Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سولہویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سولہویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’سولہویں دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

﴿ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ (الواقعہ۱۰۔۱۱)

’’اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہیں ۔وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں ۔‘‘

ابو نعیم نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ: اس امت میں سے سابق حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘فقیہ ابن المغازلی الشافعی نے امام مجاہد سے اس آیت ﴿ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ ﴾کی تفسیر میں روایت کیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : یوشع بن نون حضرت موسیٰ علیہماالسلام کی طرف سبقت لے گئے۔ حضرت موسیٰ حضرت ہارون کی طرف سبقت لے گئے ۔ اور صاحب یس حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف سبقت لے گئے۔ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سبقت لے گئے ۔‘‘

یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوسکی‘ تو پھر آپ ہی امام ہونگے ۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا]

جواب:اس کے کئی ایک جواب ہیں :

پہلی بات:....ہم کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں ۔ ہم اس کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘ اس لیے کہ بہت ساری ایسی جھوٹی باتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں مصنفیں [نوٹ کے طور پر ] روایت کرلیتے ہیں ۔

دوسری بات:....اس روایت کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف نسبت کرنا بھی باطل ہے۔ اگر بشرط صحت آپ سے یہ روایت ثابت بھی ہوجائے ؛ تب بھی حجت نہیں ہوسکتی ۔اس لیے کہ دوسری روایات میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے قوی لوگوں نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ 

تیسری بات:....بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (التوبۃ:۱۰۰)

’’مہاجرین و انصار میں سے اوّلین سابقین اور وہ لوگ جنھوں نے نیک اعمال میں ان کی پیروی کی اللہتعالیٰ ان سے راضی ہو گئے؛ اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؛ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ [فاطر ۳۲]

’’پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس)کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں پسند فرمایا۔ پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعضے ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کیے چلے جاتے ہیں ۔‘‘

سابقین اولین وہ صحابہ ہیں جنھوں نے فتح مکہ سے قبل اللہکی راہ میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا۔یہ ان لوگوں سے افضل ہیں جنہوں نے فتح کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ اس میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جنھوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی؛ ان کی تعداد چودہ سو سے زیادہ تھی۔ پھر یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے کہ پوری امت میں ایک ہی سابق (حضرت علی) تھے؟

چوتھی بات:....شیعہ مصنف کا یہ کہناکہ : ’’ یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکی ۔‘‘

یہ بالکل غلط بات ہے۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے کہ سب سے پہلے کون اسلام لایا تھا؟ایک قول یہ ہے کہ حالانکہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تھے؛ اس لحاظ سے آپ کا ایمان لانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے پہلے تھا۔اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے پہلے ایمان لائے تھے۔لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت بالکل چھوٹے تھے ۔ اس بات میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا بچے کا اسلام لانا شرعاً معتبر بھی ہے یا نہیں ؟ لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسلام باقی سب کی نسبت اکمل و انفع تھا۔پس اس لحاظ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاتفاق سابق بالایمان ہیں ۔اور دوسرے قول کے مطابق آپ کو علی الاطلاق سبقت حاصل ہے۔ تو پھر بغیر کسی دلیل کے کیسے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان پر سبقت حاصل ہے؟

پانچویں بات:....اس آیت میں سابقین اولین کو فضیلت دی گئی ہے۔ اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کا اسلام جتنا پہلے ہوگا اسے دوسروں پر اتنی زیادہ فضیلت حاصل ہوگی۔بس اس میں اتنی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقین کو شرف و فضیلت سے نوازا ہے ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی﴾ [الحدید۱۰]

’’ تم میں سے جنہوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ(دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہادکیا،ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘

جب یہ تمام لوگ اسلام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے شرف سے مشرف ہیں ؛ اور یہ دونوں آیات مطلق افضلیت کا تقاضا کرتی ہیں ؛ تو پھر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اسلام لانے کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد و قتال میں بھی سبقت رکھتے ہوں ۔ [او ران اوصاف کی وجہ سے انہیں سبقت حاصل ہو]۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جوکہ صرف انتالیس افراد کے بعد اسلام لائے تھے ؛ وہ صحیح نصوص اور اجماع صحابہ و تابعین کی ر وشنی میں ان میں سے اکثر لوگوں سے افضل تھے۔ ہمیں کبھی بھی یہ علم حاصل نہیں ہوسکا کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔حالانکہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ایمان لائے تھے۔ اور کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ایمان لائے تھے۔

جب انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد کی وجہ سے بھی فضیلت حاصل ہوتی ہے تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس باب میں خاص اور یگانہ مقام ہے۔ آپ سے پہلے کسی دوسرے نے نہ ہی زبان سے جہاد کیا اور نہ ہی مال سے ۔ بلکہ آپ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے اس وقت سے حسب امکان اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے اور جہاد فی سبیل اللہ کا حق ادا کرتے رہے ۔ آپ نے کئی ایک ان بے بس غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جنہیں اسلام لانے کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی۔نیز آپ قتال کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا ﴾ [الفرقان۵۲]

’’اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں ۔‘‘

پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس میں سب سے زیادہ کامل اور لوگوں پر سبقت رکھتے تھے۔

صحیحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا ؛ جتنا فائدہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے ۔‘‘

اور فرمایا: ’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال او ررفاقت کاممنون ہوں ۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود خبر دے رہے ہیں کہ آپ کی صحبت اور آپ کے مال خرچ کرنے کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا ہے ۔