Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنی و شیعہ حدیثی ذخیره قبل از تدوین(قسط 3)

  مولانا سمیع اللہ سعدی

سُنی و شیعہ حدیثی ذخیره قبل از تدوین

مفاہیم و تصورات میں تیسرا بڑا مسئلہ زمانہ قبل از تدوین میں احادیث و روایات کی صورتحال کا تعین ہے ، پہلی صدی ہجری کے اختتام کے ساتھ ہی اہل سنت کے مجموعات حدیث منظر عام پر آنا شروع ہوۓ ، امام مالک کی موطا، امام ابو یوسف و امام محمد کی کتاب الاثار اور دیگر مجموعات یکے بعد دیگرے مرتب ہونا شروع ہوئے ،ان مجموعات سے پہلے صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے اپنی ذاتی نسخے ترتیب دیئے تھے اور اپنے شیوخ سے سنی حدیثیں ان میں جمع کی تھیں۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی رحمہ اللہ نے اپنی قابل قدر کتاب

"دراسات في الحديث النبوی و تاریخ تدوینہ"

میں صحابہ کے 52 صحائف و مجموعات ، کبار تابعین کے 53 مجموعات حدیث ، صغار تابعین کے 99  مجموعات اور تبع تابعین کے 252 مجموعات حدیث کی فہرست مرتب کی ہے ، یوں حدیث کی اولین تصنیفات سے پہلے 456 مجموعات حدیث اہل علم کے حلقوں میں رائج رہے ، اس کے علاوہ حرمین شریفین ، عراق ، شام ، مصر اور یمن میں حدیث کے معروف شیوخ کی درسگاہیں قائم تھیں ، جن میں ہزاروں طالبان علم مختلف شیوخ سے روایات لیتے رہے۔

محدث خطیب بغدادی نے اپنی کتاب

"الرحلہ في طلب الحديث"

میں ان اسفار و درسگاہوں کی تفصیل دی ہے ، ان تفاصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا ذخیرہ حدیث تدوین سے پہلے تحریری شکل میں بھی موجود تھا اور اکابر شیوخ کی مجالس حدیث کی صورت میں تعلیم و تعلم کی شکل میں بھی موجود تھا۔
اہل تشیع کا زمانہ تدوین تیسری صدی کا آخر اور چوتھی صدی ہجری کا شروع ہے ، کیونکہ شیعہ کتب حدیث کے اولین مصادر جیسے

بصائر الدرجات (ابوالحسن الصفار قمی متوفی 290ھ )

اور

الکافی ( محمد بن یعقوب الکلینی متوفی 329ھ)

اس دور کی تصانیف میں سے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے کی تین صدیوں میں اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی تحریری و تدریسی شکل کیا تھی؟

جہاں تک تعلیم و تعلم کا تعلق ہے ، تو اہل سنت کی طرح اہل تشیع میں شیوخ الحدیث کی وسیع مجالس درس اور درسگاہوں کی کوئی روایت نہیں رہی ہے ، کیونکہ یہ تین صدیاں اہل تشیع کے نزدیک "دور تقیہ " میں آتی ہیں ، جن میں اہل تشیع علانیہ اپنی احادیث کو نشر نہ کر سکتے تھے ، شیعہ رجال حدیث پر سب سے ضخیم کتاب لکھنے والے معروف عراقی شیعہ محدث امام خوئی لکھتے ہیں :

إن أصحاب الائمة عليهم السلام وإن بذلوا غاية جهدهم واهتمامهم في أمر الحديث وحفظه من الضياع والاندراس حسبما أمرهم به الائمة عليهم السلام ، إلا أنهم عاشوا في دور التقية ، ولم يتمكنوا من نشر الاحاديث علنا

کہ ائمہ کے تلامذہ نے اگرچہ حدیث کی حفاظت اور اس کو ضیاع سے بچانے کے لئے ائمہ کے حکم کے مطابق اپنی پوری کوششیں صرف کیں ، لیکن وہ تقیہ کے زمانے میں تھے ، جس کی وجہ سے احادیث کو علانیہ نشر کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے۔
امام خوئی کی اس بات پر الکافی و دیگر کتب کی روایات بھی دلالت کرتی ہیں ، چنانچہ الکافی میں امام جواد کی روایت ہے کہ ان سے ان کے ایک شاگرد محمد بن حسن نے پوچھا :

قلت لأبي جعفر الثاني : جعلت فداك؛ إن مشايخنا رووا عن أبي جعفر وأبي عبد الله عليهما السلام وكانت التقية شديدة، فكتموا كتبهم ولم يرووا عنهم، فلما ماتوا صارت الكتب إلينا. فقال : حدثوا بها فإنها حق (الکافی، 53/1)

کہ میں نے امام جواد سے پوچھا کہ ہمارے مشائخ نے امام باقر و امام جعفر صادق سے روایات لیں ، 
جبکہ سخت تقیہ کا زمانہ تھا، تو انہوں نے اپنی کتب چھپائیں اور انہیں سر عام روایت نہیں کیا ،جب وہ مشائخ مر گئے ،اب وہ کتب ہمارے پاس ہیں ، تو امام نے کہا کہ ان کتب کی روایات بیان کرو، کیونکہ وہ سچی ہیں۔
لہذا دور تدوین سے قبل اہل تشیع کا حدیثی ذخیرے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کی طرح کھلم کھلا تدریس، تعلیم ، مجالس حدیث اور درسگاہوں کی بھٹی سے نہیں گزرا۔
یہی وجہ ہے کہ شیعہ کی اولین کتاب الکافی ،جو اہل تشیع میں اس مقام کی حامل ہے ، جو صحیح بخاری کو اہلسنت میں حاصل ہے ، الکافی کے مصنف محمد بن یعقوب الکلینی کی اولین زندگی کی تاریخ مجہول ہے ، چنانچہ معروف شیعہ محقق شیخ عبد الرسول عبد الحسن الغفار اپنی ضخیم کتاب

"الکلینی والکافی "

میں لکھتے ہیں :

"اطبقت المصادر القديمه و الحديثه على عدم ذكر سنة و لادته و مکان تولده و کم هو عمره ، حيث ان حياته و نشاته الاولى مجهولة (الکلینی والکافی ، ص 123)

یعنی قدیم و جدید مصادر متفقہ طور پر کلینی کا سن ولادت ، مکان ولادت اور عمر کے ذکر سے خالی ہیں ، کیونکہ آپ کی زندگی کا اولین دور اور نشو ونما نامعلوم ہے ۔ سن ولادت کا معلوم نہ ہونا قابل تعجب نہیں ، کہ کئی کبار علماء کے سنین ولادت بوجوہ نامعلوم ہوتے ہیں ، لیکن جائے ولادت اور زندگی کی اولین نشو و نما کا نامعلوم ہونا حد درجہ باعث استعجاب ہے ، کہ اپنے دور کے سب سے بڑے محدث ، جس نے سولہ ہزار شیعی روایات کو مدون کیا ، ان کی زندگی کی اولین تاریخ ہی نامعلوم ہے ۔ 
یہ معاملہ صرف شیخ کلینی تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ان کے والد (جواہل تشیع کے نزدیک اکابر علمائے شیعہ میں سے تھے ) ان کے احوال بھی غیر معلوم ہیں ، چنانچہ مصنف آگے جاکر لکھتے ہیں :

"و الشيخ الكليني ہو احد اولئک العلماء التي ضاعت اخباره ،و لم تصل الينا عن نشاته و حياته العلميه في مراحلها الاولى الا النزر القليل ،بل و حتى والده يعقوب بن اسحاق الكليني الذي حاليا له مقبرة و مزار عام فهو الآخر لم يحدثنا التاريخ عن سيرته بالتفصيل (الکلینی و الکافی ، ص 159،160)

یعنی صرف شیخ کلینی کے ہی اولین احوال نامعلوم نہیں ہیں ، بلکہ ان کے والد یعقوب بن اسحاق ، جن کا مقبرہ آج کل مزار عام ہے ، ان کی سیرت کے بارے میں تاریخ ہمیں زیادہ تفصیلات نہیں بتاتی ۔
یہاں بجا طور پر سوال ہوتا ہے کہ جن کے والد و خاندان کے احوال نامعلوم ہیں ، اور خود ان کی ابتدائی زندگی پردہ خفا میں رہی ، ان کی لکھی ہوئی کتاب کا علمی و تحقیقی اعتبار سے کتنا وزن ہوگا؟ یہ قضیہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے ، جبکہ اس کے بر خلاف امام بخاری ، امام بخاری کے والد اسماعیل کے نہ صرف اپنے احوال روز روشن کی طرح معلوم ہیں ، بلکہ ان کے آباء واجداد میں سے اولین اسلام لانے والے کے احوال بھی معلوم ہیں۔ 
امام کلینی کی اولین زندگی ہی مجہول نہیں ، بلکہ ان کے اسفار علمیہ کا بھی کوئی تذکرہ کتب تاریخ میں نہیں ملتا۔ چنانچہ شیخ عبد الحسن عبد الغفار شیخ کلینی کے اسفار کے بارے میں علمائے شیعہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

"اما متى جاء الى بغداد و متی رحل الى غيربا و الى اي مدينة سافر ،كل ذلك يبقى في طي الغموض (الکلینی و الکافی، ص162)

یعنی کلینی کب بغداد آئے ، کب اور کس شہر کی طرف اسفار کئے ، یہ سب امور پردہ خفا میں ہیں ۔
اس موقع پر ایک وضاحت کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اہل تشیع کے معاصر محققین الکلینی کو اپنے
زمانے کے ایک معروف شیخ ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے کتب تراجم میں سے کلینی کے احوال نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اگر شیخ کلینی اپنے زمانے کے ابتداء ہی سے ایک معروف شخصیت نہ ہوتی تو مخالف فرقہ کے اہل علم میں ان کی شہرت کیسے پہنچتی؟ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ شیخ کلینی کا تذکرہ ان کے ہم عصر اہل سنت علماء کی کتب میں نہیں ملتا، چنانچہ شیخ عبد الحسن الغفار لکھتے ہیں :

و بعض من عاصر الكليني في بغداد او في غيربا قد اهملواترجمته كالخطيب البغدادي ،و السمعانی و یاقوت و ابن الجوزی و امثالهم (الکلینی و الکافی، ص 165)

کہ کلینی کے بعض معاصرین جیسے خطیب بغدادی ، علامہ سمعانی ، یا قوت حموی اور ابن جوزی جیسے حضرات نے کلمینی کا ترجمہ تحریر نہیں کیا۔
اس لئے محقق مذکور کی رائے یہ ہے کہ کلینی اہل سنت کے علماء میں اس وقت معروف ہوئے، جب وہ اہل تشیع میں مشہور ہوئے ، لکھتے ہیں :

ان الكليني ما اشتهر عند المذاہب الاسلاميه الاخرى الا بعد ما اشتهر عند الطائفة المحقه (الکلینی و الکافی، ص164)

یہی وجہ ہے شیخ کلینی کا تذکرہ ہمیں چھٹی صدی ہجری کے ابن عساکر ، ساتویں صدی ہجری کے ابن اثیر اور آٹھویں صدی ہجری کے علامہ ذہبی کے ہاں ذرا تفصیل سے ملتا ہے ۔
احوال کے خفا کا معاملہ صرف شیخ کلینی کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ اولین دور کے شیعہ محدثین میں تقریبا سب کا یہی معاملہ ہے ، کہ ان کی علمی زندگی کی زیادہ تفاصیل نہیں ملتیں ، چنانچہ مرکز بحوث قُم سے الکافی کا محقق شدہ نسخہ جو محققین کی ایک جماعت کی تحقیق کے ساتھ چھپا ہے ، اس کے مضخیم مقدمے میں کتاب کے محققین لکھتے ہیں :

"هنا الكثير من الامور الغامضه في الحياة الشخصيه لعباقره الشيعه ،لم تزل طرق البحث موصدة امام اكتشافها ، لعدم وجود ما يدل على تفاصيل تلك الحياة خصوصا بعد حرق مكتبات الشيعه في القرن
الخامس الہجری (الکافی، 1/31)

یعنی شیعہ کے اکابرین کی زندگیاں بوجوہ پردہ خفا میں ہیں ، اس راز کو کھولنے میں ابھی تک بحث و تحقیق کے دروازے بند ہیں ، کیونکہ ان زندگیوں پر دلالت کر نے والا مواد موجود نہیں ہے ، خصوصا پانچویں صدی میں شیعہ مکتبات کو جلانے کے بعد یہ مواد ختم ہو گیا۔
وجہ جو بھی ہو ، کم از کم اتنی بات ثابت ہے کہ پانچویں صدی سے پہلے کے اکابر محدثین کے احوال پردہ خفا میں ہیں ، جن میں سر فہرست اولین اور سب سے معتمد مصدر کے مصنف الکلینی کے احوال ہیں۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کی تعلیم و تعلم ، حلقات درس حدیث اور مجالس حدیث کی اس روایت کا نام و نشاں نہیں ملتا، جو اہل سنت کے قبل ازمانہ تدوین کا خاصہ رہا ہے ، جس میں محدثین کے اسفار اور ان کی علمی درسگاہوں کا بالتفصیل تذکرہ موجود ہے ۔ اسی وجہ سے اہل تشیع کے اکابر محد ثین کی علمی نشو نما اور اسفار کے احوال نامعلوم ہیں۔