لفظ شیعہ کے لغوی معنی
توقیر احمدلفظ شیعہ کی لغوی تعریف
1۔۔امام ابن درید متوفی 321 ہجری فرماتے ہیں
فلان من شیعة فلان ائ ممن یری رایہ
یعنی کسی شخص کو دوسرے کا شیعہ اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ اس کی رائے کا پیروکار ہوتا ہے نیز لفظ شیعہ تشییع اور مشایعة کا معنی ہے کسی کی مدد و حمایت اور تعاون کرنا
ابن درید جمہرۃ اللغۃ جلد 3 صفحہ 63
2۔۔امام ازہری متوفی 317 ہجری فرماتے ہیں
لفظ شیعہ کا اطلاق کسی آدمی کے مددگاروں اور پیروکاروں پر کیا جاتا ہے ۔اسی طرح ہر وہ گروہ جو کسی ایک رائے پر متفق ہوں انہیں بھی شیعہ کہا جاتا ہے لفظ شیعہ کی جمع شیع اور اور اشیاع استعمال ہوتی ہے
نیز شیعہ وہ قوم ہے جو خاندان نبوی سے محبت اور دوستی کا دعوی کرتی ہے کہتے ہیں
شیعت النار تشییعا آگ پر کوئی چیز ڈال کر اس کو مزید بھڑ کانا
نیز کہا جاتا ہے شیعت فلانا یعنی میں فلاں شخص کے ساتھ اسے الوداع کرنے کے لیے نکلا
اسی طرح کہا جاتا ہے شیعنا شھر رمضان بست من شوال یعنی میں نے ماہ رمضان کے پیچھے اور اس کے ساتھ ہی ماہ شوال کے چھ روزے رکھےعرب کہتے ہیں آتیک غدا او شیعہ
یعنی میں کل یا اس کے پیچھے والےدن تمہارے پاس آؤں گا شیعہ بھی وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں اور شیعہ سے مراد وہ فرق ہیں جو اگرچہ ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں لیکن ہر امر میں باہم متفق نہیں ہوتے
الازہری تہذیب اللغۃ
جلد 3 صفحہ 61
3۔۔امام جوہری متوفی 400ھ ھجری فرماتے ہیں
تشیع الرجل کا معنی ہے کہ فلاں شخص نے شیعہ ہونے کا اعلان کیا اور وہ لوگ جو باہم متفق ہو کر ایک دوسرے کی رائے تسلیم کرتے ہیں انہیں شیعہ کہا جاتا ہے
ذوالرمہ شاعر نے کہا
استحدث الرکب عن اشیاعھم خبرا یعنی عن اصحابھم
دیوان ذی الرمہ ص4
الصحاح للجوھری 3/1240
یعنی کیا قافلے والوں کو اپنے رفقاء کے بارے میں کوئی نئی خبر مل گئی ہے اس شعر میں ذوالرمہ نے لفظ اشیاع کو اصحاب کے معنی میں استعمال کیا ہے
4۔۔علامہ ابن منظور افریقی متوفی 711 ہجری فرماتے ہیں
شیعہ کا معنی پیروکار اور مددگار ہے اس کی جمع شیع اور جمع الجمع اشیاع ہے لفظ شیعہ کا اصل معنی لوگوں کا ایک فرقہ( گروہ) ہے اسایک ہی لفظ کا اطلاق واحد تثنیہ و جمع اور مزکر ومونث ہرایک معنوں میں ہوتا ہے اب یہ لفظ گرو کا مخصوص نام بن چکا ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت سے ولایت ومحبت کا دعوی کرتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص شیعہ میں سے ہے اور شیعہ مذہب میں یوں ہے تو اس سے وہی فرقہ مراد ہوتا ہے جس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے دراصل شیعہ کا لفظ مشایعة سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے کسی کی پیروی اور ہمنوائی کرنا نیز شیعہ اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کی رائے پر کاربند ہوتا ہے کہتے ہیں
تشایع القوم یعنی وہ قوم ایک دوسرے کی ہمنوا بن گئی تشیع الرجل فلاں شخص شیعہ ہوگیا
شایعہ شیاعا وشیعِة یعنی دوسروں کے پیچھے چلنا نیز کہا جاتا ہے فلان یشایعہ علی ذالک یعنی پھر وہ دوسرے کو تقویت پہنچاتا ہے
لسان العرب مادہ شیع
5۔۔علامہ زبیدی متوفی 1205 ہجری فرماتے ہیں
ہر وہ شخص جو کسی انسان کی معاونت اور اس کے لئے گروپ بندی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اس کا شیعہ بن جاتا ہے دراصل شیعہ لفظ مشایعة سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے کسی کی پیروی کرنا ایک قول کے مطابق لفظ شیعہ کی یا (عین کلمہ) دراصل واوتھی جیسے کہتے ہیں
شوع القوم اس نے اپنی قوم کو جمع کیا اب یہ لفظ اس فرقہ کا نام بن چکا ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت سے دوستی اور محبت کا دعوی کرتا ہے ایسے بدعتی لوگ بے شمار ہیں جن میں سے زیادہ غلو کا شکار امامیہ فرقہ ہے جو آپنے ایک غائب امام کا منتظر ہے یہ فرقہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے اور جو ان میں زیادہ غالی ہیں وہ ان دونوں اصحاب رسولؐ کو معاذاللہ کافر قرار دیتے ہیں ان امامیہ میں کئی زندیقیت کی حد کو پہنچے ہوئے ہیں
تاج العروس جلد 5 صفحہ 405
خلاصہ۔۔۔لغوی اعتبار سے لفظ شیعہ۔ تشیع اور مشایعة متابعت نصرت معافقت رائے اتفاق اور تعاون کے معنے میں منحصر ہے
پھر یہ لفظ یعنی شیعہ اس فرقہ کےلیے عموما بطور نام استعمال ہونے لگا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اہل بیت سے محبت کا اعلان کرتا ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور فیروز آبادی اور زبیدی نے ذکر کیا ہے لیکن شیعہ کے لئے اس نام کا بکثرت استعمال کرنا محل نظر ہے کیونکہ لفظ شیعہ کا لغوی معنیٰ ہے کسی کی متابعت اور معاونت کرنا لہذا اکثر شیعہ فرقے جن پر اس لفظ یعنی شیعہ کا اطلاق کیا جاتا ہے لغوی معنی کے لحاظ سے ان کا نام شیعہ رکھنا درست نہیں اس لئے کہ یہ لوگ درحقیقت اہل بیت کے پیروکار نہیں بلکہ ان کے مخالف اور ان کے راستے سے الگ ہونے والے ہیں اسی لغوی معنی کا اعتبار امام شریک بن عبداللہ نخعی کے ایک اثر میں نظر آتا ہے
کہ جب ایک شخص نے ان سے پوچھا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں سے کون افضل ہے انہوں نے جواب دیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس شخص نے کہا آپ شیعہ ہونے کے باوجود ایسی بات کہتے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں کیوں کہ جو شخص اس بات کا اقرار نہیں کرتا وہ شیعہ نہیں ہے اللہ کی قسم ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ علیہ وسلم ممبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا
الاان خیر ھذہ الامة بعد نبیھا ابوبکر ثم عمر
اگاہ رہو اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں
تو اب ہم کیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس بات کی تردید و تکزیب کر سکتے ہیں اللہ کی قسم میں جھوٹ ہے انسان نہیں تھے
منہاج السننہ لابن تیمیہ جلد 1 صفحہ 7۔ 8
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے 80 کے قریب اسانید سے مروی ہے کہ انہوں نے کوفہ کے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا
اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین ابو بکر اور عمر ہیں اسے بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے
منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 137
اس کے علاوہ اس بات کو شیعہ کتب میں بھی منقول کیا گیا ہے
دیکھیں تلخیص الشافی جلد 2 صفحہ 328
تثبیت دلائل النبوة لعبدالجبارالھمدانی جلد 1 صفحہ 63
گویا امام شریک نے اس لغوی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہا ہے کہ جو شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہا کا حقیقی پیروکار نہیں ہے وہ شیعہ کہلانے کا مستحق نہیں ہے کیونکہ لفظ شیعہ کا حقیقی معنی اطاعت اور متابعت ہے اسی لیے کئی ائمہ دین نے اس فرقہ شیعہ کے لیے رافضہ نام کو ترجیح دی ہے
الملطی التنبیہ والرد صفحہ 18
الفرق بین الفرق صفحہ 21
اسفرائینی التبصیر فی الدین صفحہ 16
السکسکی البرھان صفحہ 36
الفرمانی رسالہ فی بیان مزاھب بعض الفرق الضالہ الورقہ 2مخطوط
ابو الحسن العراقی ذکر الفرق الضوال الورقہ 12
مخطوط
بنابریں جو لوگ اہل بیت کے حقیقی پیروکار تھے اور انہیں شیعہ کہا جاتا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ اب یہ لفظ شیعہ عموما اہل بیت کے مخالف بدعتی لوگوں کا لقب بن گیا ہے تو انہوں نے مجبور اپنے لیے یہ لفظ کہلوانا ترک کر دیا جیسا کہ تحفہ اثنا عشریہ کے مؤلف نے کہا ہے جب شیع نام روافض اور اسماعیلیہ کا لقب مشہور ہوگیا تو اولین شیعہ نے اپنے لئے اس لفظ کا استعمال چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہنے لگے
تحفہ اثنا عشریہ صفحہ25۔ 26
قرآن مجید میں لفظ شیعہ کا ذکر اور اس کا معنی
قرآن مجید میں مادہ شیع کا12 مرتبہ ذکر ہوا ہے امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید میں اس لفظ کے معنی مختلف معنی ان کے معنی کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے
اہل تفسیر نے کہا ہے کہ مادہ شیع قرآن مجید میں چار معنی میں استعمال ہوا ہے
شذرات الذھب جلد جلد 4 صفحہ 329
مرآۃ الجنان جلد3 ، 479 ۔492
معجم المولفین جلد 5 صفحہ 157
1۔۔فرقے اور گروہ جیسے ارشاد باری تعالی ہے
Surat No 6 : Ayat No 159
اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہُمۡ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۱۵۹﴾
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے ۔
Surat No 15 : Ayat No 10
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ شِیَعِ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۰﴾
ہم نے آپ سے پہلے اگلی امتوں میں بھی اپنے رسول ( برابر ) بھیجے ۔
Surat No 28 : Ayat No 4
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۴﴾
یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔
Surat No 30 : Ayat No 32
مِنَ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ ﴿۳۲﴾
ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے ۔
2۔۔۔اہل اور نسب کے لیے جیسے ارشاد باری تعالی ہے
Surat No 28 : Ayat No 15
وَ دَخَلَ الۡمَدِیۡنَۃَ عَلٰی حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ اَہۡلِہَا فَوَجَدَ فِیۡہَا رَجُلَیۡنِ یَقۡتَتِلٰنِ ٭۫ ہٰذَا مِنۡ شِیۡعَتِہٖ وَ ہٰذَا مِنۡ عَدُوِّہٖ ۚ فَاسۡتَغَاثَہُ الَّذِیۡ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ عَلَی الَّذِیۡ مِنۡ عَدُوِّہٖ ۙ فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ ٭۫ قَالَ ہٰذَا مِنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۵﴾
اور موسیٰ ( علیہ السلام ) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا ، یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے ، اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی ، جس پر موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اس کے مکا مارا جس سے وہ مر گیا موسیٰ ( علیہ السلام ) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے ۔
3۔۔۔اہل ملت کے لیے جیسے ارشاد باری تعالی ہے
Surat No 19 : Ayat No 69
ثُمَّ لَنَنۡزِعَنَّ مِنۡ کُلِّ شِیۡعَۃٍ اَیُّہُمۡ اَشَدُّ عَلَی الرَّحۡمٰنِ عِتِیًّا ﴿ۚ۶۹﴾
ہم پھر ہر ہر گروہ سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمٰن سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے ۔
Surat No 54 : Ayat No 51
وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَاۤ اَشۡیَاعَکُمۡ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۵۱﴾
اور ہم نے تم جیسے بہتیروں کو ہلاک کر دیا ہے پس کوئی ہے نصیحت لینے والا ۔
Surat No 34 : Ayat No 54
وَ حِیۡلَ بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ مَا یَشۡتَہُوۡنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشۡیَاعِہِمۡ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا فِیۡ شَکٍّ مُّرِیۡبٍ ﴿۵۴﴾٪
ان کی چاہتوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا جیسے کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا وہ بھی ( انہی کی طرح ) شک و تردد میں ( پڑے ہوئے ) تھے
Surat No 37 : Ayat No 83
وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾
اور اس ( نوح علیہ السلام کی ) تابعداری کرنے والوں میں سے ( ہی ) ابراہیم ( علیہ السلام بھی ) تھے ۔
4۔۔۔اختلاف آمیز خواہشات کے لیے جیسے ارشاد باری تعالی ہے
Surat No 6 : Ayat No 65
قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۶۵﴾
آپ کہئیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں ۔ شاید وہ سمجھ جائیں ۔
ابن جوزی نزہۃ الاعین النواظر صف375 اور 370
Surat No 19 : Ayat No 69
ثُمَّ لَنَنۡزِعَنَّ مِنۡ کُلِّ شِیۡعَۃٍ اَیُّہُمۡ اَشَدُّ عَلَی الرَّحۡمٰنِ عِتِیًّا ﴿ۚ۶۹﴾
ہم پھر ہر ہر گروہ سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمٰن سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے ۔
Surat No 6 : Ayat No 159
اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہُمۡ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے ۔
Surat No 34 : Ayat No 54
وَ حِیۡلَ بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ مَا یَشۡتَہُوۡنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشۡیَاعِہِمۡ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا فِیۡ شَکٍّ مُّرِیۡبٍ ﴿۵۴﴾٪
ان کی چاہتوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا جیسے کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا وہ بھی ( انہی کی طرح ) شک و تردد میں ( پڑے ہوئے ) تھے
نوٹ ۔امام دامغانی نے لفظ شیعہ کا 5 معنی اشاعت کرنا بھی ذکر کیا ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے
Surat No 24 : Ayat No 19
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾
جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ۔
قاموس القران صفحہ 271 امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لفظ شیعہ کے اس استعمال کی علت و سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کیونکہ لفظ شیعہ میں تفرقہ اور انتشار کا معنہ پایا جاتا ہے جو اتحاد اور اجتماع کی ضد ہے اس لئے لفظ شیع کا اطلاق صرف گمراہ فرقوں پر ہوتا ہے کیونکہ وہ اختلاف وہ اثرات کا شکار ہوتے ہیں
بدائع الفوائد جلد 1 صفحہ 155
خلاصہ۔۔۔ہم نے مندرجہ بالا سطور میں قرآن مجید میں لفظ شیعہ کے مختلف معنی اور مدلولات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے جنہیں دیکھنے سے یہ بات بداہیتا معلوم ہوجاتی ہے کہ موجودہ شیعی نقطہ نظر قطعاان معانی اور مفاہیم کے ساتھ میل نہیں کھاتا لیکن تعجب انگیز امر یہ ہے کہ آج شیعہ لوگ مختلف حیلوں اور تاویلات کے ذریعے اپنے فرقے کو ان الفاظ کا مصداق قرار دینے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں اور اس طرح وہ قرآنی الفاظ کی تحریف اور ان میں الحاد کرتے ہوئے ان کی غلط تاویل اور ان میں خود ساختہ معنی پیدا کرنے کی غیر محمود روش کا ارتکاب کرتے ہیں چیا کہ کتب احادیث میں اس آیت کریمہ
وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾
مطلب یوں مرقوم ہے
ای ان ابراھیم من شیعة علی
تفسیر البرھان ۴/ ٢٠
تفسیرقمی ٢/ ٣٢٣
بحار الانوار۔ ٦٨/ ١٢۔ ١٣
سفینۃ البحار جلد 1 صفحہ 732
معالم الزلفی صفحہ 307
مجمع البحرین جلد 2 صفحہ 356
ان لوگوں نے کذب و افترا کرتے ہوئے یہ تفسیر حضرت جعفر صادق کی طرف منسوب کی ہے لیکن ان کا علم وراع اور عقیدہ اس سے انکار کرتا ہے
یعنی ابراہیم علی کے شیعہ گروہ میں سے ہیں العیاذ باللہ
حالانکہ یہ مانا قرآنی سیاہ اور اصول دین کی قطان مخالف اور ایسے غالی روافض کے عقیدے سے پھوٹا ہے جو آئمہ کو انبیاء کرام پر فوقیت اور فضیلت دیتے ہیں
اصول الدین صفحہ 298
الشفاءصفحہ 290
منہاج السنة جلد 1 صفحہ 177
اس تاویل بلکہ تحریف کی رو سے تو ابراہیم جو خلیل الرحمٰن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انبیاء سے افضل ہیں شیعان علی میں سے اور ان کے پیروکار بن جاتے ہیں یہ امرعقل و نقل اور تاریخ بلکہ ہر لحاظ سے بدیہی البطلان ہے یہ جھوٹ ایسے شخص نے گھڑا ہے جس کو جھوٹ گھڑنا بھی نہیں آتا
علماء سلف اور اہلسنت کے نزدیک اس آیت
وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾
کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ وسلام حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام کے گھروں سے اور ان کے معنی منہج اور طریقہ کار پر عمل پیرا تھے
تفسیر طبری جلد ہی صفحہ 23/69
تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 13
تفسیر قرطبی جلد 15 صفحہ 91
زادالمسیر جلد 7 صفحہ 67
اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق کی رو سے بھی یہی تفسیر درست معلوم ہوتی ہے
یہاں ایک ضعیف قول بھی منقول ہے جو فراء کی طرف منسوب ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ وسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گروہ اور متبعین میں سے ہیں امام شوکانی فرماتے ہیں اس قول کی کمزوری اور سیاق سے مخالفت مخفی نہیں ہے
فتح القدیر جلد 4 صفحہ 401
علامہ آلوسی رقمطرازہیں فراء کا قول کہ اس لفظ شیعتہ میں ضمیر کا مرجع جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
لیکن راجہ بات وہی ہے جو ہم نے ذکر کردی ہے کہ یہ ضمیر نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہی بات ائمہ تفسیر ابن عباس مجاہد قتادہ اور سدی سے منقول ہے
اور اس لئے بھی کہ کسی متقدم کے حق میں یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے سے متاخر کا شیعہ پیروکار ہے
روح المعانی جلد23/99۔۔
کیونکہ اس آیت سے ماقبل کی آیت حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام ہی سے متعلق ہے اور یہ امر توجہ طلب ہے کہ کہ شیعہ مفسرین نے بھی اس آیت کی تفسیر میں علماء اہلسنت کے قول ہی کو ترجیح دی ہے اور اپنے ہم مذہب علماء کی رائے کو نظر انداز کر دیا ہے
مجمع البیان جلد 5 صفحہ 67
قرآن مجید میں جہاں پر ابراہیم علیہ السلام کے دین کا ذکر کیا ہے، وہاں یوں ارشاد فرمایا ہے:
'' ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی لیکن وہ تو یک سو مسلم تھے۔"(آل عمران ۶۷)
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا دین بیان کرتے ہوئے ( حنیفاً مسلما )کہا ہے ۔ اگر وہ مذہباً شیعہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتے:ما کان ابراھیم یھودیا ولا نصر انیا ولکن کان شیعۃ۔ لیکن قرآن میں اس طرح مذکور نہیں۔ تو یہ واضح دلیل ہے
تفسیر مجمع البیان ؛۔
"وان من شیعتہ لابراھیم ای واِنَ من شیعۃ نوح ابراھیم یعنی انہ علیٰ منھاجہ وسنتہ فی التوحید والعدل واتباع الحق"۔ حوالہ۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۴ جز ۸ ص ۴۴۹ پاره نمبر ۲۳مطبوعه تهران طبع جديد۔
ترجمہ؛۔ "اللہ تعالیٰ کا ارشاد (اور بے شک ابراہیم اس کے شیعہ میں سے ہیں) یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے شیعہ میں سے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اسی طریقہ اور اسی راستہ ء توحید وعدل اور اتباع حق پر تھے ۔ جو حضرت نوح علیہ السلام کا تھا"۔
حدیث میں میں لفظ شیعہ کا ورود
سنت مطہرہ میں لفظ شیعہ اتباع پیروکار کے معنوں میں وارد ہوا ہے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا :لم ارک عدلت۔ میری رائے میں آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا تو اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
سیکون لہ شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوامنہ
رواہ احمد 12۔3۔5
السنہ 2/454
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی سنجیدہ ہے اور اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں
امام عبداللہ بن امام احمد فرماتے ہیں اس حدیث کے آسمان میں متعدد طرق ہیں جو سارے صحیح ہیں
علامہ احمد شاکر فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے
عنقریب اس کے ایسے پیروکار ہوں گے جو دین میں بڑا تشدد کریں گے یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا وہ دین سے باہر نکل جائیں گے
اسی طرح ایک اور حدیث میں تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں فرمایا ہے
وھم شیعة الدجال:یعنی وہ دجال کے پیروکار ہوں گے
سنن ابی داود جلد 5 صفحہ 67
سنن ابی داود للمنذری جلد 7 صفحہ 61
مسند احمد جلد 5 صفحہ 407
امام منزری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی سند میں عمر مولا راوی نہ قابل احتجاج ہے ہر ایک انصاری آدمی موجود ہے
بس لفظ شیعہ یہاں اصحاب اتباع اور انصار کے مترادف استعمال ہوا ہے
کتب احادیث میں تلاش وجستجو کے باوجود مجھے موجودہ فرقہ شیعہ کے لیے بطور علم اس لفظ کا استعمال نظر نہیں آیا البتہ بعض ضعیف اور موضوع روایات میں یہ لفظ شیعان علی رضی اللہ عنہ کے حق میں وارد ہوا ہے ایک من گھڑت حدیث میں ہے
فاستغفرت لعلی وشیعتہ
پس میں نے علی اور ان کے متبعین کے لیے دعائے مغفرت کی ہے
امام عقیلی فرماتے ہیں یہ بے اصل روایت ہے اور امام کنانی نے اسے موضوع قرار دیا ہے دیکھی
تنزیہ الشریعہ جلد 1 صفحہ 414
ایک حدیث میں ہے
مثلی مثل شجرة انا اصلھاوعلی فرعھا والشیعة ورقھا
یعنی میری مثال ایک درخت کی ہے کہ میں اس کی جڑوں اور علی اس کی شاخیں اور شیعہ اس کے پتے ہیں
امام ابن جوزی اور امام شوکانی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے دیکھیں الموضوعات لابن الجوزی جلد 1 صفحہ 397
الفوائد المجموعۃ للشوکانی صفحہ 379
انت شیعتک فی الجنة
یعنی تم اور تمہارے پیروکار جنتی ہیں
یہ روایت بھی موضوع ہے دیکھیں
الموضوعات لابن الجوزی جلد 1 صفحہ 397
میزان الاعتدال للذہبی جلد 1 صفحہ 421
فوائدالمجموعہ الشوکانی صفحہ 379
علاوہ ازیں بعض موضوع احادیث میں مذکور ہے کہ عنقریب ایک قوم پیدا ہوگی جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا شیعہ ہونے کا دعوی کرے گی اور انہیں رافضہ (لفظ رافضہ کا معنیٰ بعد میں تحقیقی ذکر کیا جائے گا )کہا جائے گا
امام ابن ابی عاصم نے رمضان سے متعلق چار روایات ذکر کی ہیں
السنہ ابن ابی عاصم جلد 2 صفحہ 475
فوائد المجموعہ صفحہ 379
مجمع الزوائد جلد 10 صفحہ 22
معجم الکبیر جلد 12 صفحہ 242
اہل تشیع کی کتب حدیث میں لفظ شیعہ
شیعہ کی کتب حدیث میں بہت زیادہ احادیث و روایات میں یہ لفظ تکرار کے ساتھ ذکر ہوا ہے اور وہ لوگ ان تمام مرویات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی حسن حسین رضی اللہ عنہ اور بقیہ بارہ اماموں کی طرف منسوب کرتے ہیں
(شیعہ مذہب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ اماموں کے فرامین کا نام سنت ہے)
شیعہ کے ہاں اس لفظ یعنی شیعہ کا تکرار ایک اصطلاحی نام کے طور پر ہوتا ہے جو ان کے مذہب عقیدے اور ائمہ پر دلالت کرتا ہے کیوں کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود شیعہ مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے اپنی نگہداشت میں پروان چڑھایا ہے
(شیعہ مذہب کی معروف اور مستند کتاب اصول کافی میں جہاں یہ بات مذکور ہے کہ ائمہ شیعہ کی تعیین وتنصیص اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ شیعہ نے کی ہے وہاں مؤلف نے 13 عنوان کے ضمن میں 110 احادیث ذکر کی ہیں )
بلکہ ان لوگوں کے غلو کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ایسی روایات وضع کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ شیعہ بطور ایک مخصوص مذہب قبل از نبوت بھی مشہور تھا جیسا کہ ان لوگوں کی کتب احادیث میں اس آیت وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾
کی تفسیر میں منقول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شیعہ اور متبعین میں سے ہیں العیاذباللہ
بلکہ ان لوگوں نے یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے ولایت علیؓ کا عہد و میثاق لیا ہے اور ولایت علی انبیاء کے تمام صحیفوں اور کتابوں میں مرقوم ہے
تفسیرالبرھان جلد 1 صفحہ 26
اہل تشیع لوگوں نے اس طرح کے اور بھی بہت سارے دعوے کیے ہیں
تاریخ اسلامی میں لفظ شیعہ
عہد اسلام کے اولین دور میں رونما ہونے والے تاریخی حوادثات میں لفظ شیعہ صرف اپنے لغوی معنی معاونت اور متابعت میں استعمال ہوا ہے بلکہ واقعہ تحکیم کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جو عہد نامہ لکھا گیا تھا اس میں بھی لفظ شیعہ فقط اپنے لغوی معنیٰ میں ہی ذکر ہوا ہے اس وثیقےمیں جہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں اور متبعین کو لفظ شیعہ سے مخاطب کیا گیا ہے وہیں بعینہ یہی سیدنا معاویہ کے متبععین پر بھی لفظ شیعہ کا اطلاق کیا گیا ہے اور لفظ شیعہ کے استعمال کو صرف حضرت علی کے اتباع و انصار کے لیے
مخصوص نہیں کیا گیا جیسا کہ تاکہ نوشتے میں مرقوم ہے
ھذاماتقاضی علیہ علی بن ابی طالب ومعاویة بن سفیان وشیعتھما وان علیا وشیعتہ رضوا بعبداللہ بن قیس ورضی معاویة وشیعتہ بعمروبن العاص فاذاتوفیی احدالحکمین فلشیعتہ وانصارہ ان یختاروامکانہ وان مات احد الامرین قبل انقضاء الاجل المحدودفی ھذہ القضیة فلشیعتہ ان یختاروامکانہ رجلایرضون عدلہ
اخبار الطوال صفحہ 194 ۔ 196
تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 53 ۔54
مجموعۃ الوثائق السیاسیة صفحہ 281۔ 82
یہ وہ معاہدہ ہے جو علی ابن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان اور ان دونوں کے اتباع وانصار کے درمیان طے پایاعلی رضی اللہ عنہٗ اور ان کے پیروکاروں نے عبداللہ بن قیس کو اپنا حکم پسند کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے متبعین عمر ابن عاص کو اپنا حکم بنا کر راضی ہیں اگر دونوں منصفین میں سے کوئی ایک فوت ہوگیا تو اس کے شیعہ اور انصار کو اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو منتخب کرنے کا اختیار ہوگا اور اگر اس فیصلے کی معینہ مدت پوری ہونے سے قبل ہی دونوں امرا علی و معاویہ رضی اللہ عنہما میں سے کوئی ایک وفات پا گیا تو ہر ایک کے شیعہ و انصار کو اس کی جگہ کوئی ایسا شخص منتخب کرنے کا حق حاصل ہوگا جس کے عدل و انصاف کو وہ پسند کرتے ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حکیم بن افلح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
لانی نھیتھا یعنی عائشة ان تقول فی ھاتین الشیعتین شیئا
مسلم جلد 2 صفحہ168۔ 170
یعنی میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان دونوں گروہوں سے متعلق کوئی بات کرنے سے منع کیا تھا
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تاریخی لحاظ سے اس اثر سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس دور میں شیعہ نام سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلقین اور اعوان و انصار کے لیے مخصوص نہیں تھا
منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 68
ایک تاریخی آثر یہ بھی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب بسربن ارطاة کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں کہا
امض حتی تاتی صنعا فان لنا بھا شیعة
تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 198
جاؤ حتیٰ کہ تم صنعا پہنچ جاؤ کیونکہ وہاں ہمارے شیعہ قیام پذیر ہیں
معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ مذہب کے دعویداروں کا عملی اکھٹ اور اس لفظ کو اپنے لیے بطور امتیازی نام اختیار کرنے کا آغاز حضرت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شروع ہوا معروف شیعہ مورخ مسعودی رقمطراز ہیں ٦۵ھ میں کوفہ میں شیعہ حرکت میں ائے
مروج الذھب جلد 3 صفحہ 100
پھر توابین کی جماعت قائم ہوئی اور اس کے بعد مختار کی جماعت کیسانیہ کھڑی ہوئی اور شیعہ کا گروہ تشکیل پانے لگا وہ اپنے مذہب کے اصول وقواعد بنانے لگے اور اس نام یعنی شیعہ کو اپنی شناخت بنانا شروع کردیا
یہاں سے یہ خوب واضح ہوتا ہے کہ اس وقت شیعہ نام ہر اس گروہ کے لیے استعمال ہوتا تھا جو کسی شخص کو اپنا قائداور سردار بنا کر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتا تھا لیکن بادشاہ لوگ ان تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس امت میں سب سے پہلے انہیں کا نام شیعہ تھا
المقالات و الفرق صفحہ 15
فرقہ شیعہ صفحہ 18
لیکن یہ لوگ یہ بات دانستہ فراموش کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے انصار پر لفظ شیعہ کا اطلاق کیا ہے البتہ تاریخی واقعات کی رو سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد لفظ شیعہ لقب ان کے متبعین کے حق میں مخصوص ہوا
میراث عندالجعفریہ صفحہ 22
جبکہ بعض دیگر علماء کی رائے میں یہ نام شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے اتباع کے لیے معروف ہوا ہے
علی سامی النشار جلد 2 صفحہ 35