ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
جعفر صادقام المؤمنین حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا
نام: رملہ
کنیت: امِ حبیبہ
والد: صخر بن حرب ابو سفیانؓ
والدہ: صفیہ بنتِ ابو العاص
سنِ پیدائش: بعثتِ نبوی سے17 سال پہلے تقریباً
قبیلہ: بنو امیہ
زوجیتِ رسولﷺ: 6 ہجری
سنِ وفات: 44 ہجری
مقامِ تدفین: جنتُ البقیع مدینہ منورہ
کل عمر: 74 سال
نام و نسب:
آپ کا نام رملہ تھا، سلسلہ نسب اس طرح ہے: رملہ بنتِ ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: رملہ بنتِ ام صفیہ بنتِ ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا۔ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پانچویں پشت میں جا کر آپؓ کا سلسلہ نسب رسول اللہﷺ کے نسب سے مل جاتا ہے۔
کنیت:
آپ کی کنیت "ام حبیبہ" ہے آپؓ کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش سے ایک لڑکی حبیبہ پیدا ہوئی اس وجہ سے آپؓ کی کنیت امِ حبیبہ ہے۔
ولادت:
سیدہ امِ حبیبہؓ کی ولادت نبی کریمﷺ کے اعلانِ نبوت سے 17 سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
خاندانی پسِ منظر:
سیدہ امِ حبیبہؓ خاندانِ بنو امیہ کی چشم و چراغ تھیں۔ اُمَیَّہ قریش کا ایک سردار تھا جس کی اولاد کو "بنو امیہ" کہا جاتا تھا۔ قریش کا ہی ایک دوسرا بڑا خاندان "بنو ہاشم" بھی تھا جس سے رسولِ اکرمﷺ کا تعلق تھا۔ ان دونوں خاندانوں میں خاندانی رقابت اور چشمک چلی آتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو آپ کی مخالفت میں بنو اُمیہ زیادہ پیش پیش رہے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے حریف بنو ہاشم کو یہ اعزاز نصیب ہو۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عہدِ رسالت میں اسلام کے خلاف جو بھی جنگیں ہوئیں ان میں اسی خاندان بنو امیہ کے افراد نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ بدر میں جب اس خاندان کے سردار عتبہ، ولید اور حنظلہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو اپنے ان سرداروں کا انتقام لینے کے لیے سیدنا ابوسفیانؓ جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے نے کئی حربے آزمائے۔
بالآخر فتح مکہ کے موقع پر اس خاندان کے اکثر افراد نے اسلام قبول کر لیا۔ اس خاندان میں باصلاحیت لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی یہ لوگ بہادر، جانباز اور انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے بھی تھے، اس لیےان کو سیاسی و فوجی ذمہ داریاں سونپیں گئیں۔ فتح مکہ کے موقع پر سیدنا ابوسفیانؓ کے گھر کو دارالامن قرار دیا گیا، سیدنا امیرِ معاویہؓ کو کتابتِ وحی کی عظیم سعادت سے بہرہ ور فرمایا اور اسی خاندان کے چشم وچراغ سیدنا عثمان بن عفانؓ کو خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا گیا۔
اس کے علاوہ آپؓ کے خاندان کا خاندانِ نبوت بنو ہاشم سے بہت گہرا تعلق ہے۔ سیدہ امِ حبیبہؓ کے بھائی سیدنا امیرِ معاویہؓ نبی کریمﷺ کے ہم زُلف تھے، اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہؓ کی بہن قریبہ صغریٰ سیدنا امیر معاویہؓ کے نکاح میں تھیں۔
قبل از اسلام آپﷺ نے اپنی بڑی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کا نکاح لقیط بن الربیع جن کی کنیت ابو العاص تھی، سے کیا جو اسی خاندان بنو امیہ کے ایک فرد تھے۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح اسی خاندان بنو امیہ کے چشم و چراغ سیدنا عثمانؓ سے فرمایا۔
سیدہ اُم حبیبہؓ کی والدہ صفیہ بنتِ ابو العاص سیدنا عثمان غنیؓ کے والد عفان بن ابو العاص کی سگی بہن تھیں اور سیدنا عثمانؓ کی پھوپھی تھیں۔اس لحاظ سے سیدہ اُم حبیبہؓ سیدنا عثمان غنیؓ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
سیدہ اُم حبیبہؓ کی بہن میمونہ بنتِ ابی سفیان سیدنا حسینؓ کی خوشدامن ساس تھیں اور سیدنا حسینؓ کے فرزند شہید کربلا سیدنا علی اکبر کی والدہ لیلیٰ بنتِ مرہ اسی میمونہ کی بیٹی ہیں۔
پہلا نکاح:
سیدہ اُم حبیبہؓ کا پہلا نکاح اُم المؤمنین سیدہ زینب بنتِ جحشؓ کے بھائی عبیداللہ بن جحش سے ہوا۔
قبولِ اسلام:
سیدہ اُم حبیبہؓ اپنے شوہر عبیداللہ بن جحش کے ساتھ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ آپؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ!ہم دونوں میاں بیوی اسلام قبول کرنے کے لیے آئے ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کس کی بیٹی ہو؟ سیدہ اُم حبیبہؓ نے جواب دیا ابوسفیان صخر بن حرب اموی کی۔ چنانچہ آپﷺ نے دونوں کو کلمہ شہادت پڑھایا اور ان کو مسلمان کر دیا۔
ہجرتِ حبشہ ثانیہ:
قبولِ اسلام کے بعد مکہ مکرمہ میں اہلِ اسلام پر حالات بہت تنگ کر دیئے گئے تھے، چنانچہ سیدہ اُم حبیبہؓ نے اپنے شوہر عبیداللہ بن جحش کے ساتھ 6 نبوی میں ہجرت کی۔ یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی اس سے ایک سال قبل 5 نبوی میں اہلِ اسلام کے چند افراد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس دوسری ہجرت میں 83 مرد اور 18 خواتین شامل تھیں۔ عبیداللہ بن جحش سے سیدہ امِ حبیبہؓ کے دو بچے پیدا ہوئے ایک عبداللہ اور دوسری حبیبہ۔
سیدہ حبیبہؓ! آپﷺ کی تربیت میں رہیں اور داؤد بن عروہ بن مسعود ثقفیؒ سے ان کا نکاح ہوا۔
نوٹ: حبشہ عرب کے جنوب میں واقع مشرقی افریقہ کا ایک ملک ہے آپﷺ کی بعثت کے وقت اس ملک پر جو شخص حکمران تھا اس کا نام اَصحمہ بن اَبْجَرؓ تھا، یہ سیدنا جعفر طیّارؓ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے لیکن نبی کریمﷺ کی زیارت کے لیے نہ آ سکے، جب ان کے فوت ہونے اطلاع مدینہ منورہ آئی تو آپﷺ نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔
متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نجاشیؓ کے جنازہ کو آپﷺ کے سامنے کر دیا گیا تھا۔ سیدنا عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خبر دی تمہارے بھائی سیدنا نجاشیؓ انتقال کر گئے ہیں، کھڑے ہو جاؤ، ان کی نماز جنازہ ادا کرو، آپﷺ کھڑے ہو گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپﷺ کے پیچھے صفیں بنالیں، آپﷺ نے چار تکبریں کہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہی سمجھ رہے تھے کہ سیدنا نجاشیؓ کا جسم رسول اللہﷺ کے آگے ہے۔
صحیح ابنِ حبان، مسند احمد، فتح الباری حبشی زبان میں بادشاہ کو "نجوس" کہتے ہیں اور حبشی زبان کے اس لفظ کو عربی زبان میں پڑھتے وقت "نجوش" کہا جاتا ہے، اسی سے "نجاشی" ہے۔ حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا "حبشہ" اصل میں عربی نام ہے یونانی میں اسے "ایتہوپیا" کہتے ہیں اور دنیا کے موجودہ نقشہ میں اسے "ایتہوپیا" ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک خواب:
حبشہ میں دونوں میاں بیوی خوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے، ایک رات سیدہ اُم حبیبہؓ کو ایک خواب آیا، کیا دیکھتی ہیں کہ ان کے خاوند عبیداللہ بن جحش کا چہرہ بری طرح مسخ ہوچکا ہے۔ جب بیدار ہوئیں تو بہت پریشان ہوئیں۔ لیکن اس وقت اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا۔
حالتِ ارتداد میں موت:
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سیدہ امِ حبیبہؓ کے شوہر عبیداللہ بن جحش نے آپؓ سے کہا کہ میں پہلے عیسائی تھا، پھر اسلام قبول کیا لیکن اب پھر میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ نصرانیت ہی دینِ حق ہے اس لیے میں دوبارہ عیسائی ہو رہا ہوں۔ بلکہ میں تمہیں بھی یہی مشورہ دوں گا کہ تم بھی عیسائیت قبول کرلو۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہے۔ سیدہ امِ حبیبہؓ نے اپنے خاوند کو اپنا خواب سنایا کہ شاید وہ اس کو سن کر اپنے فیصلے سے باز رہیں۔ لیکن اس خواب کا عبیداللہ پر کچھ اثر نہ ہوا، عیسائی ہو گئے اور شراب پینا شروع کر دی۔ ہر وقت شراب پیتے رہتے۔ اسی شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے حالتِ ارتداد اسلام قبول کرنے کے بعد پھر اسلام کو چھوڑ دینا "ارتداد" کہلاتا ہے پر عبیداللہ بن جحش کی وفات ہوئی۔
پریشانی کے ایام:
اپنے وطن سے دوری، شوہر کے مرتد ہونے اور ان کی وفات یہ سب سانحات ایسے تھے جن سے سیدہ امِ حبیبہؓ کو سخت صدمات پہنچے۔ لیکن اس کے باوجود صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اللہ کی عبادت میں اور زیادہ مصروف ہو گئیں۔ حبشہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے والی خواتین بالخصوص سیدہ امِ سلمہؓ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ لیلیٰؓ اور سیدہ اسماءؓ آپؓ کو دلاسہ دیتی رہیں۔
امِ حبیبہؓ ام المومنین بنتی ہیں:
سیدہ امِ حبیبہؓ کے شوہر کے مرتد ہو کر فوت ہونے کی خبر نبی کریمﷺ کو ہوئی تو آپﷺ کو بہت صدمہ ہوا، سیدہ امِ حبیبہؓ کی دلجوئی کے لیے آپﷺ نے سیدنا عَمْرو بن امیہ ضُمَرِیؓ کو بادشاہِ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ آپ سیدہ امِ حبیبہؓ سے برضاء و رغبت معلوم کر کے ان کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔
نجاشی نے سیدہ امِ حبیبہؓ کے پاس پیغام بھیجا۔ سیدہ امِ حبیبہؓ کو اپنے سب دکھ بھول گئے آپ نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور پیغام لانے والی باندی کو اپنے کنگن، انگوٹھیاں اور زیور اتار کر ہدیہ کر دیا اور سیدنا خالد بن سعید بن ابی العاصؓ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی کے پاس بھیجا۔
نجاشی نے اپنے شاہی محل میں نکاح کی مجلس منعقد کی اور سیدنا جعفر بن ابی طالبؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں سیدہ امِ حبیبہؓ کا نکاح رسول اللہﷺ سے کر دیا اور 4000 درہم حق مہر رسول اللہﷺ کی طرف سے خود ادا کیا، یہ رقم سیدہ امِ حبیبہؓ کے وکیل نکاح سیدنا خالد بن سعیدؓ کے سپرد کی گئی۔
آپؓ نے اس رقم میں سے کچھ اس باندی کو دی جس نے نکاح کی خوشخبری سنائی تھی، لیکن اس باندی نے رقم اور دیگر زیورات وغیرہ آپؓ کو واپس کر دیے جو کل اس باندی نے لیے تھا اور کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت کا یہی حکم ہے، خود نجاشی نے اس خوشی میں سیدہ امِ حبیبہؓ کو بیش قیمت تحائف اور قیمتی خوشبوئیں ہدیہ کے طور پر بھیجیں۔
اسی مجلس میں نکاح کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کو کھانا بھی کھلایا گیا۔ اس کے بعد سیدہ امِ حبیبہؓ کو سیدنا شرحبیل بن حسنہؓ کے ساتھ بحری جہاز میں خیبر کے راستے مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔ آپؓ مدینہ منورہ تشریف لائیں اور نبی کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ بن کر امُ المؤمنین کے معزز اعزاز سے سرفراز ہو گئیں۔
مبارک خواب کی تعبیر:
آپؓ نے کافی عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا، آپؓ فرماتی ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے "یا اُم المؤمنین" کہہ کر مخاطب کر رہا ہے میرے دل میں آیا اور میں نے از خود اس مبارک خواب کی تعبیر یہی سمجھی کہ رسول اللہﷺ مجھے نکاح میں لائیں گے۔ جب آپﷺ سے آپؓ کا نکاح ہو گیا تو آپؓ کے خواب کی تعبیر پوری ہو گئی۔
بسترِ رسولﷺ کی حرمت:
سیدہ امِ حبیبہؓ کو نبی کریمﷺ سے بے حد عقیدت و محبت تھی۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ کہ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل (مومن نہیں ہو سکتا جب تک میری محبت اسے اپنی اولاد، اپنے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو ایک بار سیدہ امِ حبیبہؓ کے والد ابوسفیانؓ) جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مدینہ منورہ آئے اور اپنی بیٹی سیدہ امِ حبیبہؓ کے گھر پہنچے، اور آ کر آپﷺ کے بستر پر بیٹھ گئے۔ سیدہ اُم حبیبہؓ فوراً اٹھی اور والد کو ادب سے عرض کی کہ آپ اس بستر سے اٹھ جائیں۔ یہ پاک بستر نبی پاکﷺ کا ہے اور آپ ابھی تک شرک سے پاک نہیں ہوئے۔
اتباعِ شریعت:
دینِ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زندگی کے ہر موڑ کی رہنمائی موجود ہے، خوشیاں کیسے منانی ہیں اور غم و مصیبت میں کیا کرنا ہے؟ چنانچہ جب کوئی فوت ہو جائے تو سوگ کتنے دن کیا جائے؟ ایسے حالات میں شریعت کے حکم کی اتباع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، سیدہ امِ حبیبہؓ کے مزاج میں شریعت کی اتباع رچ بس چکی تھی۔ چنانچہ سیدہ زینبؓ بیان کرتی ہیں میں امُ المؤمنین سیدہ امِ حبیبہؓ کے پاس اس وقت گئی جب ان کے والد سیدنا ابوسفیانؓ کا انتقال ہوا تھا۔
سیدہ امِ حبیبہؓ نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق خوشبو کی زردی یا کسی اور چیز کی ملاوٹ تھی، پھر وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی اور امُ المؤمنین نے خود اپنے رخساروں پر اسے لگایا۔ اس کے بعد فرمایا واللہ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے، سوائے شوہر کے (کہ اس کا سوگ) چار مہینے دس دن کا ہے۔
نوٹ: عدت کا شرعی حکم ہم پہلے لکھ چکے ہیں، وہاں دیکھ لیا جائے۔
ذوقِ عبادت:
آپؓ نہایت عبادت گزار خاتون تھیں، ہر وقت ذکرِ الہٰی میں مشغول رہتیں فرائض و واجبات کی ادائیگی کے تو کیا کہنے آپؓ نفلی عبادات بھی بہت زیادہ کرتیں۔ ایک بار آپﷺ نے فرمایا جو شخص 12 رکعات نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ جب آپؓ نے یہ سنا تو اس وقت سے لے کر آخر عمر تک کبھی بھی ان کا ناغہ نہیں کیا۔
فکرِ آخرت:
آپؓ کو فکرِ آخرت بہت تھی وفات سے چند دن پہلے سیدہ عائشہؓ کو بلایا اور کہا میرے اور آپ کے درمیان سوکنوں والے تعلقات تھے، اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہو تو اللہ کے لیے مجھے معاف کر دیجیئے سیدہ عائشہؓ نے فرمایا میں نے معاف کیا پھر ان کے لیے دعا مانگی سیدہ امِ حبیبہؓ نے فرمایا آپ نے مجھے خوش کیا اللہ آپ کو خوش رکھے اس کے بعد پھر سیدہ امِ سلمہؓ کے پاس یہی پیغام بھیجا۔
وفات:
سیدہ امِ حبیبہؓ کی وفات 74 سال کی عمر میں 44 ہجری میں ہوئی، یہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا زمانہ تھا۔ آپؓ کو مدینہ منورہ جنتُ البقیع میں دفن کیا گیا۔