ایران میں اہل سنت پر مظالم کی داستان خوانچکاں
ابو ریحان فاروقیایران میں اہلِ سنت پر مظالم کی داستان خوانچکاں
ایران میں سنیوں کی حالت شاہ کے دور اقتدار میں بھی کچھ زیادہ اچھی نہ تھی لیکن نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد مزید ابتر ہوتی گئی ہم نے شاہ کے خلاف ایجیٹیشن میں شیعہ سُنی سے لے کر ازہری بلوچی کرو ترکمان اور دوسری قومیتوں اور لسانی گروپوں میں اختلافات کی نفی کرتے ہوئے شاہ کے خلاف جناب خمینی کا ساتھ دیا خمینی نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ یہ انقلاب خالص اسلامی ہوگا انقلاب کی کامیابی کے بعد تمام فرقوں کو مذہبی اور شہری آزادی دی جائے گی لیکن شاہ کا اقتدار ختم ہونے کے فوری بعد انقلابی لیڈروں نے ہمارے ساتھ دغا کیا خمینی کی رہنمائی میں تیار کردہ جمہوریہ ایران کے آئین میں شیعہ ازم کو سرکاری مذہب کی حیثیت دے دی گئی اور مملکت کے رہنما اصولوں میں جمہوریہ ایران کو اسلامی مملکت کے بجائے شیعہ سٹیٹ قرار دیا گیا اس کے ساتھ ستم یہ کہ مملکت کے پالیسی ساز اداروں سے سنیوں کو مکمل طور پر نکال دیا گیا اس وقت ایران میں سنیوں کو غیر مسلم اقلیتوں یہودی عیسائی آرمینائی اور زرتشتی کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں عملی طور پر سُنیوں کو ان غیر مسلم اقلیتیوں سے بھی کم حقوق حاصل ہیں آئینی حقوق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ سُنی اکثریتی علاقوں کو تشدد کی پالیسی کے ساتھ کچل دیا گیا اس مہم میں سب سے پہلے کروستان کے سُنی اکثریت کو نشانہ بنایا گیا وہاں ایک چھوٹی سی کمیونسٹ ایجنسی کو ہوا دی گئی پھر اسے بہانہ بنا کر کردوں (سُنیوں) کے خلاف ایک خوفناک جنگ کا آغاز کر دیا گیا اس مہم کے دوران کا کردستان کے دیہاتوں میں نیپام بم پھینکے گئے سینکڑوں کرو قصبات اور سُنی آبادی والے مراکز کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ سینکڑوں مرد عورتیں بچے شہید کر دیئے اور ہزاروں بے گناہ معصوم سنی بچیوں کے بے حرمتی کی گئی شیعہ ملاؤوں نے سُنی کش مہم کو جاگیرداروں کے خلاف جنگ قرار دیا اسی طرح بندر لیگ میں سُنی کش مہم میں منصوبہ بندی کے تحت جمعہ کی نماز کے اجتماع میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے 20 سے زائد سُنی نوجوان شہید ہوگئے سُنی اکثریت کے علاقہ ترکمان صحرا پر مصلح حملہ کے دوران پورے علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا کوئی مرد عورت بچہ گھر سے نکلتا گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا سُنی اکثریتی صوبہ بلوچستان کے دارالخلافہ زاہدان کو انقلاب بھی دہشت اور تشدد کا خصوصی نشانہ بنایا گیا شہر میں بلاجواز کرفیو لگا کر خون کی ہولی کھیلی گئی اس سُنی کشِ مہم 100 سے زائد نوجوان شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے بدقسمتی سے ہمیں ایک ایسی قیادت سے واسطہ پڑا ہے جو اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہماری حکومت ہی مذہبی طور پر جائز ہے تقیہ اس حکومت کے رہنماؤں کے عقائد میں شامل ہے جس کے مطابق اپنے مذہبی عزائم کے حصول کے لیے جھوٹ بولنا حقیقت کو چھپانا یا فریقِ ثانی کو دھوکہ دینا انتہائی پارسائی اور تقویٰ ہے۔
میرے والد مرحوم مولوی عبدالعزیز اور علامہ احمد مفتی زادہ قانون ساز اسمبلی کے سُنی ممبر تھے انہوں نے سُنیوں کے جائز حقوق کی تلفی اور ان کے کربناک مسائل کی آواز اسمبلی میں اٹھائی مسٹر خمینی کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں میں بھی سنیوں کی مشکلات کا جائزہ پیش کیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا میرے والد کی تقریر اسمبلی ریکارڈ میں موجود ہے جس میں انہوں نے شیعہ قیادت سے اپیل کی تھی کہ مسلمانوں میں تفرق کا نہ ڈالیں اور سُنیوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہ کرے ورنہ یہ انقلاب بھی آخر کار شاہ کے انجام سے زیادہ مختلف نہ ہوگا ہم نے محسوس کیا کہ سنیوں کے خلاف تمام کاروائی کے پیچھے خمینی کا ہاتھ ہے میرے والد اور علامہ مفتی زادہ کو سُنی حقوق کی آواز بلند کرنے پر اسمبلی کی رکنیت سے برخاست کر کے جیل میں ڈال دیا اور جیل میں ان پر تشدد کی انتہاء کر دی گئی ُسُنی رہنماؤں کو پاسبان انقلاب کے ہاتھوں بلاجواز شہید کرا دیا گیا دیگر سنی رہنماؤں مولوی عبدالمالک مولوی عبدالعزیز ازہری ناصر سبحانی مولوی ابراہیم دامانی اور مولوی نذر محمد کو سُنی کش مہم کے خلاف آواز اٹھانے پر جیل میں انتہائی دردناک تشدد کا نشانہ بنایا۔
انقلاب ایران کے بعد ہم پر جلد یہ بات واضح ہونے لگی کہ انقلاب کی شیعہ قیادت صفوی کی مذہبی پالیسی کی پیروی کر رہی ہے تین صدی قبل ایران ایک اکثریتی سُنی مملکت تھا جونہی شاہ اسماعیل صفوی نے اقتدار پر قبضہ کیا اس کی فوجوں نے جہاں تک ممکن ہوسکا لاکھوں سُنیوں کو تہہ تیغ کیا ایران کے وسطی علاقوں کو جہاں پر سُنی اکثریت تھی مکمل طور پر سُنی آبادی سے پاک کر دیا یہی وجہ ہے کہ ایران میں سنی آبادی صرف دور دراز پہاڑی اور ریگستانی صوبوں تک محدود ہے اس وقت ان علاقوں میں صفوی فوجویں سفری مشکلات کے باعث نہ جاسکی تھیں۔
موجودہ دور کے صفیوں و شیعہ قیادت نے ایران کے نوجوان سُنیوں کو ختم کرنے شیعہ بنانے اور انہیں جلاوطن کرنے کا تین نکاتی پروگرام تشکیل دیا ہے اس پروگرام کی تکمیل پر عورتیں اور بچے خود بخود شیعہ قیادت کے زیر اثر آجائیں گے اس پروگرام کے پیچھے ایران کو 100 فیصد شیعہ سٹیٹ بنانے کا جنونی جذبہ کار فرما ہے اگرچہ یہ پروگرام عراق کے ساتھ جنگ چھڑنے کی وجہ سے عارضی طور پر سرد خانے میں چلا گیا تھا لیکن اب جنگ کے اختتام کے بعد حکومت دوبارہ ایک نئے جوش و جذبہ کے ساتھ اس پالیسی پر واپس آرہی ہے اس وقت ایک بھی وزیر نائب وزیر سفارت کار فوجی افسر عدالت کا جج گورنر جنرل کارپوریشن یا بلدیہ کا چیئرمین سُنی نہیں ہے حتیٰ کہ سُنی علاقوں میں بھی مذہبی پیشوا شیعہ اور سُنی ان کے پیچھے نماز پڑھنے پر مجبور ہیں کچھ دفاتر آئینی طور پر صرف شیعہ کے لئے مخصوص ہیں کافی دفاتر پر صرف حکومتی افراد نے عملی طور پر اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے ملک کا شیعہ نشر و اشاعت شیعہ عقائد و نظریات پھیلانے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سُنیوں اور اسلام کے خلاف تحریک چلا رہا ہے اس میں مسلمانوں کی مقدس ہستیوں پر رقیق حملے اس تحریک کا حصہ ہیں اصحاب ثلاثہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ اور آنحضرتﷺ کی بیویوں (ازواج مطہراتؓ) پر کھلے عام تبرا اور ان کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
پرائمری سے یونیورسٹی کے درجے کی تعلیمی اور نصابی کتابیں شیعہ ازم کے نظریات کو فروغ دے رہی ہیں شیعہ ازم کے علاوہ ہر نظریہ کو خارج از نصاب قرار دیا گیا ہے اس کے ساتھ اصحابؓ اور رسولﷺ کے خلاف طبری کی مدد سرائی کو ساتھ نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔
سُنی طلبہ پر یونیورسٹی تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیئے گئے ہیں زاہدان یونیورسٹی جو بلوچستان کی 90 فیصد سُنی آبادی کی واحد یونیورسٹی ہے اس میں 2000 دو ہزار طلبہ میں صرف 9 سُنی طلبا داخل ہیں سُنیوں کو اپنے عقائد کی تشریح یا اشاعت کے لیے کوئی کتاب اخبار کتابچہ رسالہ شائع کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے حتیٰ کہ صرف سنیوں کی حد تک بھی اس کا اہتمام نہیں کیا جاسکتا۔خ جس کسی نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی اسے پابند سلاسل کر دیا گیا کاروبار کو فروغ دینے کے لیے بینک کے قرضے لائسنس زرعتی اور صنعتی منصوبے صرف شیعوں کے لیے وقف حتیٰ کہ سُنی اکثریتی علاقوں میں بھی سُنیوں کو یہ سہولتیں میسر نہیں ہیں اہلِ اقتدار لڑاؤ اور حکومت کرو کے پالیسی پر عمل پیرا ہیں سُنیوں کو سُنیوں سے ہی لڑایا جا رہا ہے حکومت تمام سُنی قبائل کو آپس میں لڑنے کے لیے اسلحہ فراہم کر رہی ہے تہران کہ اکثریتی سُنی علاقوں میں ایک منصوبے کے تحت شیعہ کی آباد کاری کا کام بڑے زور سے جاری ہے سُنی اکثریتی علاقوں کو اقلیتی علاقوں میں بدلہ جا رہا ہے اس پالیسی کے تحت سُنی نوجوانوں کی پاکستان یا گلف میں نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے سُنی رہنما کی تمام کوششوں اور صدائے احتجاج کو جو انہوں نے ان ایزا رسانیوں اور ناانصافیوں کے خلاف کی ہے کو سختی کے ساتھ کچل دیا ہے اب ایسا کوئی طریقہ ان کے پاس نہیں کہ وہ اپنی آواز کو ایران کے اندر دوسروں تک پہنچا سکیں کیونکہ نشر و اشاعت مشینری پر شیعہ ملائیت کا کنٹرول ہے۔
علی اکبر مولا زادہ کے چونکا دینے والے انکشافات کے بعد ایران کی ایک جیل سے مظلوم سُنی کی فریاد کی صدائے بازگشت بھی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا تک پہنچ چکی ہے اس چیخ و پکار پر ہمیں کیا کرنا چاہیے سُنی افسران کا رویہ کیا ہونا چاہیے 42 سُنی ممالک کے حکمرانوں اور ارکان دولت پر لازم ہے کہ غفلت کی چادر اتار کر ایران کی مظلوم اہلِ سنت کے لیے آواز بلند کریں
ایران کی جیل سے لکھے گئے خط کی مندرجات ملاحظہ فرمائیں:
ایرانی اہلِ سنت کے متعلق باہر کے مسلمان بہت کم جانتے ہیں کہ اصل میں ان کی حالت کیا ہے؟ شاہ کے دور میں وہ کس حال میں تھے؟ اور انقلاب کے بعد وہ کس حال میں ہیں؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ باہر کے پریس خواہ مسلمانوں کہ زیرِ نگین ہوی یا غیر مسلمانوں کے سب ہی نے ان کی حالت زار کو نظر انداز کیا ہے غیر مسلمانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ تو نمایاں ہے لیکن مسلمان اہلِ علم و قلم نے اس سلسلے میں بے حسی کا جو مظاہرہ کیا ہے اسلامی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی روس ہو برما ہو یا فلسطین کشمیر ہو یا افغانستان انڈیا ہو یا اری ٹیریا جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں جب انہیں ظالموں نے ستم کا نشانہ بنایا تو ان کی صدائے مظلومیت سن کر عالم اسلام جاگ اٹھا مسلمانوں کے ضمیر بیدار ہوگئے ہر سطح پر ان کی حمایت و معاونت کی گئیلیکن بدقسمت ہیں ایران کے 35 فیصد سے زائد سُنی مسلمان کئی سالوں سے ظلم وستم کی چکی میں پسنے کے باوجود آج تک کسی مسلمان یا غیر مسلمان نے ان سے اظہار ہمدردی اور ان کے معاونت تو کجا ان کی طرف اشارہ تک نہیں کیا پتہ نہیں ان کی بدقسمتی ہے یا عالم اسلام اور مسلمانوں کی مجرمانہ غفلت خدا معلوم انہیں کس کی نظر کھا گئی ہے ایران کہ اہلِ سنت فتح ایران سے لے کر 10 ھ تک اپنی بساط کے مطابق اسلام اور مسلمانوں کی خدمات انجام دیتے رہے موجودہ دور کے درس نظامی کی الف ب سے لے کر انتہا تک یا باالفاظ دیگ نحومیر سے لے کر بخاری تک کی اکثریتی درسی کُتب ایرانی اہلِ سنت علماء کی خدمات جلیلہ اور عظمت کابین ثبوت ہے۔
تفسیر میں اصول تفسیر اصول حدیث اصول فقہ ادب بلاغت تاریخ لغت سیرت منازی طب ریاضی سائنس غرض اسلامی اور عصری علوم و فنون میں ایران کے سنی اہلِ علم نے عالم اسلام کے لیے شاندار خدمات سرانجام دی ہیں دنیا کا کوئی کُتب خانہ ان کی کتابوں سے خالی نہیں لیکن تماشہ دیکھیے کہ آج انہیں اہلِ علم کی سرزمین تہران میں کرمان مشہد غرض کسی شہر میں بھی ان کے نیاز مندوں کو ان کے بچوں کو مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں۔
آج اسلامی ممالک میں خاص طور پر پاکستان کے بہت سے اہلِ علم اور علامہ بھی ہم سے پوچھتے ہیں کیا واقعی ایران میں اہلِ سنت بھی رہتے ہیں؟ راقم الحروف نے انقلاب ایران کے 30 سال بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک اہم اور معروف دینی درسگاہ میں داخلہ لیا ایک استاد کو جب پتہ چلا کہ میں ایرانی ہوں تو تعجب سے پوچھنے لگے آپ سُنی ہیں یا شیعہ؟ میں نے کہا کہ آپ کو میرے سُنی ہونے میں شک ہے؟ فرمانے لگے ایران تو شیعوں کا ملک ہے وہاں سُنی کہاں؟ مجھے بہت تعجب ہوا ایک اہلِ علم ایک معروف دینی درسگاہ کا استاد جن کتابوں کو پڑھاتا ہے ان کے مصنفین سب ایرانی سُنی پھر بھی یہ سوالات جب میں نے غور کیا تو ان کو حق بجانب رکھا سمجھا کیونکہ ایک زمانہ وہ تھا کہ ایشیاء افریقہ حتیٰ کہ یورپ کے طلبہ نے علمی پیاس بجھانے کے لیے ایران کا رخ کیا ہے اصل میں انہیں تعجب اسی پر ہونا چاہیے تھا لیکن عصرِحاضر کے بے شمار مسائل نے لوگوں کے ایسا الجھا دیا ہے کہ مقصد اور ہوتا ہے زبان سے نکلتا کچھ اور ہے ایران کے اہلِ سنت کے متعلق سب خاموش رہے اور ہیں علماء کرام نے ان کی طرف توجہ دی نہ دانشوروں نے کوئی نوٹس لیا نہ اہلِ قلم و صحافت نے اس مسئلے میں دلچسپی لی ارباب سیاست کی تو کیا پوچھیے بہت سے اہلِ علم و سیاست اور دینی اور سیاسی تنظیموں کے ذمہ دار حضرات سے جب ہم نے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور بات چیت کی تو کہنے لگے ہمیں تو خبر نہیں آپ ہمیں لکھ کر دے دیں اور ہم سے رابطہ رکھیں ہم حکومتی اور عوامی سطح سے آواز اٹھائیں گے لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔
بہت سے اخبارات اور جرائد کے دروازوں پر بھی دستک دی ہر جگہ سے یہی جواب ملا کہ اے بھائی صبر کریں حالات سازگار نہیں ا یران کے بارے میں لکھنا منع ہے صبر کریں حالات ٹھیک ہوں گے اور اور کئی ایک نے تو ابتداء ہی سے منفی جواب دے کر مایوس کیا اب ہم ایک بار پھر جسارت کرکے ان سطور کی اشاعت کے لیے آپ کو زحمت دیتے ہیں اور آپ کی وساطت سے اپنے مسلمان بھائیوں سے چند سوالات کرتے ہیں امید ہے کہ قارئین کرام ہمارے ان سوالات پر غور کر کے اظہار ہمدردی فرمائیں گے یا اپنے طور پر اپنے پسندیدہ مجلّات و جرائد کو ایک ہی خطبہ کے ذریعے اپنے فریضے کی طرف توجہ دلائیں گے کیا آپ کو معلوم ہے کہ صفوی اور دور حکومت سے قبل ایران کے اکثریت 95 فیصد اہلِ سنت تھی۔
(3)۔ کیا آپ کو علم ہے کہ موجودہ ایران میں 35 فیصد اہلِ سنت رہتے ہیں؟۔
(4)۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ 35 فیصد اہلِ سنت ایران میں اپنے تمام جائز حقوق سے محروم ہے؟۔
(5)۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ موجودہ "شیعہ حکومت" نے اہلِ سنت کی بہت سے مساجد اور مدارس بند کر دیئے ہیں؟۔
(6)۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایرانی دارالحکومت تہران میں 5 لاکھ اہلِ سنت مسجد بنانے سے محروم ہے؟۔
(7)۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ "بندر لنگا" شہر کی جامع مسجد پر جمعہ کے دن ایرانی پاسداران انقلاب نے نماز کے وقت حملہ کر کے 330 سے زائد سُنیوں کو شہید اور کئی ایک کو زخمی کیا اور محراب کو گولیوں کا نشانہ بنایا؟۔
(8)۔ کیا آپ کو اطلاع نہیں کہ انقلاب کے بعد سُنی صوبہ کردستان پرہیلی کاپٹروں اور بمبار تیاروں سے ہم وطنوں کو بے دردی سے تہہ تیغ کیا گیا اور ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟۔
(9)۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ انقلابی گارڈ کے جیالوں نے جنہیں مسٹر خمینی بیٹے کا خطاب دیا کرتے تھے اہلِ سنت کے علاقے "ترکمانِ صحرا" میں گھس کر عام و خاص کو قتل کیا؟۔
(10)۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ اہلِ سنت کے بے شمار نوجوانوں کو شیعہ انقلابی حکومت نے منشیات فروش مخالف انقلاب مفسد فی الاعرض قرار دے کر تختہ دار پہ لٹکایا؟۔
(11)۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اہلِ سنت ایران کے بڑے رہنماء علامہ احمد مفتی زادہ صوبہ خراسان کے شیخ الاسلام علامہ محی الدین صوبہ بلوچستان ایران کے بے باک اور مشہور رہنما مولانا نذر محمد سابق ممبر قومی اسمبلی (خمینی کے دور میں) اہلِ سنت جی عظیم علمی شخصیت مولانا ڈاکٹر احمد میزمن اور بہت سے اہلِ علم آج تک "اسلامی جمہوریہ" ایران کے خفیہ جیل خانوں میں موت و حیات کی زندگی گزار رہے ہیں؟۔
(12)۔ کیا آپ جانتے ہیں 35 فیصد اہلِ سنت میں سے پورے ایران میں ایک وزیر ایک جرنیل ایک گورنر یا کوئی بھی بڑے یا درمیانے درجے کا عہدے دار نہیں ہے؟۔
(13)۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک تمام سُنی بچے شیعہ فقہ و نظریات کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہیں حتیٰ کہ سُنی اکثریت والے صوبوں میں بھی ٹیچر شیعہ ہی ہیں؟۔
(14)۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے پڑوسی ملک ایران میں مسلمان سُنی 35 فیصد ہونے کے باوجود اپنے تمام اقتصادی مذہبی اور تعلیمی حقوق سے محروم ہیں اور وہ بھی ان ہی لوگو کی طرف سے جو 10 سال سے زائد عرصہ ہوا ہے اپنے (نام نہاد) اسلامی شعارات اور وحدت و اتحاد کے نعروں سے عالم اسلام کے کانوں کو بہرا کر رہے ہیں اور ان کے پیشوا خمینی کا قول ہے "شیعہ سُنی بھائی بھائی" ہیں جو ان میں اختلاف ڈالے نہ شیعہ ہے نہ سُنی بلکہ استعماری قوتوں کا ایجنٹ ہے آپ پر فرض ہے کہ ایران کے حکمرانوں سے استفسار کریں کہ آپ جو شیعہ اور سُنی میں اختلاف کے بانی ہیں اور اہلِ سنت کو تمام حقوق سے محروم کر رہے ہیں کس کے ایجنٹ ہیں اور یہ سب کچھ کس کے اشارے اور ایماء پر کر رہے ہیں؟ آخر میں ہم شیعہ سے بھی التماس کرتے ہیں کہ ناانصافی اور ظلم کا راستہ چھوڑ دیں اور آیت اللہ شریعت مدار کُتب زادہ بنی صدر شیخ علی اور اخیر میں آیت اللہ منتظری (خمینی کے جانشین) کے حالات سے سبق سیکھیں۔
مذکورہ بالا قوائف سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایران کا دستور ایسے رہنماء کی نگرانی اور حکم سے ترتیب دیا گیا تھا جس کے ان نعروں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور اہلِ اسلام اسے اسلامی رہبر سمجھنے لگے۔
جو شیعہ اور سُنی میں تفریق کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سُنی۔
لا شرقیه ولا غربیه اسلامیه اسلامیه۔
نعروں اور اعلانات کی حد تک تو یہ فریب چل گیا لیکن جب عملی طور پر قانون سازی اور دستوری تدوین کا وقت آیا تو مجلس خبرگان و پارلیمنٹ کا ایک ممبر بھی سنُی برداشت نہ کیا جاسکا پھر ایسی سُنی اقلیت جس کی آبادی خود ایرانی مردم شماری کے مطابق 16 ملین یعنی پونے دو کروڑ تسلیم کی گئی معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کی رواداری اور تقیہ کے طور پر قائم ہونے والی مصلحتوں کی مثال دلچسپی کے لیے نذر قارئین ہیں خمینی اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔
جو شخص بطور تقیہ (دھوکہ کے لئے) سُنی کے پیچھے نماز پڑھے گا اس کو پانچ گُنا نماز کا زیادہ ثواب ملے گا۔
( توضیح المسائل خمینی)۔
معزز قارئین سپاہ صحابہؓ پاکستان جب یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں صرف وہ حقوق دیے جائیں جو ایران میں اہلِ سنت کو حاصل ہیں تو اس کو فرقہ واریت قرار دے دیا جاتا ہے پاکستان میں شیعہ کی آبادی کا تناسب کیا ہے؟ اس میں پاکستان کے چار صوبوں کی آبادی کے اعتبار سے صرف ڈھائی فیصد اکثریت ہر بستی ہر قریہ ہر شہر میں اپنا عبادت خانہ اپنا گھوڑا اپنا خنجر لہرانے کے لیے سارا سال جدوجہد کرتی رہتی ہے کسی بازار یا چوک میں اہلِ سنت اگر اپنے حقوق اور آبادی کی وجہ سے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ نام آویزاں کر دیں تو شیعہ محرم کے جلوس کے موقع پر وہاں آکر رک جاتا ہے اس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ کتبہ اتارا جائے حیرت ہوتی ہے جو سُنی اکثریت آپ کے گھوڑے خنجر بردار جلوس دلدل اور بےہنگم اجتماع کو برداشت کرتی ہے اس کی برگزیدہ شخصیات کا یہ لوگ نام تک برداشت نہیں کرتے اور آپ بھی کہتے ہیں بورڈ اتار لینے میں کیا حرج ہے یہ نہیں کہتے کہ نیچے یا قریب سے گزر جانے میں کیا حرج ہے کیا اقلیت کے حقوق اس قدر زیادہ ہوگئے ہیں کہ اکثریت کہ اسلاف کو گالیاں دی جائیں تو وہ چپ رہیں اکثریت کے بازاروں کو بےہنگم جلوسوں اور قابلِ اعتراض نعروں سے بھر دیا جائے تو وہ خاموش رہیں۔
آپ اسی طرح کے حقوق کی بات کرتے ہیں؟
آپ کب تک اکثریت کے حقوق کو تشدد کے ذریعے دبا سکیں گے؟۔
کب تک مجبور آوازیں دبی رہیں گی؟
کب تک اقلیت کی غیر شرعی کاروائیوں کو خاموشی سے برداشت کیا جائے گا؟
دنیا کے کسی مذہب میں کسی بزرگ کو گالی دینا عبادت ہو ایسا مذہب بھی آپ نے کبھی دیکھا یا سنا۔
آئیے ہم آپ کو شیعہ مذہب کی اسلام دشمنی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ مخالفت پر مشتمل چند تحریروں سے واقف کرانا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے شیعہ کے علیحدہ مذہب،معاشرت کا ذکر بھی ضروری ہے تاکہ دو قومی نظریہ کی روشنی میں اگر ہندوؤں، سکھوں سے علیحدگی اختیار کی جا سکتی ہے۔ تو ان کے عقائد سے بھی زیادہ بدترین عقائد و افکار کی حامل قوم سے یگانیت اور وحدت کس قاعدے اور ضابطے کے تحت روا ہے۔