Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کتابت قرآن کا پہلا مرحلہ… عہد نبویﷺ میں

  علی محمد الصلابی

کتابت قرآن کا پہلا مرحلہ… عہد نبویﷺ میں 
ایک مصحف پر امت کو جمع کرنے کا عظیم کارنامہ

عثمان رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مفاخر میں سے امت کو ایک مصحف پر جمع کرنا ہے۔ کتابت قرآن کے دو مراحل ہیں۔

پہلا مرحلہ… عہد نبویﷺ میں

یہ بات قطعی دلائل سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا فوراً اس کو ضبط تحریر میں لانے کا حکم فرماتے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ کتابت قرآن کے لیے کاتبین وحی مقرر تھے یہاں تک کہ زید بن ثابتؓ کتابت قرآن کی وجہ سے کاتب النبیﷺ کے لقب سے مشہور و معروف تھے۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں فضائل قرآن کے بیان میں

باب کتاب النبیﷺ نبیﷺ کے کاتبین‘‘

کے نام سے مستقل باب قائم کیا ہے اور اس میں دو حدیثیں روایت کی ہیں:

پہلی حدیث

…ابوبکرؓ نے زید بن ثابتؓ سے فرمایا کہ آپ رسول اللہﷺ کے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔

[البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کتاب النبی صلي الله عليه وسلم (4982)] 

دوسری حدیث

براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ نازل ہوئی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:

(( ادع لی زیدا و الیجی ء باللوح والدواۃ و الکتف او الکتف و الدواۃ ))

’’زید کو بلاؤ، تختی اور دوات و شانہ، یا شانہ اور دوات لے کر آجائیں۔‘‘

[البخاری ، کتاب فضائل القرآن، باب کتاب النبی صلي الله عليه وسلم (4990)] 

نبی کریمﷺ  مکہ میں ہجرت مدینہ سے قبل قرآن کے لکھوانے کا اہتمام فرماتے تھے، مکہ کے کاتبین وحی میں سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرحؓ تھے۔ بعد میں یہ مرتد ہو گئے اور دوبارہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ اس سلسلہ میں ان کا واقعہ مشہور ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں، اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ چاروں خلفائے راشدینؓ کاتبین وحی میں سے تھے۔شاید یہ لوگ مکہ میں قرآن لکھا کرتے تھے۔ عہد مکی میں قرآن کے لکھے ہوئے ہونے کی دلیل عمر بن خطابؓ  کا واقعہ اسلام ہے کہ جب وہ اپنی ہمشیر کے پاس پہنچے تو ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ تھا جس میں سورہ طہ لکھی ہوئی تھی۔ نیز قرآن میں خود اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ قرآن صحائف میں جمع شدہ تھا۔ ارشاد الٰہی ہے:

رَسُولٌ مِنَ اللّٰهِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً (2 البینۃ: ) 

’’اللہ کا ایک رسول جو پاک صحائف پڑھتا ہے۔‘‘

رسول اللہﷺ  کی وفات کے وقت مکمل قرآن تحریری شکل میں موجود تھا لیکن ایک جلد کے اندر جمع نہ کیا جا سکا تھا۔ کھجور کی شاخوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا، لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھا، سینوں اور صحائف میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سال رمضان میں ایک مرتبہ جبریل امین نبی کریمﷺ پر قرآن پیش فرماتے تھے، اور جس سال آپﷺ  کی وفات ہوئی اس سال رمضان میں دو مرتبہ پیش فرمایا۔

[البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی صلي الله عليه وسلم4998ا] 

چوں کہ بعض احکام و تلاوت کے نسخ کا خطرہ لگا رہتا تھا (اور اسی طرح قرآن کا نزول بھی مرتب نہ تھا، بلکہ حالات و ضروریات کے مطابق کبھی کسی سورت کی چند آیات نازل ہوتیں کبھی کسی سورت کی اور کبھی آگے کی سورت اور کبھی پیچھے کی) اس لیے نبی کریمﷺ  نے قرآن کو ایک جلد کے اندر جمع نہ کرایا، لیکن جب آپ کی وفات سے قرآن کے نزول کا سلسلہ مکمل ہو گیا اور اب کسی آیت میں حکم کے منسوخ ہونے یا نازل ہونے کا موقع نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو قرآن کو ایک جلد میں جمع کرنے کا الہام فرمایا اور قرآن کی حفاظت کا وعدہ پورا فرمایا۔

[المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام والعصر الراشدی صحفہ (240) بحوالہ فتح الباری (9؍12) ] 

اسم الكتاب: 
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے