گھر کے اندر امن واطمینان پیدا کرنے میں اسماء رضی اللہ عنہا کا کردار
علی محمد الصلابیگھر کے اندر امن واطمینان پیدا کرنے میں اسماء رضی اللہ عنہا کا کردار
ابوبکر رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت پر روانہ ہوئے تو جو کچھ راس المال آپ کا تھا اپنے ساتھ لے چلے جو تقریباً پانچ یا چھ ہزار درہم تھا۔ آپ کے والد ابوقحافہ کو جن کی بینائی جا چکی تھی بچوں کی فکر دامن گیر ہوئی، اطمینان خاطر کے لیے بیٹے کے گھر تشریف لائے، بچوں سے کہا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہارا باپ اپنا مال ومتاع ساتھ لے گیا اور تمہیں پریشانی میں ڈال گیا؟ اسماء رضی اللہ عنہا نے کچھ پتھر اکٹھے کر کے عرض کیا: ابا جان! بات ایسی نہیں ہے، آپ اس مال پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں، ہاتھ رکھا تو اطمینان کا سانس لیا اور کہا: کوئی بات نہیں، یہ چھوڑ گیا تو بہت اچھا کیا، تمہارے لیے یہ کافی ہوگا۔ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب نے کچھ نہیں چھوڑا تھا، میں نے تو اس طرح کر کے بوڑھے دادا کو تسلی دینا چاہی تھی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 2 صفحہ، 102 اس کی سند صحیح ہے۔)
اس ذہانت اور حکمت عملی کے ذریعہ سے اپنے والد کی پردہ پوشی کی اور اپنے اندھے دادا کو تسلی دی، اور یہ کوئی کذب بیانی نہ تھی، والد محترم نے حقیقت میں ان پتھروں کو چھوڑا تھا جس کا ڈھیر بنا کر اسماء رضی اللہ عنہا نے بوڑھے دادا کو اطمینان دلایا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف یہی پتھر نہیں بلکہ سب سے بڑی دولت ایمان باللہ کی دولت ان کے لیے چھوڑی تھی جس میں نہ پہاڑ تزلزل پیدا کر سکتے ہیں اور نہ تیز و تند آندھیاں حرکت دے سکتی ہیں اور وہ مال کی قلت و کثرت سے متاثر نہیں ہوا کرتا ہے۔ یقین و توکل کا وارث بنایا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ ان کے اندر بلند ہمت اور حوصلہ پروان چڑھایا تھا،جو بلندیوں کے طالب ہوتے ہیں پستیوں کو جھانکتے بھی نہیں۔ اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسلم خاندان کی نادر الوجود مثال قائم کی۔
اپنے اس مؤقف کے ذریعہ سے اسماء رضی اللہ عنہا نے مسلم خواتین اور بچیوں کے لیے ایسی مثال قائم کی جس کی اقتدا کی انہیں شدید ضرورت ہے۔ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ مکہ میں رہیں، نہ کسی تنگی کی شکایت اور نہ کسی ضرورت کا اظہار کرتیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ اور اپنے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہما کو دو اونٹنیاں اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ آپ کے اہل وعیال کو مدینہ لے آئیں۔ چنانچہ فاطمہ، ام کلثوم، ام المومنین سودہ بنت زمعہ، اسامہ بن زید اور ان کی والدہ ام ایمن کو لے کر دونوں مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انھی دونوں کے ساتھ عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما آل ابوبکر کو لے کر مدینہ پہنچے۔
(تاریخ الطبری: جلد، 2 صفحہ، 100 الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ ، صفحہ، 128)