ابوبکر رضی اللہ عنہ میدان بدر میں
علی محمد الصلابیابوبکر رضی اللہ عنہ میدان بدر میں
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں شرکت کی جو 2 ہجری میں واقع ہوا۔ اس غزوہ میں آپ نے عظیم کردار ادا کیا جس میں سے اہم ترین یہ ہیں:
1: جنگی مشورہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا تجارتی قافلہ بچ کر نکل گیا ہے اور سرداران مکہ جنگ پر مصر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس سلسلہ میں مشورہ لیا۔(البخاری: 3952) سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اچھی گفتگو کی پھر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اچھی گفتگو کی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 2 صفحہ، 447)
2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فراہمی اطلاعات میں آپ کا کردار:
ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشرکین کے لشکر کے حالات معلوم کرنے نکلے، دونوں اس علاقہ میں گھوم رہے تھے، ایک عربی بوڑھے سے ملاقات ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قریشی لشکر، محمد اور ان کے اصحاب کے متعلق دریافت کیا۔ (قریشی لشکر کے ساتھ اپنے بارے میں پوچھنے کا مقصد تھا کہ آپ کی شخصیت پوشیدہ رہے، راز افشا نہ ہونے پائے۔ (مترجم))
اس بوڑھے نے کہا: میں اس وقت تک تمہیں کچھ نہ بتاؤں گا جب تک یہ نہ بتاؤ کہ آپ کون ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آپ ہمیں بتا دو گے تو ہم بھی تمہیں بتا دیں گے کہ ہم کون ہیں۔
اس نے کہا: بات پکی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہاں۔
اس نے بتایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ محمد اور ان کے ساتھی فلاں دن نکلے ہیں اگر خبر دینے والا سچا ہے تو آج فلاں جگہ ہوں گے۔ (ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اسلامی لشکر فروکش تھا) اور مجھے خبر ملی ہے کہ قریش فلاں دن نکلے ہیں اگر خبر دینے والا سچا ہے تو آج وہ فلاں جگہ ہوں گے۔ (ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں کفار کا لشکر فروکش تھا۔)
اس کے بعد بوڑھے نے کہا: میں نے آپ کو مطلوبہ چیز بتلا دی، اب آپ ہمیں بتائیں کہ آپ لوگ کون ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم پانی سے ہیں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چل پڑے، بوڑھا بکتا رہا ’’پانی سے ہیں‘‘ کیا مطلب؟ کیا عراق کے پانی سے ہیں؟
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 2 صفحہ، 228)
اس مؤقف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قربت واضح ہوتی ہے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے اسباق سیکھے۔
3: مرکز قیادت (سائبان) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں:
جنگ کے لیے اسلامی لشکروں کی صفوں کو ترتیب دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرکز قیادت میں واپس آگئے، جو ایک ٹیلے پر جھونپڑا ڈال کر تیار کیا گیا تھا، جہاں سے میدان جنگ سامنے نظر آتا تھا، اس کے اندر آپ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے، اور انصاری نوجوانوں کی ایک جماعت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس مرکز پر پہرہ دے رہی تھی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 2 صفحہ، 233)
علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس مؤقف کی وضاحت کی ہے، آپ نے لوگوں سے سوال کیا:
سب سے بڑا بہادر کون ہے؟
لوگوں نے جواب دیا: امیر المومنین! آپ ہیں۔
آپ نے فرمایا: میرا معاملہ تو یہ ہے کہ جو میرے مقابلہ میں آیا میں نے اس سے بدلہ لیا، لیکن سب سے بڑے بہادر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ ہم نے بدر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا اور کہا: کون آپ کے ساتھ یہاں رہے گا تاکہ کوئی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے۔ اللہ کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے، جو مشرک بھی ادھر کا رخ کرتا آپ اس کی طرف بڑھ کر مار بھگاتے، یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے بہادر ہیں۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 271 اور 272)
4: فتح ونصرت کی بشارت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو بہ پہلو قتال:
جنگی اسباب اختیار کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کی طرف متوجہ ہوئے اور فتح ونصرت کی دعا میں لگ گئے، آپ اپنی دعا میں یہ فرما رہے تھے:
اللہم أنجزلی ما وعدتنی ، اللہم ان تہلک ہذہ العصابۃ من اہل الاسلام فلا تعبد فی الارض ابدا
’’الٰہی تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے پورا کر دکھا، اگر مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو زمین میں کبھی تیری عبادت نہ ہو گی۔‘‘
آپ برابر دعا و استغاثہ میں لگے رہے، یہاں تک کہ چادر مبارک آپ کے شانہ مبارک سے گر گئی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ردائے مبارک تھام لی اور شانہ مبارک پر دوبارہ ڈال دی اور عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! کافی ہو گیا، اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔
(مسلم: الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ ببدر: جلد، 3 صفحہ، 1763 اور 1764)
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ(سورۃ الانفال: آیت، 9)
ترجمہ: ’’اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا:
اَللّٰہُ اَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعَدَکَ اللّٰہُ اِنْ شِئْتَ لَمْ تَعْبَدْ۔
ترجمہ: ’’اے اللہ! تو اپنے عہد و وعدے کو پورا کر دکھا، اللہ اگر تو چاہے تو تیری عبادت نہ ہو۔‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام لیا اور عرض کیا: اللہ آپ کے لیے کافی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے باہر نکلے:
سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (سورۃ القمر: آیت، 45)
(بخاری: المغازی، باب قصۃ بدر: جلد، 5 صفحہ، 6 حدیث، 3953)
ترجمہ: ’’عن قریب یہ جماعت شکست دی جائے گی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی۔‘‘
سائبان کے اندر آپ پر غنودگی سی طاری ہوئی پھر آپ نے متنبہ ہو کر فرمایا:
ابشر یا ابابکر! اتاک نصر اللہ، ہذا جبریل آخذ بعنان فرسہ یقودہ علی ثنایاہ النقع۔
ترجمہ: ’’اے ابوبکرؓ! خوش ہو جاؤ، تمہارے پاس اللہ کی فتح ونصرت آگئی، یہ جبریل امین اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے بڑھ رہے ہیں اور گردوغبار میں اٹے ہوئے ہیں۔‘‘
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سائبان سے باہر نکلے اور لوگوں کو قتال پر ابھارا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 2 صفحہ، 457 بحوالہ تاریخ الدعوۃ: 125)
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ سے اللہ تعالیٰ کی فتح ونصرت کے لیے نفسانی خواہشات سے دوری، اخلاص، اللہ سے لو لگانا، اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور گھٹنے ٹیکنے سے متعلق ربانی دروس سیکھے۔ یہ منظر آپ کے ذہن ودماغ اور قلب و وجدان میں راسخ ہو گیا تھا، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اس طرح کے مواقع پر اس کو نافذ کرتے اور یہ منظر ہر اس قائد، حاکم، لیڈر اور ہر فرد کے لیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی اقتدا کرنا چاہتا ہے، درس و عبرت پیش کرتا ہے۔
جب گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے اور لوگوں کو قتال پر ابھارا۔ لوگ اپنی صفوں میں اللہ کا ذکر کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود خوب قتال کیا اور آپ کے پہلو بہ پہلو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ قتال کرتے رہے۔(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 278) آپ کی بے نظیر اور نادر الوجود شجاعت سامنے آئی، آپ ہر سرکش کافر سے لڑنے کے لیے تیار تھے، اگرچہ آپ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اس معرکہ میں آپ کے بیٹے عبدالرحمٰن کفار کی جانب سے لڑنے کے لیے آئے تھے اور عرب میں سب سے بڑے بہادر سمجھے جاتے تھے اور قریش میں تیر اندازی میں سب سے بڑے ماہر تھے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنے والد سے عرض کیا: بدر کے دن آپ میرے سامنے واضح نشانہ و ہدف پر تھے، لیکن آپ سے ہٹ گیا اور آپ کو قتل نہ کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تو میرے سامنے آتا تو میں تجھ سے ہٹتا نہیں۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: 94)
5: صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور جنگی قیدی:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ: جب مسلمانوں نے بدر میں کفار کو گرفتار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
ان قیدیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہ سب چچیرے بھائی اور خاندان و کنبے ہی کے لوگ ہیں، میری رائے ہے کہ آپ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیں، اس طرح کفار کے مقابلہ کے لیے ہمیں قوت حاصل ہو گی اور امید ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور یہ مسلمان ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ میری وہ رائے نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے تو یہ ہے کہ انہیں آپ ہمارے حوالے کر دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ عقیل بن ابی طالب کو علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کریں وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو (جو عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی تھا) میرے حوالہ کریں اور میں اس کی گردن مار دوں۔ یہ سب کفر کے لیڈر اور قائدین ہیں۔
عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کر لیا۔ اس کے بعد جب اگلا دن آیا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ مجھے بتائیں آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں، اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھی نے جو فدیہ لینے کی رائے مجھے دی تھی، اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ اور آپ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسی کی وجہ سے مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ الانفال: آیت، 67 تا 69)
ترجمہ: ’’نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی، پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مال غنیمت حلال کر دیا۔ (مسلم: الجہاد والسیر: جلد، 3 صفحہ، 1385 اور 1763)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب بدر کی جنگ ختم ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا:
ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی کی قوم اور کنبے کے لوگ ہیں ان کو چھوڑ دیں اور انہیں مہلت دیں، شاید اللہ ان کو توبہ کی توفیق دے دے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انہوں نے آپ کو مکہ سے نکالا ہے اور آپ کی تکذیب کی ہے، آپ انہیں قریب کریں، میں ان کی گردنیں اڑا دوں۔
عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسی وادی دیکھیں جہاں خوب زیادہ ایندھن ہوں، انہیں اس میں داخل کر کے ان پر آگ لگا دیں۔
اس پر عباس نے کہا: تم نے اپنے رشتے توڑ دیے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کہے بغیر گھر میں داخل ہو گئے۔ لوگ آپس میں قیاس آرائی کرنے لگے۔
کچھ لوگوں نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کریں گے۔
کچھ لوگوں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کریں گے۔
اور کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق عمل کریں گے۔
اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے دلوں کو مٹی سے زیادہ نرم کر دیتا ہے اور کچھ لوگوں کے دلوں کو پتھر سے زیادہ سخت بنا دیتا ہے۔
اے ابوبکر! تمہاری مثال عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے جو یہ کہتے رہے:
إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾ (سورۃ المائدۃ: آیت، 118)
’’اگر تو ان کو عذاب میں مبتلا کرے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو یقینا غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
اے عمر! تمہاری مثال نوح علیہ السلام کی طرح ہے، جنہوں نے کہا:
وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴿٢٦﴾ (سورۃ نوح: آیت، 26)
’’اور نوح نے کہا: اے میرے رب! زمین پر کسی کافر کے گھر کو نہ چھوڑ۔‘‘
اور تمہاری مثال موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے، جب انہوں نے کہا:
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ﴿٨٨﴾ (سورۃ یونس: آیت، 88)
(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ ، 373 ، تفسیر ابنِ کثیر: جلد، 2 صفحہ، 325)
’’اور موسیٰ نے عرض کیا: اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیے، اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیے ہیں کہ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں؟ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست ونابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے، سو یہ ایمان نہ لانے پائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی مشورہ لیتے تو سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لب کشائی فرماتے، پھر بسا اوقات دوسرے لوگ بھی بولتے اور بسا اوقات دوسرے لوگ بات نہ کرتے تو صرف ابوبکر ہی کی رائے پر عمل پیرا ہو جاتے اور اگر دوسرے لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف رائے پیش کرتے تو آپ ان کی رائے کے بجائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو اختیار فرماتے۔
(ابوبکر الصدیق: محمد مال اللہ، 335)