فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیسری دلیل؛ حدیث ’’أنت منی بمنزلۃ‘‘
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیسری دلیل؛ حدیث ’’أنت منی بمنزلۃ‘‘
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے :’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں تیسری حدیث یہ ہے:
’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘
’’تم میرے لیے بلحاظ منزلت ایسے ہو جیسے ہارون حضرت موسیٰ کیساتھ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘
اللہتعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کو یہ مرتبہ عطا کیا تھا کہ وہ تمام مراتب میں بغیر کسی استثنیٰ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے۔اور اگر ان کے بعد زندہ رہتے تو ان کے خلیفہ ہوتے۔اگر ایسا نہ ہو تو اس سے نقص لازم آتا ہے۔ اور نیز اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں اورآپ کی غیوبت کے مختصر سے عرصہ میں آپ کے قائم مقام رہ چکے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کی صورت میں جب آپ کی غیوبت طوالت اختیار کر لیتی تو آپ کا خلیفہ ہونا زیادہ قرین عقل و قیاس تھا۔‘‘
[جواب]: اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ غزوہ ٔ تبوک کو جاتے وقت ارشاد فرمائے تھے۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک (حدیث:۴۴۱۶)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۰۴)۔]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب بھی آپ کسی غزوہ پر یا عمرہ پر یا حج پر مدینہ سے باہر جاتے؛ تومدینہ میں کسی صحابی کو اپنا نائب مقرر کردیا کرتے تھے۔جیساکہ آپ نے :
۱۔ غزوہ ذی امر پر جاتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ۔
۲۔ غزوہ بنی قینقاع میں حضرت بشیر بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ۔
۳۔ جب قریش کے ساتھ غزوہ پیش آیا اور آپ مقام قرع تک پہنچے تو ابن ام ِ مکتوم کو نائب مقرر فرمایا۔جیسا کہ محمد بن سعد نے ذکر کیا ہے ۔
جملہ طور پر یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اس وقت تک آپ مدینہ سے باہر تشریف نہیں لے جایا کرتے تھے جب تک کسی کو اپنا نائب مقرر نہ فرمادیتے ۔ مسلمان مؤرخین نے ان حضرات کے نام ذکر کیے ہیں جنہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نائب مقرر کیا تھا ۔
مدینہ طیبہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار عمرہ کاسفر کا کیا۔ ایک بار عمرہ حدیبیہ ؛ اوردوسری بار عمرہ قضا؛اور حجۃ الوداع کاسفر۔ اس کے علاوہ تقریباً بیس سے زیادہ مغازی کے سفر۔ ان میں سے ہر ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نہ کسی کو مدینہ طیبہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اس وقت مدینہ میں بہت سارے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن پر آپ کسی کو اپنا نائب مقرر فرماتے ۔
لیکن غزوۂ تبوک کو جاتے وقت کسی کو پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ ہے۔اور کسی اور غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جمعیت آپ کے ساتھ شریک سفر نہیں ہوئی جتنی بڑی جمعیت اس غزوہ میں تھی۔اس غزوہ میں صرف بچے اورخواتین ہی پیچھے رہ گئے تھے؛ یا پھر وہ لوگ تھے جو اپنی معذوری کی وجہ سے غزوہ پر نہیں جاسکے۔ یا پھر منافق۔ تین صحابہ بھی آپ کے ہمراہ نہ جا سکے تھے؛ جن کی توبہ قبول کرلی گئی۔[ فتح مکہ اور حجۃ الوداع کو جاتے وقت بھی آپ نے اپنا نائب مقرر کیا تھا۔مگر] غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں مسلمانوں کی کوئی جماعت بھی باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے یہ استخلاف اپنی نوعیت میں نرالا تھا؛ اور باقی استخلاف کی طرح نہیں تھا جیساکہ ہر بار مدینہ سے باہر جاتے ہوئے مقرر فرمایا کرتے تھے۔بلکہ یہ استخلاف بقیہ استخلافات کی نسبت کمزور تھا۔
اس لیے کہ[اس بار] مدینہ میں کوئی طاقتور مؤمن باقی نہیں رہا تھا؛جس پر کسی کو خلیفہ بنایا جاتا؛ جیسا کہ بقیہ تمام
غزوات میں ہوا کرتا تھا۔ ان مواقع پر مدینہ میں بہت سارے طاقتور اہل ایمان موجود ہوا کرتے تھے؛ پھر جس کو آپ چاہتے ان پر خلیفہ بنادیتے۔پس آپ نے اپنے مغازی میں جتنے بھی لوگوں کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا؛ جیسا کہ غزوہ بدر کبری وصغری؛ غزوہ بنی مصطلق؛ غزوہ غابہ؛ غزوہ خیبر؛ غزوہ فتح مکہ؛ اور دیگروہ تمام مغازی جن میں جنگ تک نوبت نہیں پہنچی؛ ان کی تعداد سترہ سے کچھ زیادہ غزوات ہیں ؛ ان تمام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین بنایا تھا؛ سوائے چند ایک مواقع کے ۔ایسے ہی آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اور اس سے قبل دونوں بارعمرہ کے موقع پر اورغزوہ تبوک کے موقع پر بھی آپ نے اپنے جانشین متعین کیے تھے۔
اس لیے کہ مدینہ میں ہر بار ایسے لوگ موجود ہوا کرتے تھے جو کہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کی نسبت بہت افضل ہوا کرتے تھے۔ اس سے قبل کا استخلاف ان لوگوں سے افضل لوگوں پر ہوا کرتا تھا جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیا تھا۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روتے ہوئے آئے اور عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں ؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منافقین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طعن و تنقید کرتے ہوئے یہ خبر اڑائی تھی کہ : ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں اس لیے ان کو جہادمیں ہمراہ نہیں لے جا ر ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے آپ کو امین سمجھ کر اپنا نائب مقرر کیا ہے؛ بغض کی بنا پر نہیں ۔ اور کہ نائب بنائے جانے سے شان میں کوئی کمی نہیں آتی؛ اور نہ ہی اس میں کسی کے لیے کوئی حسد و بغض ہے۔جب حضرت موسی علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب بنارہے ہیں تو پھر یہ فعل نقص کس طرح سے ہوسکتا ہے؟[ جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت ہارون کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اسی طرح میں بھی تمہیں نائب مقرر کررہا ہوں ]۔اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مطمئن کردیا۔آپ نے یہ تسلی دی کہ کسی کو نائب بنایا جانا اس کے امین اور صاحب ِمرتبت ہونے کی دلیل ہے ۔اس میں کسی کی اہانت یا خیانت نہیں ۔اس لیے کہ نائب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں تمام امور پر امین و نگہبان ہوگا ؛ چونکہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں نکل چکے تھے۔
بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی جنگ کے لیے نکلتے ہیں تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ لیتے ہیں جن سے زیادہ مدد حاصل ہوسکتی ہو۔ یا پھر جن کی ہمراہی کا فائدہ زیادہ ہو۔ جن کے مشورہ کی ضرورت زیادہ ہو ‘ اور جن کی زبان اور ہاتھ اور تلوار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہو۔
پس پیچھے رہ جانے والوں کے لیے کسی بڑی سیاست کی ضرورت نہیں تھی۔اس لیے ان ساری باتوں کی چنداں حاجت نہیں تھی۔ اس وجہ سے بعض لوگوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نقص اور کمی شمار کیا ؛ اور آپ کو آپ کی منزلت سے کم جانا۔اس لیے کہ اس اہم ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنے ساتھ لیکر نہیں گئے جس میں سعی و اجتہاد کی بہت زیادہ ضرورت تھی ؛ بلکہ آپ کو ان مواقع پر چھوڑ دیا جن پر کسی بڑی سعی و اجتہاد کی ضرورت نہ تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ آپ کو نائب بناکر پیچھے چھوڑنے سے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس لیے کہ اگر ایسا کرنا نقص یا عیب ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ کبھی بھی ایسا نہ کرتے ۔مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا استخلاف حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت و نیابت کی مانند نہ تھا ۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مناجات باری تعالیٰ کے لیے کوہ طور پر گئے تھے توآپ اکیلے گئے تھے ‘ اور اپنی عدم موجودگی میں ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اور پورا لشکر حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت مدینہ کا نائب مقرر کیا گیا تھا جب کہ تمام اہل اسلام کا لشکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں جنگ کے لیے جا رہے تھے۔اورمدینہ میں سوائے خواتین ‘ بچوں اور معذوروں کے علاوہ صرف وہ لوگ باقی تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے پیچھے رہ گئے تھے۔
کسی کا یہ کہنا کہ : ’’ یہ چیز فلاں چیز کی منزلت پر ہے ۔‘‘ یا یہ کہنا کہ : ’’ فلاں چیز فلاں دوسری چیز کی مانند ہے ۔‘‘ تو کسی چیز کی دوسری چیز سے تشبیہ سیاق کی دلالت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ یہ دونوں چیزیں ہر لحاظ سے اور ہر چیز میں مساوی ہیں ۔ [ باقی رہا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تھے:’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی‘‘تو یاد رہے کہ ایسے الفاظ میں تشبیہ ہر لحاظ سے مقصود نہیں ہوتی اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مُشَبَّہ اور مُشَبَّہ بِہٖ دونوں بالکل مساوی ہیں ۔]
[حدیث استخلاف کی توضیح]:
کیا آپ دیکھتے نہیں ہے کہ صحیحین میں بدر کے قیدیوں والی روایت موجود ہے ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو آپ فدیہ لیکر رہا کردینے کا مشورہ دیا۔اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے ان سب کو قتل کردینے کا مشورہ دیا ۔ اس روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ابھی تمہیں تمہارے دونوں ساتھیوں کے بارے میں بتاؤں گا۔
اے ابو بکر رضی اللہ عنہ ! آپ کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [ابراہیم۳۶]
’’پس جو کوئی میری اتباع کرے وہ مجھ سے ہے ‘ اور جو میری نافرمانی کرے بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘
اور حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ [المائدۃ۱۱۸]
’’ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔‘‘
اور اے عمر! آپ کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ﴾ [نوح ۲۶]
’’کہ اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ۔‘‘[مسند احمد(۱؍۳۸۳۔۳۸۴) ،مستدرک حاکم(۳؍۲۱۔۲۲)، و اسنادہ ضعیف۔ ابو عبیدہ کا اپنے والد عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔]
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِہِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾
[یونس]
’’ اے ہمارے رب!ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ فرمانا کہ آپ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہماالسلام کی مثال ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ فرمانا کہ آپ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حضرت نوح اور حضرت موسی علیہماالسلام کی مثال ۔یہ بات اس سے بہت بڑھ کر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میری نسبت سے آپ کی وہی منزلت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے حضرت ہارون علیہ السلام کی منزلت ۔ اس لیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابراہیم ‘ حضرت نوح ؛ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام یقیناً حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت بڑے مقام و مرتبہ والے انبیائے کرام علیہم السلام ہیں ۔ اس حدیث میں ان دونوں صحابہ کرام حضرت ابوبکر اورحضرت عمر رضی اللہ عنہما کو ان چار جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تشبیہ ہر لحاظ سے ہے۔ بلکہ سیاق کلام کی دلالت کے اعتبار سے مقصود صرف یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لطافت طبع اور نرم مزاجی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے طبعی تشدد میں حضرت نوح علیہ السلام کی مانند تھے۔
ایسے ہی یہاں پر [حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہارون علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ صرف اس اعتبار سے دی گئی ہے ]جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے ۔ اوروہ یہ ہے کہ جس طرح ہارون موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں ان کے قائم مقام قرا ر پائے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں آپ کے نائب و خلیفہ تھے۔
یہ استخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے دیگر استخلافات کی مانندہے؛ چہ جائے کہ آپ کے بقیہ استخلافات سے افضل ہو۔کئی بارغزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیا جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کئی گنا زیادہ افضل و بڑھ کر تھے۔ایسی صورت میں وہ لوگ جو دیگر مواقع پر خلیفہ بنائے گئے ‘ ان کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقدیم یا افضلیت ثابت نہیں ہوتی۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسی نیابت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا موجب ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مدینہ طیبہ میں مختلف لوگوں کو اپنا نائب بنایا۔ آپ کے مقرر کردہ نائبین اس طرح تھے جیسے حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہماالسلام کے خلیفہ تھے؛یہ اسی استخلاف کی جنس سے ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا تھا۔ بلکہ باقی استخلافات اس لیے اس سے افضل تھے کہ عام استخلافات میں غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں کی نسبت زیادہ اور افضل لوگ ہوا کرتے تھے۔ اور اس وقت میں مدینہ میں کسی کو نائب بنانے کی ضرورت بھی بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اس لیے کہ مدینہ پر دشمن کی یورش[حملہ ] کا خوف ہواکرتا تھا۔
تبوک والے سال تمام حجاز کے عرب مسلمان ہوچکے تھے۔ مکہ مکرمہ فتح ہوچکا تھا؛ اسلام کو غلبہ اور قوت حاصل ہوچکی تھی ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ملک ِ شام کے اہل کتاب کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ اس وقت مدینہ میں دشمن سے مقابلہ کرنے والے مجاہدین کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ایک مجاہد کو بھی باقی نہ چھوڑا تھا۔ جیسا کہ باقی تمام غزوات آپ کی عادت مبارکہ تھی کی کچھ مجاہدین کو مدینہ میں باقی چھوڑا کرتے تھے ؛ اس بار آپ نے تمام مجاہدین کو اپنے ساتھ لے لیا تھا‘ کسی ایک کو بھی مدینہ میں باقی نہیں چھوڑا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تخصیص بالذکر لقب کے مفہوم سے ظاہر ہو رہی ہے۔ لقب دو قسم کا ہوتا ہے:
۱۔ وہ لقب جو جنس کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲۔ وہ لقب جو عَلَمْ کا قائم مقام ہوتا ہے۔ مثلاًزید؛ و أنت۔ یہ مفہوم نہایت کمزور ہے۔
اسی لیے تمام فقہاء اور علمائے اصول کا نظریہ یہ ہے کہ اس روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔مثال کے طور پر جب یہ کہا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘ تو اس سے باقی رسولوں کی نفی نہیں ہوتی۔لیکن اگر سیاق کلام میں کوئی ایسی چیز ہو جس کا تقاضا تخصیص کا ہو تو پھر صحیح مذہب کے مطابق ایسی روایت سے استدلال کرنا جائز ہوتا ہے ۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَفَھَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَ ﴾ [انبیاء ۷۹]
’’ اور ہم نے سلیمان علیہ السلام کو خوب سمجھ عطا کی ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿کَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ ﴾ [مطففین ۱۵]
’’ہر گز نہیں ‘ بیشک اس دن وہ اپنے رب سے پردہ میں ہوں گے ۔‘‘
ہاں جب تخصیص کی مقتضیٰ سبب کی بنیاد پر ہو تو باتفاق الناس ایسی روایت سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔ یہ روایت بھی اسی ضمن کی روایات میں سے ایک ہے ۔ اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بطورخاص ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تھے کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ جتنے لوگوں کو خلیفہ یا نائب بنایا گیا تھا ؛ ان میں سے کسی ایک کے بھی ذہن میں یہ بات نہیں آئی [نہ ہی انہوں نے کوئی اعتراض کیا ‘ اور ]نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت پیش آئی کہ وہ دوسرے لوگوں کو اس طرح کی کوئی بات بتائیں ۔پس جب یہاں پر بطور خاص آپ کا تذکرہ کرنے کی وجہ وہ سبب ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ یہ جملہ بطور خاص آپ کے لیے ذکر کیا جائے۔ پس اس حدیث میں کہیں بھی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ کوئی دوسرا آپ کے لیے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام کی منزلت پر نہیں ہوسکتا ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر؛ جسے شراب پینے کے جرم میں مارا جارہا تھا؛ لعنت کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اس پر لعنت مت کرو؛ اس لیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے ۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]
یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتا ۔ بلکہ آپ نے اس کا تذکرہ بوجہ ضرورت کے کیا تاکہ اس پر لعنت کرنے سے روکا جائے۔
ایسے ہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسے رہنے دو ‘ اس لیے کہ اس نے غزوہ بدر میں شرکت کی ہے ۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]۔
اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا بدر میں شریک نہیں ہوا؛ بلکہ اس کا تذکرہ اس وجہ سے کیا کہ اس کی غلطی سے درگزر کرلیا جائے۔
ایسے ہی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ مبشرہ کا نام لے کر انہیں جنت کی ضمانت دی ؛ تو اس سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جنت میں داخل نہیں ہوگا؛ بس اس موقع کا تقاضا یہی تھا اس لیے آپ نے خصوصی تذکرہ فرمایا۔
ایسے ہی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اورحضرت اسامہ رضی اللہ عنہما کے لیے فرمایا:
’’ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر ؛ اور جو کوئی ان دونوں سے محبت کرے ‘ اس سے بھی محبت کر ۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]
اس سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ان دونوں کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ دوسرے ایسے لوگ بھی تھے ؛ جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے بڑھ کر محبت کرتے تھے۔
ایسے ہی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا:
’’ جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]
تو اس حدیث کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ان کے علاوہ باقی سبھی لوگ جہنم میں داخل ہوں گے ۔
اسی طرح جب آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہماالسلام سے تشبیہ دی ؛ تو یہ اس بات میں مانع نہیں ہے کہ آپ کی امت میں کو ئی دوسرا بھی ان دونوں انبیاء کرام علیہماالسلام سے مشابہت رکھتا ہو۔ اور ایسے ہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت نوح اور حضرت موسیٰ علیہماالسلام سے تشبیہ دی تو اس سے کہیں بھی یہ ممانعت ثابت نہیں ہوتی کہ امت میں کوئی دوسرا ان دونوں انبیاء کرام علیہم السلام کے مشابہ نہیں ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ : آپ کی امت میں سے جو لوگ انبیائے کرام علیہم السلام سے مشابہت رکھتے ہیں ‘ ان میں سے یہ دو حضرات افضل ترین لوگ ہیں ؟
تواس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : اختصاص میں کمال اصل ِ تشبیہ میں مشارکت سے مانع نہیں ہوسکتا۔
ایسے ہی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’ آپ صاحب یس کی طرح ہیں ۔‘‘
ایسے ہی آپ نے قبیلہ اشعری کے بارے میں فرمایا: ’’ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔‘‘
یہ صرف اس قبیلہ کیساتھ ہی خاص نہیں ؛ بلکہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی فرمایا : ’’ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ۔‘‘
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولا[دوست ] ہیں ۔‘‘
یہ بات صرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص نہیں تھی ؛ بلکہ آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ایسے ہی فرمایا تھا۔
جملہ طور پر اس باب میں امثال اور تشبیہات بہت زیادہ ہیں ۔ ان سے کہیں بھی ہر لحاظ سے تماثل کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کا اعتبار سیاق کلام کے لحاظ سے ہوتا ہے ۔ اور نہ ہی اس کا تقاضا مشبہ کے لیے تشبیہ میں تخصیص کا ہوتا ہے۔ بلکہ اس میں کسی دوسرے کی شراکت بھی ممکن ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ﴾ [البقرۃ ۲۶۱]
’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں ۔‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے : ﴿وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ [اِذْ جَآئَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ]﴾ [یس۱۳]
’’اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک)بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجئے [جبکہ اس بستی میں (کئی)رسول آئے] ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْہَا صِرٌ﴾[آل عمران]
’’یہ کفار جو خرچ کریں اس کی مثال یہ ہے ایک تند ہوا چلی جس میں پالا تھا۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن میں بیالیس مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔
اب کہنے والے کا یہ دعوی کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبوت کے سوا باقی ہر بات میں ہارون علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ محض باطل کلام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی ’’اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی‘‘سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو راضی کرنا چاہتے تھے۔ اور آپ کا دل خوش کرنا چاہتے تھے۔اس لیے کہ آپ کو یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ ان کو پیچھے چھوڑ کر جانے سے ان کے درجہ میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط فہمی کے ازالہ کے لیے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
آپ کے فرمان : ’’بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی‘‘اسے آپ کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون علیہ السلام جیسا مرتبہ حاصل ہے۔اس لیے نہیں کہ وہ مقام و مرتبہ جو حضرت ہارون کوحضرت موسیٰ علیہماالسلام سے تھا وہ کسی بھی دوسرے کے لیے نہیں ہوسکتا۔بلکہ کسی دوسرے کے لیے اس کے مشابہ مقام و مرتبہ ہوسکتا ہے۔یہ قول ایسے ہی جیسے مثال کے بیان میں ہوتاہے ؛ اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا: ’’ اس کی مثال حضرت ابراہیم اور عیسی علیہماالسلام کی ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا: ’’اس کی مثال حضرت موسیٰ اور نوح علیہماالسلام کی ہے ۔‘‘
مزید وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ آپ نے یہ جملے تبوک والے سال ارشاد فرمائے۔ پھر تبوک سے واپسی پر آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا ؛ اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ کے پیچھے بھیجا؛ توآپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : امیر بن کر آئے ہو یا مامور ؟ تو انہوں نے کہا: نہیں بلکہ مأمور بن کر آیا ہوں ۔‘‘ اس وقت تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی آپ پر امیر تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ بالکل ایسے ہی تھے جیسے کوئی مامور اپنے امیر کیساتھ ہوتا ہے۔
[ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر چیز حضرت ہارون علیہ السلام کے مشابہ ہوتے تو ۹ ھ میں [سفر حج میں ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر نہ کرتے]۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھتے اور ان کی اطاعت کیا کرتے تھے۔اور آپ کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے مشاعر مقدسہ میں لوگوں میں اعلان کرتے جاتے :
’’لوگو سن لو! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا‘ اور نہ ہی کوئی ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔‘‘[صحیح بخاری:ح۳۶۲۔پوری روایت یوں ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں : مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے امیر حج ہونے کے دن بزمرہ موذنین بھیجا تاکہ ہم منی میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کرطواف کرے، حمید بن عبدالرحمن (جو ابوہریرہ سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ) کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کے پیچھے علی کو بھیجاتھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورت برات کا اعلان کریں ، علی نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منی میں لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ (ہو کر)کعبہ کا طواف کرے۔]
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کفار کے عہد واپس کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ عربوں کے ہاں رسم تھی کہ عہد باندھنے اور توڑنے کے لیے معاہدہ کرنے والا سردار اور بڑاخود جایا کرتا تھا یا اپنے کنبہ کا کوئی آدمی بھیجا کرتا تھا۔تو پھر ایسے نہیں ہوسکتا تھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے علاوہ کسی اور کی زبانی وہ اس عہد کی واپسی کو قبول کرلیتے۔
اس کی وضاحت اس چیز سے بھی ہوتی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال یہ ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی آپ کے بعد خلیفہ ہوں تو پھر یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ اس میں دو افراد سر گوشی کرلیتے۔اور نہ ہی پھر اس میں تاخیر کی جاتی حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ضرورت پیش آئی کہ وہ روتے ہوئے اور شکایت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ بلکہ پھر یہ ایسا حکم تھا جس کا بیان کرنا اورایسے کھلے الفاظ میں لوگوں تک پہنچانا واجب تھا جس سے مقصود حاصل ہوسکے۔
پھر رافضیوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ ان کے کلام میں تناقض پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث بغیر کسی شک و شبہ کے دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کلمات صرف غزوہ تبوک کے موقع پر کہے تھے۔ [اگر آپ نے اس سے پہلے بھی کبھی یہ ارشاد فرمایا ہوتا]اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوتاتو آپ کا دل بالکل مطمئن ہوتاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں او راس کے بعد بھی ہارون علیہ السلام کی منزلت پر ہیں ۔ تو پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے حاضر نہ ہوتے۔ اور آپ یہ بالکل نہ فرماتے کہ : آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنارہے ہیں ؟
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مطلق طور پرخلیفہ ہوتے تو کبھی بھی آپ پر کسی دوسرے کو نائب نہ بناتے ۔ ایسا بھی ہواکرتا تھا کہ آپ مدینہ میں موجود ہوتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے کو یہاں پرنائب مقرر کرتے ۔ جیسا کہ خیبر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ میں موجود تھے ؛ آپ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ اوریہاں پر امیر کوئی دوسرا صحابی تھا۔پھر آپ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے ؛ اور جب آپ تشریف لے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جھنڈا عطا کیا ؛ اس سے پہلے یہ جھنڈا کسی اور کے سپرد تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]۔
شیعہ مصنف کا یہ کہناکہ :’’چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور بہت تھوڑا وقت کی غائب ہونے کی صورت میں آپ کے خلیفہ تھے۔ لہٰذا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اور لمبی مدت کی غیبوبت میں بھی آپ کے قائم مقام ہونے کے زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موجودگی کے باوجود اپنی غیوبت میں کئی بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے کئی لوگوں کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ان کی نیابت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نیابت سے کہیں بڑھ کر اور عظیم الشان تھی۔ اور جن لوگوں پر انہیں نائب بنایا گیا وہ لوگ بھی ان سے افضل تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیا تھا۔ غزوہ تبوک کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو مدینہ میں نائب بنایا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنانے سے آپ خلافت کے ان لوگوں سے زیادہ حقدار نہیں بن جاتے جنہیں کئی دوسرے مواقع پر مدینہ طیبہ میں نائب بنایا گیا تھا۔مدینہ میں آپ کی سب سے بڑی اور آخر ی نیابت حجۃ الوداع کے موقع پر تھی۔اس وقت جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے۔اور حج میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ لیکن حجۃ الوداع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نائب تو نہیں تھے کوئی دوسرے صحابی تھے۔
اگر نائب کا خلیفہ بننا ہی اصل ہے ؛ تو پھر جس انسان کو حجۃ الوداع کے آخری موقع پر نائب بنایا گیا تھا ؛ اسے خلیفہ بننا چاہیے۔وہ اپنے سے پہلے نائبین کی نسبت خلیفہ بننے کا زیادہ حق دارہے۔
خلاصہ کلام ! مدینہ پر نائب بنایا جانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ۔اور نہ ہی یہ افضلیت اور امامت کی دلیل ہے۔ بلکہ آپ کے علاوہ بھی کئی دوسرے لوگوں کو مدینہ میں نائب بنایا گیا۔لیکن رافضیوں کی جہالت کی حد یہ ہے کہ وہ فضائل جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کے مابین مشترک ہیں انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خصائص شمار کرتے ہیں ۔اگرچہ کوئی دوسرا ان فضائل میں آپ سے زیادہ کامل ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ انہوں نے نصوص اور وقائع میں کیا ہے۔
عیسائیوں نے بھی تو ایسے ہی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جو معجزے عطا کیے تھے؛ عیسائی انہیں صرف آپ کے ساتھ ہی خاص شمار کرنے لگے حالانکہ ان معجزات میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام بھی شریک ہیں ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات سے بڑھ کر تھے۔ اورپھر کوئی ایسا سبب بھی نہیں پایا جاتا جو ان معجزات کو ابراہیم وموسیٰ علیہماالسلام کو چھوڑ کر حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ بطور خاص واجب کرتا ہو۔ نہ ہی حلول اور نہ ہی اتحاد؛ ایسی کو ئی بھی چیز نہیں ۔بلکہ اگر یہ ساری چیزیں ممتنع ہیں ‘ تواس میں کوئی شک نہیں کہ تمام[انبیائے کرام] میں حلول اور اتحاد ممتنع ہے۔ اور اگر اس کی تفسیر کسی ممکن بات سے کی جائے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول اور اس پر ایمان ؛ اور پھر اس ایمان سے حاصل ہونے والے انوار اوردیگر امور۔تویہ مشترکہ قدر اور ممکن بات ہے۔
یہی حال شیعہ کاہے۔جو معاملات حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ کرام کے مابین مشترک او ران سب کو شامل ہیں ‘ انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص قراردیتے ہیں ۔اورپھر اسی پر عصمت ‘ امامت اور افضلیت کو مرتب کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ساری باتیں ممنوع و منتفی ہیں ۔
جس انسان کو سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ احوال صحابہ رضی اللہ عنہم معانی القرآن والحدیث کی معرفت ہو ؛ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ یہاں پر کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ کی امامت یا افضلیت کا وجوب ثابت ہوتا ہو۔ بلکہ یہ مشترکہ فضائل ہیں ۔ ان سے حاصل ہونے والا فائدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان و ولایت کا ثبوت ہے؛ اوران ناصبی لوگوں پر رد ہے جو آپ کو گالی دیتے ؛ فاسق کہتے ؛ اور کافر قرار دیتے ہیں ۔اورآپ کی شان میں ایسے ہی نازیبا کلمات کہتے ہیں جو رافضی خلفاء ثلاثہ کی شان میں کہتے ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے ثابت ہونے میں نواصب پرویسے ہی رد ہے جیسے خلفاء ثلاثہ کے فضائل کے اثبات میں روافض پر رد ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر روافض اورخوارج دونوں ہی تنقید کرتے ہیں ۔جب کہ شیعان عثمان آپ کے امام برحق ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر جرح کرتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی بدعت میں شیعان علی سے بہتر ہیں جو آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں پر جرح کرتے ہیں ۔ جب کہ زیدیہ جو کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے دوستی رکھتے ہیں ‘ اس معاملہ میں اضطراب کا شکار ہیں ۔
پس اپنی زندگی میں نائب مقرر کرنا جانشینی کی ایک قسم ہے۔ہر حکمران کے لیے ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ہر وہ انسان جو زندگی میں امت کے بعض امور پر جانشین بننے کے قابل ہو ؛ وہ موت کے بعد بھی خلیفہ بننے کی صلاحیت کا مالک ہو۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کئی لوگوں کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا ؛ مگریہ لوگ آپ کے بعد خلیفہ بننے کے قابل نہیں تھے جیسے بشیر بن عبد المنذر وغیرہ۔
نیز اس لیے بھی کہ آپ کی زندگی میں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی آپ سے مطلوب ہے۔ جیسے کہ یہ چیز حکمرانوں سے مطلوب ہوتی ہے۔جب کہ موت کے بعد آپ سے کوئی بھی ایسی چیز مطلوب نہیں ۔اس لیے کہ آپ نے تبلیغ رسالت کا فریضہ پورا کردیا‘اور امانت کا حق ادا کردیا؛ امت کی خیر خواہی کی؛اوراس وقت تک اللہ کی بندگی کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام آپہنچا۔ آپ کی زندگی میں دشمنوں سے جہاد کرنا؛ مال فئے تقسیم کرنا؛شرعی حدود کا قیام؛عمال کا تعین آپ پر واجب تھا؛ اور ان کے علاوہ دوسرے امور جو کہ آپ کے بعد کے حکمرانوں پر واجب تھے ۔ مگر موت کے بعد تو ان میں سے کوئی ایک چیز بھی آپ پر واجب نہیں تھی۔
پس اپنی زندگی میں نائب مقررکرنا ایسا نہیں ہے جیسے موت کے بعد کے لیے نائب مقرر کرنا ہے۔اس لیے کہ انسان جب کسی کو اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو تربیت دینے کے لیے اپنا نائب مقرر کرتا ہے ؛ تو اس نائب کی حیثیت محض ایک ایجنٹ [ وکیل] کی ہوتی ہے ؛یہ صرف وہی کچھ کریگا موکّل نے جس کا حکم دیا ہے۔ اور اگر کوئی اپنے مرنے کے بعد اپنی اولاد پر کسی کو اپنا نائب مقرر کریگا تو اس کی حیثیت مستقل نائب [و ولی ] کی ہوگی ۔ یہ ان لوگوں کی مصلحت کے مطابق ہی ایسے کام کرے گا جن کا حکم اللہ اوراس کے رسول نے دیا ہے۔ اس کی حیثیت محض میت کے ایجنٹ [وکیل] کی نہیں ہوگی ۔
یہی حال حکمرانوں کا بھی ہے ۔ جب ان میں سے کوئی ایک کسی کواپنا نائب مقرر کریگا تووہ نائب بعض متعین امور میں ویسے ہی کرے گا جیسے اس کو حکم ملے گا۔ ہاں اگر اسے موت کے بعد نائب مقرر کیا جائے تو وہ اپنی ولایت میں اللہ اوراس کے رسول کے احکام کے مطابق ہی تصرف کرے گا۔اس تصرف کی نسبت اسی کی طرف ہوگی میت کی طرف نہیں ہوگی۔ بخلاف اس کے کہ اگر اس کی زندگی میں اس کے حکم سے کوئی کام کرے تو اس کی نسبت نائب بنانے والے کی طرف ہوگی۔ تو دونوں باتوں کے درمیان بہت بڑا فرق موجود ہے۔
کسی بھی عقلمند نے یہ بات نہیں کہی کہ اگر کسی شخص نے بعض امور پر کسی کو اپنا نائب مقرر کیا ؛ اور یہ نیابت مکمل بھی ہوگئی تو پھربھی وہ انسان اس اصل خلیفہ کی موت کے بعد اس کا جانشین قرار پائے گا۔ لیکن کیا کریں کہ رافضی معقول و منقول میں ہر لحاظ سے لوگوں میں سے سب سے بڑے اورپرلے درجے کے جاہل ہیں ۔