہ)
ولم نأمن ان یکون القوم لم یروا ما یوجب اتباعہ فراعوہ مدۃ الحیاۃ وانقلبوا عن شریعتہ بعد الوفاۃ ۔ولم یبق علی دینہ الا الاقل من اھلہ (ایضاً صفحہ99)
پس رافضی گروہ کے اس مکرو فریب کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ اصل اعتقاد مٹ جائے اور ان عقائد و اعمال کو قبول کرنے میں ہمارا دل سست ہو جائے جو ہمیں صحابہؓ سے ملے ہیں۔
(دیکھیے تلبیس ابلیس اردو ترجمہ صفحہ130)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (1362 ھ) فرماتے ہیں کہ:
"ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ "عام سنی سے ایک شیعہ کی گفتگو ہوئی سنی نے کہا کہ جب فدک پر جھگڑا تھا تو حضرت علیؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں اس کو کیوں نہ لے لیا؟ شیعہ نے جواب دیا کہ جو چیز غصب کر لی جاتی ہے پھر ہم لوگ اس کو نہیں لیتے سنی نے جواب دیاکہ خلافت بھی تو غصب کر لی گئی تھی پھر اس کو کیوں لیا تھا (یعنی آپؓ چوتھے خلیفہ کیوں بنے) اس جواب پر شیعہ دم بخود رہ گیا۔"
(الافاضات جلد 4 صفحہ 89)
حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمتہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
"اس سلسلے میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو متہم کرتے وقت دیکھ لینا چاہیے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے دور اقتدار میں کیا فرمایا اور کیا رویہ اختیار کیا۔
(تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین: صفحہ 255)
فلما وصل الامر الی على بن ابی طالب کم فی امر فدک فقال انی لا ستحیی من اللّٰہ ان ارد شیا منع عنہ ابوبکرؓ واقضاہ عمر ؓ (شیعہ کتاب الشافی: شریف مرتضیٰ صفحہ 231)
"جب سیدنا علیؓ خلیفہ ہوئے تو فدک کے بارے میں بات کی گئی تو فرمایا مجھے اللّٰه سے حیا آتی ہے کہ میں اس حکم کو رد کروں جس کا فیصلہ ابوبکرؓ نے کیا اور عمرؓ نے برقرار رکھا"
فائدہ: اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے فیصلہ اور سیدنا عمرؓ کے اس پر قائم رہنے کو اللّٰه اور رسولﷺ کے حکم کے عین مطابق سمجھا ورنہ خدا سے حیا محسوس کرنے کا کیا مطلب اور سیدنا علیؓ کے متعلق وضاحت ہو چکی ہے کہ آپ نے فدک کے بارے میں اپنے دور اقتدار میـں وہی طریقہ اختيار کیا جسے وہ حکم خدا کے مطابق سمجھتے تھے جو طریقہ سیدنا ابوبکرؓ نے اتباعِ نبوی کے تحت احتیار کیا تھا"
دوسری جگہ تحریر فرمایا:
"اگر آلِ محمدﷺ میں دنیا کی محبت اس درجے کی ہو کہ حضورﷺ کی حدیث سننے کے باوجود چند کجھوروں کی خاطر جانشین رسولﷺ سے ناراض ہو جائیں اور پھر عمر بھر راضی ہونے کو نہ آئیں تو مندرجہ بالا حدیث رسولﷺ بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گی۔ کیا آلِ مُحَمَّدﷺ میں سے صرف سیدہ فاطمہؓ ہی کو آپ اتنا بڑا دنیا دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ آلِ مُحَمَّدﷺ کی عزت نہیں بلکہ توہین ہے۔"