روحانی قیادت اور نفوس کے ساتھ تعامل کا فن
علی محمد الصلابیروحانی قیادت اور نفوس کے ساتھ تعامل کا فن
سفر ہجرت سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گہری محبت عیاں ہوتی ہے۔ اسی طرح تمام صحابہ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں نمایاں ہے۔ یہ ربانی محبت دل کی گہرائیوں سے ابھری تھی اور اخلاص پر مبنی تھی، یہ منافقانہ محبت نہ تھی، اس کے پیچھے دنیوی مصلحت یا نفع کی خواہش اور نقصان کا خوف کار فرما نہ تھا۔ اس محبت کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبنی برحکمت قائدانہ صفات تھیں، آپ لوگوں کو سلانے کے لیے بیدار رہتے، ان کی راحت کے لیے تھکتے اور ان کی آسودگی کے لیے بھوکے رہتے۔ ان کی خوشی میں خوش ہوتے اور ان کے غم میں غمگین ہوتے۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی زندگی میں نافذ العمل کرے، لوگوں کی خوشی وغم میں شریک رہے اور اس کا یہ عمل اللہ واسطے ہو، اسے یہ محبت حاصل ہو گی۔ خواہ وہ لیڈر و قائد ہو یا عام ذمہ دار۔
(الہجرۃ النبویۃ لابی فارس: صفحہ، 54)
لیبی شاعر احمد رفیق مہدوی نے سچ کہا ہے:
فإذا احبَّ اللّٰہ باطن عبدہ
ظہرت علیہ مواہبُ الفتَّاح
’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے باطن کو پسند کرتا ہے تو خداداد صلاحیتوں کا اس پر ظہور ہوتا ہے۔‘‘
وإذا صفت للّٰہ نیۃ مصلح
مال العباد علیہ بالارواح
(الحرکۃ السنوسیۃ للصلابی: ھکد، 2 صفحہ، 7)
’’جب مصلح کی نیت اللہ کے لیے خالص ہو جاتی ہے تو اللہ کے بندے اس کی طرف اپنی روحوں کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘
صحیح قیادت ہی ہر چیز سے پہلے روحانی قیادت اور نفوس کے ساتھ تعامل کی استطاعت رکھتی ہے اور جس قدر قیادت اچھی ہو گی اسی قدر سپاہی اچھے تیار ہوں گے اور قیادت کی جانب سے جس قدر احسان اور داد و دہش زیادہ ہوگی اسی قدر افواج کی محبت زیادہ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین اور سپاہیوں کے ساتھ بے انتہا شفیق و مہربان تھے۔ آپ نے اس وقت تک ہجرت نہ کی جب تک آپ کے اکثر صحابہ نے ہجرت نہ کر لی، صرف کمزور ستائے ہوئے مجبور لوگ اور جنہیں ہجرت کے لیے کچھ مخصوص پریشانیاں تھیں رہ گئے تھے۔
(الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ: صفحہ، 205)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت تھی وہ اللہ واسطے تھی۔ اللہ واسطے محبت اور غیر اللہ کے واسطے محبت کے درمیان فرق کو جو چیز واضح کرتی ہے وہ یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت صرف اللہ کے لیے تھی، اور ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اللہ کے لیے نہ تھی بلکہ اپنی خواہشات کے لیے تھی۔ اس لیے اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عمل کو قبولیت سے ہمکنار فرمایا اور یہ آیات ان کی شان میں نازل فرمائیں:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ﴿١٧﴾ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ﴿١٩﴾ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ ﴿٢٠﴾ وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ ﴿٢١﴾(اللیل: آیت، 17 تا 21)
’’اور اس جہنم سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو پرہیزگار ہوگا۔ جو پاکی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہے۔ کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے۔ یقینا وہ (اللہ بھی) عنقریب رضا مند ہو جائے گا۔‘‘
اور ابو طالب کا عمل قبول نہ کیا، بلکہ اسے جہنم رسید کیا، کیونکہ وہ مشرک تھا، غیر اللہ کے لیے عمل کرتا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مخلوق سے اپنا صلہ نہ چاہا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ کسی اور سے طلب کیا بلکہ آپ پر ایمان لائے، آپ سے محبت کی، آپ سے تعاون ومدد کی اور یہ سب کچھ اللہ کا تقرب اور اسی سے اجر چاہتے ہوئے کیا۔ اللہ کے احکامات و ممنوعات اور وعد و وعید کو لوگوں تک پہنچایا۔
(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: جلد، 11 صفحہ، 296)
خامساً: آغاز ہجرت میں مدینہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بیمار پڑ جانا:
بلد حرام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا ہجرت فرمانا بہت بڑی قربانی تھی، جس کی تعبیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی:
واللّٰہ إنک لخیر ارض اللّٰہ ، واحب ارض اللّٰہ الی اللّٰہ! ولولا انی اخرجت منک ما خرجتُ
(الترمذی: المناقب، باب فضل مکۃ؛ جلد، 5 صفحہ، 722 رقم: 3925)
’’اللہ کی قسم تو روئے زمین میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر ہے اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو کبھی نہ نکلتا۔‘‘
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت بخار کی وبا وہاں سب سے زیادہ پائی جاتی تھی، اس کی وادی میں گندل بدبودار پانی بہتا تھا۔ اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیماری لاحق ہو گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ ابوبکر، عامر بن فہیرہ اور بلال رضی اللہ عنہم ایک ہی گھر میں مقیم تھے، تینوں کو بخار لگ گیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی عیادت کی اجازت مانگی، آپ نے اجازت مرحمت فرمائی۔ میں ان کی عیادت کے لیے گئی، یہ نزول حجاب سے پہلے کا واقعہ ہے۔ ان کو انتہائی شدید بخار تھا۔ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قریب گئی اور عرض کیا: آپ کیسے ہیں؟ فرمایا:
کلُّ امریٔ مصبِّحٌ فی أہلہ
والموت أدنی من شراکِ نعلہ
’’ہر شخص اپنے اہل و عیال کے درمیان صبح کرتا ہے اور موت اس سے جوتے کے تسمہ سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔‘‘
فرماتی ہیں: واللہ میرے والد جو کہہ رہے ہیں سمجھتے نہیں ہیں۔ پھر میں عامر بن فہیرہ کے پاس گئی۔ پوچھا: عامر کیسے ہو؟ انہوں نے کہا:
لقد وجدت الموت قبل ذوقۃ إن الجبان حتفُہٗ مِنْ فوقہ
’’موت سے قبل ہی موت کا مزہ میں نے پا لیا، یقینا بزدل کی موت اس کے اوپر سے ہوتی ہے۔‘‘
کل امریٍٔ مجاہدٌ بطوقہ
کالثَّور یحمی جلدہ بروقہ
’’ہر شخص اپنی طاقت بھر دفاع کرتا ہے جیسا کہ بیل اپنی سینگ سے اپنا بچاؤ کرتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: واللہ عامر جو کہہ رہے ہیں سمجھتے نہیں۔ اور بلال رضی اللہ عنہ سے جب بخار دور ہوتا، گھر کے صحن میں لیٹ جاتے اور بلند آواز سے کہتے:
ألا لیت شعری ہل أبیتنَّ لیلۃً
بوادٍ وحولی إذخرٌ وجلیلُ
’’ہائے کاش! میں ایک رات وادی میں گزاروں، جب کہ میرے اردگرد اذخر وجلیل گھاس ہوں۔‘‘
وہل أرِدَنْ یومًا میاہ مَجَنَّۃٍ
وہل یبدون لی شامۃ وطَفِیلُ
’’کیا کسی دن میرا ور ود ’’مجنہ‘‘ کے چشمہ پر ہوگا، اور کیا میرے لیے ’’شامہ‘‘ اور ’’طفیل‘‘ پہاڑیاں نمایاں ہوں گی؟‘‘ میں نے اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ نے فرمایا:
اللہم حَبِّبْ إلینا المدینۃ کحبِّنا مکۃ أو اشدَّ، اللہم وصحِّحہا وبارک لنا فی مُدِّہا وصاعِہا وانقل حمّاہا واجعلہا بالجُحْفَۃ۔
(البخاری: الدعوات، باب الدعاء یرفع الوباء والوجع، 6372)
’’الہٰی مکہ کی طرح مدینہ بھی ہمیں محبوب کر دے یا اس سے زیادہ، الٰہی اس کو صحت کا گہوارہ بنا اور اس کی مد و صاع میں ہمارے لیے برکت عطا فرما اور اس کے بخار کو منتقل کر کے جحفہ میں پہنچا دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرما لی، اس کے بعد مسلمانوں کو اس بخار سے عافیت مل گئی اور مدینہ مختلف مقام وماحول سے آنے والے مسلمانوں کے لیے بہترین وطن قرار پایا۔
(التربیۃ القیادیۃ: جلد، 2 صفحہ، 310)
مدینہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی سلطنت کے ارکان کو ثابت و قائم کرنے میں لگ گئے، مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارگی کرائی، مسجد تعمیر کی، یہود کے ساتھ معاہدے طے کیے، فوجی دستوں کی نقل وحرکت شروع ہو گئی اور جدید معاشرہ میں اقتصادی، تعلیمی اور تربیتی تعمیر کا اہتمام فرمایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے وزیر تھے، ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے، کسی موقع اور معرکہ میں غائب نہ ہوئے، مشورہ، مال اور رائے کے ذریعہ سے آپ کا ساتھ دیا۔ اس سلسلہ میں چنداں بخل نہ کیا۔
(تاریخ الدعوۃ إلی الاسلام فی عہد الخلفاء الراشدین: صفحہ، 131)