Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شان امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومن ہیں۔(صحیح حدیث نبویﷺ)

  جعفر صادق

شانِ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت امیرِ معاویہؓ مومن ہیں (صحیح حدیث نبویﷺ)

 شیعہ اعتراض: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں۔
بغضِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کئے گئے اس اعتراض کا مقصد یہ ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی شان میں کمی کی جاسکے اور ایک جلیل القدر صحابی رسول پر تنقید کا در کھولا جائے۔
صحیح احادیث سے شانِ امیرِ معاویہؓ: 
سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ایمان، شرف صحابیت اور نبی کریمﷺ‎ کی زبان مبارک سے جنت کی بشارت صحاحِ ستہ کی احادیث سے ثابت ہے۔
1: سیدنا امیرِ معاویہؓ ایک سچا پکا مؤمن مسلمان
2: سیدنا امیرِ معاویہؓ ایک جلیل القدر صحابی رسول
3: سیدنا امیرِ معاویہؓ کے لئے مغفرت اور جنت کی بشارت:
آج ہم پہلی فضیلت کو ثابت کرتے ہیں۔
‏صحیح بخاری: حدیث: 2704 کتاب: کتاب صلح کے مسائل کا بیان باب: سیدنا حسن بن علیؓ کے متعلق نبی کریمﷺ‎ کا یہ فرمانا کہ میرا یہ بیٹا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِی مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْحَسَنَؓ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیؓ مُعَاوِيَةَؓ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِؓ:‏‏‏‏ إِنِّی لَأَرَى كَتَائِبَ لَا تُوَلِّی حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُؓ:‏‏‏‏ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏أَی عَمْرُوؓ إِنْ قَتَلَ هَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ مَنْ لِی بِأُمُورِ النَّاسِ بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِی بِضَيْعَتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ:‏‏‏‏ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُولَا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاطْلُبَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَا عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا وَقَالَا لَهُ فَطَلَبَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیؓ:‏‏‏‏ إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِی دِمَائِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَنْ لِی بِهَذَا؟ قَالَا:‏‏‏‏ نَحْنُ لَكَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالَا نَحْنُ لَكَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَالَحَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْحَسَنُؓ:‏‏‏‏ وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ‎ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیؓ إِلَى جَنْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ قَالَ لِی عَلِی بْنُ عَبْدِ اللَّهِ:‏‏‏‏ إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْأَبِی بَكْرَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ۔
ترجمہ: قسم اللہ کی جب سیدنا حسن بن علیؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے مقابلے میں پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو سیدنا عمرو بن العاصؓ نے کہا جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے مشیرِ خاص تھے کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمروؓ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوگوں کے امور کی جواب دہی کے لیے میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا حسنؓ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہؓ اور سیدنا عبداللہ بن عامر بن کریزؓ، آپؓ نے ان دونوں سے فرمایا کہ سیدنا حسن بن علیؓ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپؓ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپؓ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ سیدنا حسن بن علیؓ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے سیدنا امیرِ معاویہؓ آپؓ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپؓ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپؓ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپؓ سے پوچھا ہے۔ سیدنا حسنؓ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ سیدنا حسنؓ نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپؓ نے صلح کر لی پھر فرمایا کہ میں نے سیدنا ابوبکرہؓ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور سیدنا حسن بن علیؓ آپﷺ کے پہلو میں تھے، آپﷺ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی سیدنا حسنؓ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ 
امام بخاریؒ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینیؒ نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصریؒ کا سیدنا ابوبکرہؓ سے سننا ثابت ہوا ہے۔
غور فرمائیں!
میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
نبی کریمﷺ کے اس مشہور فرمان سے سیدنا حسن اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بیچ ہونے والی اس تاریخی صلح کا ذکر ہے جس سے مسلمانوں کے درمیان کئی سالوں سے جاری جنگوں کا خاتمہ ہوا اور مکمل راضی و خوشی سے اتحاد قائم ہوگیا تھا۔
اس تاریخی صلح سے دشمنانِ اسلام کو عبرتناک شکست ہوئی اور فتنہ و فساد کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔
صحیح بخاری کی اس حدیث کے مطابق نبی کریمﷺ سیدنا حسنؓ کی اس صلح کو اور دونوں جماعتوں کو سخت اختلافات اور جنگوں کے باوجود مسلمانوں کی جماعت قرار دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ صلح جنگِ جمل اور جنگِ صفین کے بعد یعنی سنہ 41 ہجری کا واقعہ ہے۔
بحیثیتِ مسلمان ہمارہ ایمان ہے کہ نبی کریمﷺ کی طرف سے کسی غلط بات کا ارشاد ہونا ممکن نہیں ہے بلکہ نبی کریمﷺ کا فرمان بھی وحی الہٰی ہوتا ہے۔
سیدنا حسنؓ کی طرف سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے بیچ صلح کی پیشیں گوئی بزبانِ نبویﷺ‎ کا ذکر نہ صرف صحیح بخاری بلکہ اہلِ سنت اور شیعہ مسلک کی کئی معتبر کتب میں موجود ہے۔
اہلِ سنت کتب:
1: صحیح ترمذی: جلد، 5 حدیث: 3773
2: مسند احمد: جلد، 5 حدیث: 44
3: تاریخ بغداد: جلد، 3 صفحہ، 215
4: کنز العمال: صفحہ، 12 13 حدیث: 34301، 34304۔
5: سنن نسائی: جلد، اوّل حدیث:1411
6: سنن ابی داؤد: جلد، چہارم حدیث: 4662
شیعہ کتب:
1: کشف الغمہ: جلد، اوّل صفحہ، 546 مطبوعہ تبریز
2: چودہ ستارے: صفحہ، 180
نبی کریمﷺ کا یہ فرمان عالیشان سنی و شیعہ کتب دونوں میں فضائل سیدنا حسنؓ میں موجود ہے۔
فرمانِ رسالت مآبﷺ میں یہ الفاظ ہیں کہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
یہ ایسے الفاظ ہیں جن سے:
سیدنا حسنؓ والے گروہ 
سیدنا امیرِ معاویہؓ والے گروہ
یعنی دونوں گروہوں کے ایمان و مسلمان ہونے کی خود زبانِ نبوی نے تصدیق فرمادی ہے۔
حسنینِ کریمینؓ نے صلح اور بیعتِ سیدنا امیرِ معاویہؓ کر کے اس پیشیں گوئی کی تائید فرما دی۔
اب کس کی جرأت ہے کہ اللہ کے محبوب جسے مؤمن فرمائیں! وہ اسے دائرہ ایمان سے نکال سکے!
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زبانِ نبوت کا انکار کر کے ایسا بدبخت خود ہی مؤمن نہ رہا!
حسنینِ کریمینؓ جس ہستی کی بیعت فرما لیں اور تادم آخر بیس سال تک 41 سے 60 ہجری اس بیعت پر قائم بھی رہے ہوں! کیا یہ دونوں ہستیاں غیر مؤمن کی بیعت کر سکتی تھیں؟
سیدنا حسنؓ کی طرف سے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح کرنا تاریخ کی ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔
جوانانِ جنت کے سرداروں نے یہ صلح اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت کر کے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ اور اس کی جماعت مؤمن اور سچے پکے مسلمان ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی مرتد، کافر یا مشرک کے آگے سر جھکانا، یا پوری اسلامی ریاست کی سربراہی دینا یا بعد میں 20 سال مسلسل ان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حسنین کریمینؓ کی طرف سے اس طرح کے غیر اسلامی فعل کا ہونا ممکن نہیں بلکہ ان کی شان کے خلاف ہے۔
کتبِ شیعہ میں بھی صاف لفظ بیعت موجود ہے۔ جس کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
1: مروج الذہب للمسعودی: جلد، سوم صفحہ، 7 مطبوعہ بیروت۔
2: رجال کشی: صفحہ، 102مطبوعہ کربلا ذکر قیس بن سعد۔
3: احتجاج طبرسی: جلد، دوم صفحہ، 9 مطبوعہ نجفِ اشرف جدید۔
4: جلاء العیون: جلد، اوّل صفحہ، 403 مطبوعہ تہران جدید۔
5: مقتل ابی مخنف: صفحہ، 302 مطبوعہ مکتبہ حیدریہ نجفِ اشرف 1375 ہجری۔
6: کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ: جلد، اوّل صفحہ، 571 طبع تبریز۔