صحابہ کرام و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق ضروری عقائد
امام اہلسنت علامہ عبد الشکور لکھنوی رحمۃ اللہصحابہ کرام و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق ضروری عقائد
عقیدہ:
رسول خداﷺ کی صحبت بہت بڑے شرف کی بات ہے اسی لیے اس امت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رُتبہ سب سے بڑا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی جس کو رسول خداﷺ کے ساتھ صحبت حاصل ہو گئی مابعد والوں میں بڑے سے بڑا بزرگ ولی بھی اس کے برابر نہیں ہو سکتا ۔
فائدہ:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد غزوۂ بدر میں تین سو تیرہ تھی اور حدیبیہ میں پندرہ سو، فتح مکہ میں دس ہزار، حنین میں بارہ ہزار ، حجۃ الوداع یعنی آنحضرتﷺ کے آخری حج میں چالیس ہزار، غزوۂ تبوک میں ستر ہزار، بوقت وفات نبویﷺ ایک لاکھ چوبیس ہزار اور جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں، ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے۔
عقیدہ:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مہاجرین وانصار کا رُتبہ باقی صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ ہے اور مہاجرین وانصار میں اہلِ حدیبیہ کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور اہلِ حدیبیہ میں اہلِ بدر اور اہلِ بدر میں چاروں خلفاء کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور چاروں خلفاء میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ ہے۔
فائدہ:
مہاجرین ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کہتے ہیں جنہوں نے خدا و رسولﷺ کے لیے اپنے وطن مکہ معظمہ کو چھوڑ دیا، جن کی مجموعی تعداد ایک سو چودہ تھی۔ اور انصار ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کہتے ہیں کہ جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے آنحضرتﷺ کو اور مہاجرین کو اپنے شہر میں جگہ دی اور ہر طرح کی مدد کی۔
عقیدہ:
چاروں خلفاءؓ کا افضل امت ہونا خلافت کی وجہ سے نہیں ہے، اگر بالفرض بجائے ان کے دوسرے حضرات خلافت کے لیے منتخب ہو جاتے تو بھی یہ حضرات افضل اُمت مانے جاتے۔
عقیدہ:
خلیفہ رسول مثلِ رسولﷺ معصوم نہیں ہوتے، نہ اس کی اطاعت مثلِ رسول کی اطاعت کے واجب ہوتی ہے، بالفرض کوئی خلیفہ سہواً یا عمداً کوئی حکم شریعت کے خلاف دے تو اس حکم میں اس کی اطاعت نہ کی جائے گی، عصمت خاصۂ نبوت ہے ، آنحضرتﷺ کے بعد کسی کو معصوم ماننا عقیدہ نبوت کے خلاف ہے۔
عقیدہ:
خلیفہ رسول کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ دین میں نئے احکام دے، نہ اس کو کسی چیز کے حلال و حرام کرنے کا اختیار ہوتا ہے، بلکہ اس کا صرف یہ کام ہے کہ قرآن و حدیث پر لوگوں کو عمل کرائے، احکام شریعہ کو نافذ کرے اور انتظام امور کو سرانجام دے۔
عقیدہ:
خلیفہ رسول کا مقرر کرنا خدا کے زمہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے زمہ ہے،جس طرح امام نماز کا مقرر کرنا مقتدیوں کے زمہ ہوتا ہے۔
فائدہ م:
اہلسنت والجماعت جو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت کو منجانب اللہ مانتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چاروں خلفاء مہاجرین میں سے ہیں اور مہاجرین میں اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی خلافت ہونا اور جو ان میں سے خلیفہ ہو جائے اس کی خلافت کا پسندیدہ خدا ہونا قرآن مجید میں وارد ہو چکا ہے۔
(دیکھو رسالہ تفسیر آیت تمکین لکھنوی رحمۃ اللہ)
اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا تینوں خلفاء رضی اللہ عنہم کی خلافت کو منصوص من اللہ کہنا بایں معنیٰ نہیں ہے، خدا یا رسول نے ان کو خلیفہ کر دیا تھا بلکہ بایں معنیٰ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خلافت دینے کا وعدہ فرمایا اور خلیفہ موعود کے متعلق کچھ علامات اور کچھ پیشین گوئیوں وغیرہ کے علاؤہ ایک بات یہ بھی ہے کہ رسول خداﷺ نے ان کو اپنی آخری بیماری میں اپنی جگہ پر امام نماز بنا دیا تھا۔
عقیدہ:
رسول خداﷺ کی ازواج مطہرات گیارہ تھیں، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب بنتِ خزیمہؓ ان دونوں کی وفات آپﷺ کے سامنے ہی ہو گئی، سیدہ عائشہ صدیقہؓ، سیدہ حفصہؓ، سیدہ ام حبیبہؓ، سیدہ زینبؓ بنتِ جحش، سیدہ ام سلمہؓ، سیدہ صفیہؓ، سیدہ سودہؓ، سیدہ میمونہؓ ، سیدہ جویریہؓ یہ سب بیبیاں خدا و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برگزیده اور تمام ایمان والوں کی مائیں ہیں اور سارے جہاں کی ایمان والی عورتوں سے افضل ہیں، ان میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی عنہا کا رتبہ زیادہ ہے۔
عقیدہ:
رسول خداﷺ کی صاحبزادیاں چار تھیں، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سے ہوا،
سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا ان دونوں کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا،
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جن کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ، یہ چاروں صاحبزادیاں بڑی برگزیدہ اور صاحبِ فضائل تھیں اور ان چاروں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رتبہ سب سے زیادہ ہے وہ اپنی ماؤں کے سوا سب جنتی بیبیوں کی سردار ہیں۔
فائدہ:
رسول خداﷺ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں کہنا نص قرآنی کے خلاف ہے۔
عقیدہ:
آنحضرتﷺ کے دس چچاؤں میں سے صرف حضرت حمزہؓ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایمان لائے تھے، ان دونوں کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا رتبہ خصوصیت کے ساتھ زیادہ ہے ان کو رسول خداﷺ نے سید الشہداء کا خطاب دیا تھا جب کہ وہ غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے اور آپﷺ کی پانچ پھوپھیوں میں سے صرف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا مشرف باسلام ہوئیں۔
عقیدہ:
مہاجرین و انصار بالخصوص اہلِ حدیبیہ میں باہم رنجش و عداوت بیان افتراء اور بے دینی ہے، قرآن مجید کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہے۔
عقیدہ:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشاجرات یعنی ان کے باہمی جھگڑوں کا بیان کرنا حرام ہے مگر بضرورت شرعی وبہ نیت نیک اور جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں باہم کوئی جھگڑا ہوا تو ہمیں دونوں فریق سے حسنِ ظن رکھنا اور دونوں کا ادب کرنا لازم ہے جس طرح دو پیغمبروں کے درمیان اگر کوئی بات اس قسم کی ہو جائے تو ہم کسی کو برا نہیں کہہ سکتے، بلکہ دونوں پر ایمان لانا نصِ قرآنی سے ہم پر فرض ہے۔
فائدہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے زمانہ خلافت میں دو خانۂ جنگیاں پیش آئیں:
اول جنگ جمل: جس میں ایک جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری جانب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی عنہا تھیں اور ان کے ساتھ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، دونوں جانب اکابر صحابہ تھے م، مگر یہ لڑائی دھوکہ میں چند مفسدوں کی حیلہ سازی سے پیش آگئی ورنہ ان میں باہم رنجش نہ تھی، نہ آپس میں لڑنا چاہتے تھے۔
مفسدوں کی فتنہ پردازی ہوئی
باعث خونریزی جنگ جمل
ورنہ شیر حق سے طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ
چاہتے ہرگز نہ تھے جنگ و جدل
اس لڑائی میں ہر فریق سے دوسرے کے فضائل منقول ہیں۔
دوم جنگ صفین: جس میں ایک جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، دونوں صحابی رسولﷺ اور جلیل القدر صحابی ہیں اور دونوں میں لڑائی کوئی زاتی مفادات کے نہیں تھی دونوں کے لشکر میں باغی لوگ موجود تھے حقیقتاً باغی وہی تھے جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تھے اور بغاوت کر کے شہید کیا، یہ دونوں جنگیں عبداللہ ابنِ سباء یہودی کی تخریب کاری اور سازش سے رونما ہوئی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ صاحبِ فضائل ہیں
حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ ازلۃ الخفاء میں فرماتے ہیں:
جاننا چاہیئے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اعلیٰ آنحضرتﷺ کے ایک صحابی تھے اور زمرہ صحابہ میں بڑی فضیلت والے تھے، خبردار ان کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگوئی میں پڑ کر فعل جرائم کے مرکتب نہ بننا۔
اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ باغی ہوتے جیسے کچھ نام نہاد اہلسنت شہرت پرست ممبروں پر دن رات ہانکتے ہیں تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان کی صلح و بیعت ہرگز نہ کرتے۔
عقیدہ:
فرقہ روافض جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حتیٰ کے مہاجرین و انصار کی بدگوئی کرتا ہے اور ہجرت و نصرت کو فضیلت کی چیز نہیں کہتا گویہ صریح خلاف وزری قرآن مجید کی ہے اور اس کا لازم نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی نبوت اور دلائل نبوت مشکوک ہو جائیں لیکن اس بناء پر ان کو کافر کہنا خلاف احتیاط ہے، اہلِ سنت کا مسلک یہ ہے کہ جب تک صریح انکار ضروریاتِ دین کا نہ ہو اس وقت تک کسی کلمہ گو کو کافر کہنا ناجائز ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے۔‘‘
روافض کا کفر اس بنیاد پر قطعی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تحریف کے قائل ہیں اور معاذ اللہ اس کو اصلی قرآن نہیں مانتے۔
یہ بارہ عقیدے جو بیان کیے گئے اہلسنت کے لیے نہایت ضروری ہیں ان میں اکثر و بیشتر عقیدے وہ ہیں جن کا ماخذ قرآن مجید ہے۔
حق تعالیٰ ہم سب کو ان پاک عقائد پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین