Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں

  احقر العباد نذیر احمد مخدوم سلمہ القیوم

حضورﷺ کی صاحبزادیاں

آج کل نبی کریمﷺ کی بیٹیوں کا مسئلہ بڑا معرکۃ الآراء بنا ہوا ہے۔ کہ شیعہ رسول پاکﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کو مانتے ہیں۔ باقی تینوں کا سرے سے نبی پاکﷺ کی صاحبزادیاں ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اور اہلِ سنت حضرات کے نزدیک نبی کریمﷺ کی حقیقی چار صاحبزادیاں ہیں۔ چاروں سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے بطنِ اطہر سے پیدا ہوئیں۔ در پردہ یہ بات ہے کہ اگر شیعہ بھی حضورﷺ کی چار صاحبزادیاں تسلیم کر لیں تو پھر انہیں ان کے نکاح تسلیم کرنے پڑیں گے۔ اگر نکاح مان لیں تو سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرح سیدنا عثمان غنیؓ اور ابو العاص بن ربیعؓ کو بھی رسول پاکﷺ کا داماد ماننا پڑے گا۔ اگر داماد مان لیں گے، تو ان کی تبرا بازی والی دکان ٹھنڈی ہو جائے گی۔ اس لیے سرے سے انکار کر دیا کہ حضور پاکﷺ کی صرف ایک ہی صاحبزادی تھی، اور وہ بس۔ اگرچہ اس مسئلہ میں علماء نے مستقل کتابیں لکھ لکھ کر حوالہ جات کو عام کیا ہے زیادہ تحقیق کی ضرورت ہو تو وہاں دیکھ لیں۔ اختصار کے ساتھ بندہ بھی حقیر سی تحقیق سوال و جواب کی شکل میں پیش کرتا ہے۔

سوال:

حضور پاکﷺ کی چار صاحبزادیاں قرآن پاک سے ثابت کریں؟

جواب:

قرآن پاک کے بائیسویں پارہ کے چوتھے رکوع میں موجود ہے۔

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ

(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 59)

اے نبیﷺ اپنی بیبیوں اپنی بیٹیوں اور مومنین عورتوں سے کہہ دو۔)

(ترجمہ فرمانِ علی شیعہ)

اس آیت میں ازواج بنات اور نساء تینوں جمع کے صیغے ہیں۔

اور عربی زبان میں جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے، تو جیسے ازواج نبی دو سے زائد ہیں۔ نساء المؤمنین بھی دو سے زائد ہیں۔ اس طرح بنات بھی دو سے زائد ثابت ہو رہی ہیں، اور جس طرح کتبِ تفسیر و کتبِ حدیث میں نبی پاکﷺ کی دو سے زائد تمام بیویوں کے نام بتائے گئے ہیں۔ اسی طرح نبی پاکﷺ کی دو سے زائد چاروں صاحبزادیوں کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔

سوال:

کیا اہلِ سنت اپنی تفسیروں اور حدیث کی کتابوں سے حضور اکرمﷺ کی چاروں صاحبزادیوں کے نام دکھا سکتے ہیں؟

جواب:

اہلِ سنت کی تفاسیر کتبِ احادیث اور کتبِ تاریخ اور سیر سے حضور پاکﷺ کی چار صاحبزادیوں کے تفصیل کے ساتھ نام اور حالات ملتے ہیں۔ بلکہ علامہ آلوسیؒ نے اپنی مشہور تفسیر روح المعانی میں شیعہ کے زعمِ باطل کی تردید بھی کی ہے۔

چنانچہ ملاحظہ ہو روح المعانی صفحہ 90 جلد 22

وفی الایة ردّ علی من زعم من الشیعہ انہ علیہ السلام لم یکن لهٗ من البنات الاّ فاطمة اما رقيّة و امّ كلثوم فربيبتاه.

اس آیت میں تردید ان لوگوں کی ہے جو شیعہ میں سے کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی فاطمہؓ کے علاوہ اور کوئی بیٹی نہ تھی اور سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ کو سیدہ خدیجہؓ کے سابق خاوند کی اولاد بتلاتے ہیں۔

اسی طرح تفسیر روح البیان میں بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ رحمت اللعالمین سید سلیمان ندویؒ سے لے کر تمام تاریخ و سیر کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے: کہ آپﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں سیرت ابنِ ہشام ،سیرت حلبیہ، سیرت المصطفٰی، سیرت النبیﷺ نظروں سے گزری ہیں۔ جن میں چاروں صاحبزادیوں کا ثبوت ملتا ہے۔

سوال:

نبی کریمﷺ کی چار صاحبزادیوں کا ثبوت کتبِ شیعہ سے بھی آپ ثابت کر سکتے ہیں؟

جواب:

کتبِ شیعہ میں بھی حضور پاکﷺ کی چار صاحبزادیوں کی روایات کثرت سے ملتی ہیں۔

چنانچہ ملاحظہ ہو حیات القلوب صفحہ 824 جلد 2 طبع تہران(ایران)

پہلا حوالہ:

بسند معتبر از جعفر صادق علیہ السلام روایت کردہ است ازبرائے رسول خداﷺ از خدیجہ متولد شد ند طاہر و قاسم و فاطمہ و ام کلثوم و رقیہ و زینب و فاطمہ را بحضرت امیر المؤمنین تزویج کرد بابو العاص بن ربیع کہ از بنی امیہ بود زینب را وبعثمان بن عفان ام کلثوم را و پیش اذاں کے بخانہ وآں بردد برحمت الہی واصل شد و بعد از حضرت رقیہ رب باد تجویج نمود۔

معتبر سند کے ساتھ سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہﷺ کے ہاں سیدہ خدیجہؓ سے طاہر و قاسم(رضی اللّٰه عنہما) اور فاطمہؓ اور امِ کلثومؓ اور رقیہؓ اور زینبؓ پیدا ہوئے اور آپﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علیؓ سے کیا اور سیدہ زینبؓ کا نکاح حضرت ابو العاصؓ بن ربیع سے کیا جو بنو اُمیہ سے تھے۔ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ بن عفان سے کیا اُمِ کلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے گھر جانے سے پہلے ہی فوت ہو گئیں تو سیدہ رقیہؓ کا ان سے نکاح کیا گیا۔

ناظرین کرام غور سے فارسی عبارت اور اس کے ترجمہ کو دیکھیں کتنا واضح الفاظ میں سیدنا جعفر صادقؒ حضورﷺ کی چار صاحبزادیوں کا اعلان فرما رہے ہیں۔ مگر موجودہ شیعوں کو کون سمجھائے؟ نیز مذہبِ شیعہ کی ایک معتبر کتاب اصول کافی صفحہ 278 طبع نو لکشور ملاحظہ فرمائیں۔

دوسرا حوالہ

وتزوج خدیجہؓ وھو ان بضع و عشرین سنة فولد لہ منھا قبل مبعثہ القاسم و رقیہ و زینب و ام کلثوم وولد لہ بعد المبعث والطیب والطاھر والفاطمة۔

آپﷺ نے سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے ساتھ شادی کی، اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک بیس سال اور چند ماہ تھی۔ بس اعلانِ نبوت سے پہلے رسول پاکﷺ کے لیے ان خدیجہؓ کے بطن سے قاسمؓ سیدہ رقیہؓ ، سیدہ زینبؓ اور سیدہ اُمِ کلثومؓ پیدا ہوئے۔ اور اعلان نبوت کے بعد طیبؓ ، طاہرؓ اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ نے نبوت سے پہلے اور نکاح کے بعد رسول اللّٰہﷺ کی تین صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ حضرت قاسمؓ پیدا ہوئے۔ اور اللّٰہ نے نبوت کے بعد طیبؓ، طاہرؓ اور سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئی۔ اس روایت نے موجودہ شیعی ذاکروں کے اس قول کو باطل کر دیا ،کہ تین صاحبزادیاں سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے سابق خاوند سے تھیں۔

نیز اس روایت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول پاکﷺ نے 40 سال کے بعد اعلانِ نبوت فرمایا ۔ بعض جاہل لوگ شور مچاتے رہتے ہیں کہ سنی لوگ رسول پاکﷺ کو چالیس سال تک نبی مانتے ہی نہیں ایسے نہیں بلکہ نبوت تو آپ کے مقدر میں روز ازل سے لکھی جا چکی تھی۔ اس کا اعلان چالیس سال زندگی گزرنے کے بعد فرمایا ،طوالت کے خوف کی وجہ سے اب شیعی کتب سے حضورﷺ کی چار صاحبزادیوں کے متعلق صرف حوالہ جات پیش کیئے جاتے ہیں، شائقین حضرات خود دیکھ لیں۔

تیسرا حوالہ: تہذیب الاحکام صفحہ 154جلد 1

چوتھا حوالہ: من لا یحضرہ الفقیہ صفحہ 526

پانچواں حوالہ فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ صفحہ 560

چھٹا حوالہ شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ مصری صفحہ 85 جلد 2

ساتواں حوالہ فروع کافی صفحہ 86جلد 2

آٹھواں حوالہ منتہی الآمال صفحہ 132جلد 2 طبع تہران

نواں حوالہ رجال ما مقانی تنقیح المقال صفحہ 177 طبع تہران

دسواں حوالہ الخصال شیخ صدوق قمی صفحہ 38 جلد 3

گیارہواں حوالہ حیات القلوب صفحہ 124 جلد 2

بارہواں حوالہ تحفة العوام صفحہ 112 طبع لکھنؤ

رجال ما مقانی صفحہ 177 کی عبارت ملاحظہ ہو:

واعلم ان کتب الفریقین مشحونة بانھا ولدت لرسول اللہﷺ اربع بنات زینب و رقیہ و ام کلثوم و فاطمة رضی اللہ عنھن۔

اے انسان خوب سمجھ لے کہ فریقین(شیعہ، سنی) کی کتب بھری پڑی ہیں تحقیق رسول پاکﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمة رضی اللّٰہ عنھن)

اس سے واضح ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ان بارہ حوالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے ورنہ اس مسئلہ میں شیعہ حضرات کی 26 کتب سے حوالہ جات دستیاب ہو چکے ہیں۔

سوال:

بے شک کتبِ شیعہ سے یہ تو ملتا ہے کہ حضور پاکﷺ کے چار صاحبزادیاں تھیں مگر سیدہ زینب، رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم (رضی اللّٰہ عنہن) حضور پاکﷺ کی پچھلگ صاحبزادیاں تھیں۔ جو سیدہ خدیجہؓ کے پچھلے خاوند سے تھی۔ ان کی پرورش رسول پاکﷺ کے گھر ہوتی رہی۔

سوال:

یہ تینوں حضور پاکﷺ کی بیٹیاں نہیں تھیں۔ اور نہ ہی سیدہ خدیجہ کے صاحبزادیاں تھیں۔ بلکہ سیدہ خدیجہؓ کی ہمشیرہ ہالہؓ کی صاحبزادیاں تھیں۔ جن کی پرورش سیدہ خدیجہؓ اور رسول پاکﷺ نے کی۔

جواب:

ان دونوں سوالوں کا جواب شیعہ کے مشہور مؤرخ اور مذہبِ شیعہ کے نامور اور مایا ناز ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب میں خود دے کر شیعوں کا منہ بند کر دیا ہے،چنانچہ ملاحظہ ہو حیات القلوب طبع لکھنؤ صفحہ 719 جلد 2 طبع ایمان 825 جلد 2

جمعے از علماء عامہ و خاصہ را اعتقاد آنست کہ رقیہ و امِ کلثوم دخترانِ خدیجہ بودند از شوہر دیگر کہ پیش از حضرت رسولﷺ داشتہ و حضرت ایشاں را تربیت کردہ بود و دختران حقیقی آنجناب نہ بودند و بعضے گفتہ اند کہ دختران ہالہ خواہر خدیجہ بود اندو و برنفی ایں قول روایات معتبر دلالت میںکنند۔

علمائے خاصہ و عامہ کی ایک جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ رقیہؓ اور ام کلثومؓ سیدہ خدیجہؓ کی بیٹیاں تھیں۔ دوسرے خاوند سے جو رسول خداﷺ سے پہلے تھا اور حضورﷺ نے انہیں پالا تھا ۔اس لیے آنحضرتﷺ کی حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں۔ اور بعضوں نے کہا کہ خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں۔ ان دونوں کو ان کے جھوٹا اور باطل ہونے پر معتبر روایات دلالت کرتی ہیں۔

الحمدللہ! جن لوگوں نے یہ دونوں سوال اٹھائے تھے کہ پچھلگ ہیں یا سیدہ خدیجہؓ کی بھانجیاں ہیں ان کے پیشوا نے اپنی کتاب میں جواب دے کر انہیں جھوٹا ثابت کر دیا۔

سوال

سیدہ زینبؓ رقیہؓ اور امِ کُلثومؓ اگر حضورﷺ کی حقیقی صاحبزادیاں ہوتی تو سیدہ فاطمہؓ کی طرح ان کے فضائل و مناقب بھی کتابوں میں موجود ہوتے۔

جواب:

اولاد میں سے کسی ایک فرد کے فضائل و مناقب کا کتابوں میں کثرت سے درج ہونا دوسروں کی نفی نہیں کرتا۔ دیکھو حضرت داؤد علیہ السلام کے 19 بیٹے تھے۔ مناقب حضرت سلیمان علیہ السلام کے ملتے ہیں، حضرت یعقوب علیہ السلام کے 12 بیٹے تھے، فضائل صرف حضرت یوسف علیہ السلام کے ملتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کے اٹھارہ بیٹے تھے فضائل حضرت حسنین رضی اللّٰہ عنہما کے ہی ملتے ہیں۔ موسیٰ کاظمؒ کے پینتیس (35) بیٹے تھے، فضائل سیدنا امام رضاؒ کے ہی لئے ہیں۔ ابو طالب کے چار بیٹے تھے، فضائل صرف سیدنا علیؓ کے ہی ملتے ہیں۔ 

کیا کوئی شیعہ یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، سیدنا علی المرتضیٰؓ، سیدنا موسیٰ کاظمؒ اور ابو طالب کے صرف ایک ایک ہی بیٹے تھے، جن کے فضائل کتابوں میں ملتے ہیں؟

جس طرح ان بزرگوں کی اولاد میں سے ایک کے فضائل کا کتابوں میں آجانے سے باقی اولاد کی نفی نہیں ہوتی اسی طرح سیدہ فاطمہؓ کے فضائل و مناقب کتابوں میں آ جانے سے باقی تین صاحبزادیوں کی نفی نہیں ہوتی ۔

سوال

اگر حضور پاکﷺ کی چاروں حقیقی صاحبزادیاں ہوتیں تو مباہلہ میں چاروں شامل ہوتیں۔ حالانکہ اہلِ سنت کی کتاب میں بھی لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ میں حضورﷺ کے ساتھ صرف سیدہ فاطمہؓ ہی تھیں۔

الجواب

مباہلہ سن 9ہجری میں ہوا ہے اور سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ، امِ کُلثومؓ سن 9ہجری سے پہلے ہی اس دارِفانی سے انتقال فرما چکی تھیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو شیعہ کی کتاب حیات القلوب صفحہ 825 جلد 2 طبع ایران -

 زینب در مدینه در سال هفتم هجرت دبروایتی در سال هشتم هجرت بر حمت ایزدی در اصل شد..... و رقیہؓ در مدینه برحمت ایزدی و اصل شد در هنگام که جنگِ بدر رو داد .....و امِ کُلثوم در سال هفتم هجرت برحمت ایزدی واصل شد.

اور سیدہ زینبؓ مدینہ میں سن 7ہجری میں اور ایک روایت میں ہے کہ سن 8ہجری میں فوت ہوئیں.... اور رقیہؓ مدینہ میں فوت ہوئیں جب کہ جنگِ بدر واقع ہوئی.... اور امِ کُلثومؓ سن 7ہجری میں فوت ہوئیں۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ سن 3ہجری میں حضرت رقیہؓ فوت ہوئیں اور سن 7ہجری میں سیدہ امِ کُلثومؓ فوت ہوئیں اور سن 8ہجری میں سیدہ زینبؓ فوت ہوئیں اور مباہلہ سن 9ہجری میں ہوا۔ اس وقت صرف سیدہ فاطمہؓ ہی زندہ تھیں، جنہیں رسول خداﷺ ساتھ لے گئے۔ جب یہ تینوں صاحبزادیاں اس دنیا میں موجود ہی نہیں تو انہیں حضورﷺ ساتھ کس طرح لے جاتے۔