Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جمہور علماء کے اصول اجتہاد اور ماخذ دوم سنت

  ڈاکٹر طاہر الاسلام عسکری

جمہور علمائے اہلِ سنت و الجماعت کے ہاں اصول اجتہاد قرآن، سنت، اور اجماع ہیں۔ قیاس کو اسلوبِ اجتہاد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دیگر اسالیب میں استحسان، استصلاح، استصحاب وغیرہ شامل ہیں۔
ماخذ دوم سنت:
ماخذ شریعت میں اہلِ السنتہ و الجماعۃ کے ہاں بالاتفاق دوسرا ماخذ سنت نبویہ ہے۔ جمہور اہلِ علم کے ہاں سنت کا مفہوم ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
سنت کا لغوی مفہوم:
عربی زبان میں سنت کا اطلاق کئی ایک چیزوں پر ہوتا ہے جس میں الوجہ (چہرہ) بھی ہے کیونکہ اس کے خط و خال واضح ہوتے ہیں ایسے ہی صورت پر بھی اس کا طلاق ہوتا ہے۔ جبیہ اور جبین کو سنت کہا جاتا ہے جیسا کہ ذوالرمۃ کا شعر ہے۔
تریك سنة وجه غير مفرقة لیس لها خال ولاندب۔
ترجمہ: اس کے چہرے کے خط و خال غیر موزنیت سے مبرا ہیں نرم و سپاٹ چہرہ جس میں نہ کوئی عیب ہے نہ نشان ذخم۔ اعشی کہتے ہیں۔
کریماً شمائله من بنی معاوية الاکرمین السنین
ترجمہ: وہ (خوب صورت اوصاف) کا حامل ہے کیونکہ اس کا تعلق کا باعزت اور خوش شکل بنی معاویہ سے ہے۔
سنت کا اطلاق صورت اور ہر اس شے پر ہوتا ہے جو چہرے سے جھلکے جیسا کہ کہا جاتا سنة الخدصفحته۔
ترجمہ: اس کے گال کے خط کشادہ تھے۔
ابن منظور لسان العرب: جلد، 10 صفحہ، 224 بیروت سے)
ازہری سنت کے مفہوم کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں
سنت ایک درست اور قابلِ ستائش راہ کا نام ہے، اسی سبب سے کہا جاتا ہے فلاں شخص اہلِ سنت میں سے یعنی کہ وہ ایک درست اور پسندیدہ منہج پر گامزن ہے۔
سنت طبیعت اور عادت کو بھی کہا جاتا ہے اس لیے بعض اہلِ لغت نے اعشی کے شعر کریماً شمائله من بنی معاوية الاکرمین السنین
ترجمہ: کا مفہوم بیان کیا ہے کہ وہ خوبصورت عادات کے مالک بنی معاویہ کا باعزت فرزند تھا۔ گزشتہ سطور بالا میں چہرے کے معنیٰ میں یہ شعر گزر چکا ہے۔
(الزبیدی،تاج العروس: جلد، 13 صفحہ، 344 ط بیروت)
راغب اصفہانی سنت کے مفہوم کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ سنتِ نبی اکرمﷺ کا معنیٰ آپ کا وہ طریقہ ہے جس کی آپ علیہ السلام جستجو کرتے رہے اور سنت اللہ کا مفہوم ہے طریقِ خداوندی، حکمت الٰہی اور اس کی فرمانبرداری کے طرق اظہار ہیں۔ایسے ہی سنت خوبصورت یا خوش خصال سیرت و زندگی کو بھی کہا جاتا ہے جیسے خالد بن عتبۃ ھذلی کا شعر ہے
فلا تجزعن من سیرة أنت سرتها فأوّل راض سنة من یسيره
ترجمہ: جس طریق زندگی کو اختیار کرے اس پر آہ و بکا کیسی۔ پہلا پسندیدہ شخص وہی ہے جس کی پیروی کی جائے۔
(اصفہانی،راغب،المفردات: صفحہ، 429)
سنت کی بے شمار تعریفیں کرنے کی کوشش کی گئی ہیں، لیکن سنت نبویہﷺ کے قریب لغوی معنیٰ طریقہ، سیرت اور روش حیات ہے۔
سنت کا اصطلاحی مفہوم:
سنت کے اصطلاحی مفہوم کے سلسلہ میں علمائے امت میں مقاصد کے باعث اختلاف ہوا ہے۔ علمائے حدیث کا مقصود سنت سے ہمیشہ یہ رہا کہ نبی گرامیﷺ کے اسوہ حسنہ تک رسائی حاصل کریں، تا کہ اسے رہنما بن کر نشانات زندگی کے حدود و قیود کا تعین کیا جا سکے۔ اصولیوں کا مطمع نگاہ یہ رہا ہے کہ ان مصادر و مآخذ تک اطلاع پانے کی کوشش و جستجو کی جائے، جن سے شریعت کے اخذ و استباط میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے سنت کے اس ذخیرہ کو تو جہات کا مرکز بنایا جو استباط احکام میں معاؤن ہو۔اسی طرح فقہاء کا مطلوب یہ رہا ہے کہ بندوں کے افعال کے حوالے سے سنت کی رہنمائی حرام مکروہ اور فرض واجب کے لحاظ سے کیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے سنت پر اس قبیل سے غور کیا ہے۔
زیر نظر مقالے میں اصول اجتہاد سے بحث مقصود ہے لہٰذا سنت کو یہ طور ماخذ احکام اہلِ اصول نے کس نظر سے دیکھا ہے ذکر کیا جائے گا۔ جس میں یہ لحاظ ضرور رکھا جائے گا کہ مکتب اہلِ سنت کے تمام مکاتب فکر احناف، شوافع، حنابلہ مالکیہ اور اہلِ الحدیث سنت کو بہ طور مآخذ شریعت کیا مفہوم پہناتے ہیں۔سیف الدین الآمدی الشافعی سنت کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
وقد تطلق على ما صدر عن الرسول من الأدلته الشرعیة ممالیس بمتلو، ولاهو معجز و لا داخلً في المعجز وهذا النوع هو المقصود بالبیان هاهنا، وید خل في ذلك أقوال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وأفعاله و تقاریره.
(آمدی،الاحکام فی اصول الاحکام: جلد، 1 صفحہ، 169 ط المکتب الاسلامی بیروت)
ترجمہ: سنت کا اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے جو نبی گرامی قدر سے بہ طور شرعی دلیل کے منقول ہو، جو تلاوت نہ کی جاتی ہو، کلام معجز بھی نہ ہو، اور معجزات نبوت میں شامل نہ ہو۔ جس میں نبی کریمﷺ کے اقوال افعال اور تقریرات داخل ہیں۔
ابن نظام الدین الانصاری الحنفی سنت کی تعریف سلسلے میں تحریر کرتے ہیں
أقوال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم و أفعاله و تقریراته التی یستدل بها على الأحکام الشرعیة۔
(الانصاری، ابن نظام الدین،فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت: جلد، 2 صفحہ، 96 ط دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002)
ترجمہ: نبی اکرمﷺ کے اقوال افعال اور تقریرات جن سے احکام شرعیہ مستنبط کیے جاتے ہیں۔
مالکیہ کی کتب اصول میں وہی تعریف کی جاتی ہے جو دیگر کے ہاں منقول ہے، چنانچہ الشعلان رقم طراز ہیں
(فهی ما أضیف إلى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قول أوفعل أوتقریر. الشعلان: اصول فقہ الاعام مالک (ادلتہ النقلیۃ) جلد، 2 صفحہ، 617 ادارۃ العامہ للشقافۃ والنشر السودیۃ)
علمائے حنابلہ میں سے شارح روضۃ الناظر سنت کی تعریف یوں کرتے ہیں:
أن السنة ما صدر عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم غیر القرآن من قول أوفعل أو تقریر ممایخص الأحکام التشریعیة.
اتحاف دوی البصائر بشرح روضۃ الناصر فی اصول الفقہ: جلد، 3 صفحہ، 10ط دار العاصمۃ للشر و التوزیغ 1996)
بلاشبہ سنت وہ ہے جو نبی اکرمﷺ سے قرآن کے علاؤہ قول و فعل اور تقریرات ہیں جن کا تعلق تشریع احکام سے ہو۔
اہل الحدیث اور لامسلکیت کے ترجمان امام شوکانی سنت کی تعریف بارے ارشاد الفحول میں ترقیم فرماتے ہیں:
وفي الأدلة ماصدر عن البنی صلی اللّٰه علیہ وسلم من غیر القرآن من قول أو فعل أو تقریر وهذا هو المقصود بالبحث عنه في هذا العلم.
ترجمہ: ادلہ شرعیہ میں سنت اُسے کہا جاتاہے جو نبی کریمﷺ سے قرآن کے علاؤہ بہ طور قول فعل اور تقریر کے صادر ہو اور اصول کی کتب میں اسی سے ہی بحث مقصود ہے۔
جمہور اہل السنۃ کے نمائندہ علماء کی تعریفات درج بالا سطور میں ذکر کی گئی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اہل السنت و الجماعۃ کے تمام مکاتب فکر سنت کی تعریف و تفہیم کے سلسلہ میں متفق ہیں۔ سوائے ایک دو نکات کے کہ جن سے تعریف میں مزید جامعیت پیدا ہوئی، مثلاً امام آمدی شوکانی اور حنابلہ نے سنت کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کریم کو اس سے خارج کیا ہے کہ حدیث متعبد بالتلاوۃ نہیں ہے حدیث اپنے جملہ الفاظ اور محاورات میں بیان معجز کا درجہ نہیں رکھتی گویا کہ سنت اُسے کہا جائے گا جو آپ سے غیر قرآن چیز صادر ہو اسی طرح شوکانی حنابلہ اور حنفیہ نے آپﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات کے ساتھ یہ قید بھی لگائی ہیں کہ ایسے نصوص جن سے احکام شرعیہ پر استدلال ہوتا ہو۔ دیگر اقوال و افعال اور تقاریر کو اس سے خارج کر دیا ہے۔ مالکیہ میں صاحب مراقی السعود نے قول و فعل اور تقریر کے ساتھ وصف نبوی کا بھی اضافہ کیا ہے جسے خود مالکی اہلِ اصول نے مسترد کر دیا ہے، لہٰذا سنت کی جامع تعریف یہ ہوئی کہ قرآن کریم کے علاؤہ آپﷺ سے صادر ہونے والے وہ افعال و اقوال اور تقریرات جن سے استدلال احکام میں معاونت حاصل ہو وہ سنت عندالاصولیین کہلائیں گے۔
حجیت سنت کا شرعی مصداق متعین ہونے کے بعد اہم مسئلہ یہ ہے کہ سنت کا بہ طور شرعی دلیل و برہان اور حجیت کے کیا مرتبہ ہے؟ اس حوالے جمہور علماء امت کے افکار کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ سنت کے مستقل مآخذ شریعت ہونے کے حوالے سے قاضی شوکانی رقم طراز ہیں اس بات کا یقینی علم ہونا ضروری ہے کہ اہلِ سنت کے تمام ایسے علماء جن کے علمی قد و قامت کا اعتراف کیا جاتا ہے، اس پر متفق ہے کہ سنت پاک تشریحِ احکام میں قرآن کی طرح مستقل حیثیت کی حامل ہے۔ یہ قرآن کریم کی طرح حلال اشیاء کی حلت کا حکم بھی لگاتی ہے اور اشیائے محرمۃ کی حرمت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ کیوں کہ نبی گرامی قدرﷺ کا ارشاد ہے خبردار مجھے قرآن اور اس کی مثل ایک اور شے بھی عنایت کی گئی ہے۔ یعنی قرآن بھی عنایت کیا گیا اور مجھے قرآن کی مثل سنت بھی عنایت کی گئی ہے جو ان اشیاء میں قاضی اور فیصل ہو گی جن میں قرآن خاموش ہے۔ جس طرح گھریلو گدھے کے گوشت کی تحریم میں پنجے والے پرندے کی حرمت میں اور اس کے علاوہ بے شمار اشیاء کی تحریم و تحلیل میں سنت مستقل ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
(الشوکانی ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول: جلد، 1 صفحہ، 96)
حجیت سنت پر امام شافعیؒ کا نقطہ نظر:
امام شافعیؒ نے حجیت سنت پر الرسالۃ میں بہت خوبصورت بحث کی ہے اور پورے شرح و بسط سے ثابت کیا ہے کہ سنت نبویﷺ ایک مستقل مآخذ تشریح اسلامی ہے۔ ذیل میں آپ کے افکار کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
امام شافعی فرماتے ہیں:
اللہ رب العزت کے دین میں رسول کریمﷺ کو فرائض نبوت اور تبین کتاب اللہ کے حوالے سے جس مقام رفیع پر جگہ دی ہے خود ہی قرآن کریم نے اس کی وضاحت کر دی ہے اور فرمایا ہے کہ آپﷺ کو دین اسلام کی پہچان کا علم بنا کر بھیجا، آپﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کو فرض قرار دیا آپﷺ کی معصیت و نافرمانی کو حرام ٹھہرایا اور اس قدر بلند مقام پہ فائز کیا کہ آپﷺ پر ایمان کو اپنی ذات پر ایمان کےساتھ اس طرح منسلک کردیا کہ ایک ضیاع سے دونوں ہی ضائع ہوجاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
 فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ ‌ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ‌ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ‌ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ‌
(سورۃ النساء: آیت نمبر، 171)
ترجمہ: خدا پہ اور اس کے رسول پر صدق دل سے یقین رکھو اور یہ بات کہنے سے باز آ جاو کہ خدا تین ہیں۔ یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے یاد رکھو معبود برحق صرف تنہا اللہ تعالیٰ ہیں وہ مبرا ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔
دوسرے مقام پر فرمایا
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاِذَا كَانُوۡا مَعَهٗ عَلٰٓى اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ يَذۡهَبُوۡا حَتّٰى يَسۡتَاۡذِنُوۡهُ‌
(سورۃ النور: آیت نمبر، 62)
ترجمہ: مؤمن سراسر وہی ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ پر سچے دل سے اعتماد کیا۔ لہٰذا جب بھی کسی اجتماعی معاملے میں وہ (اہلِ ایمان) رسول خداﷺ کے ساتھ اکھٹے ہوں تو اس وقت تک نہ جائیں جب تک ان سے باقاعدہ اجازت نہ حاصل کر لیں۔
اس لیے ابتدائی درجہ میں ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے جب تک اللہ کے ساتھ اس کے رسولﷺ پر ایمان نہ ہو۔ یعنی کہ اگر ایک شخص خدا پر ایمان کا دم بھرتا ہے لیکن رسولﷺ پر ایمان نہیں رکھتا تو محال ہے کہ اس کے تکمیل ایمان کو تسلیم کیا جائے یہاں تک کہ رسول گرامیﷺ پر ایمان لے آئے۔
ایسے ہی جناب رسالت گرامیﷺ کا بھی یہی اصول رہا ہے، کہ جب کبھی کسی شخص سے ایمان کی آزمائش کرتے تو خدا اور رسولﷺ دونوں کے بارے استفسار کرتے۔
سیدنا عمر بن حکمؓ سے روایت ہے کہتے ہیں میں رسول خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے ساتھ میری باندی تھی۔ میں نے عرض کیا میرے ذمہ ایک غلام کی آزادی ہے کیا میں اس بچی کو آزاد کر سکتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا بتاؤ اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمان میں۔ پھر آپﷺ نے استفسار کیا میں کون ہوں؟ اس نے جواباً کہا آپ خدا کے رسول ہیں، آپﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں جس طرح اللہ رب العزت نے آپﷺ پر ایمان فرض کیا ہے ایسے ہی اپنی وحی اور سنت کی اتباع بھی فرض قرار دی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے 
رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ (سورۃ البقرہ: آیت نمبر، 129)
ترجمہ: اے ہمارے رب ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیا ت کی تلاوت کرے ان کا تزکیہ کرے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ
(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 164)
ترجمہ: یقیناً خدا نے اہل ایمان پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر خدا کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں ان کا تزکیہ نفس کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم سے بہرہ مند کرتے ہیں۔
مزید فرمایا کہ اے نبیﷺ کی بیویوں خدا کی اس نعمت کا بھی تذکرہ کرو کہ تمھارے گھروں میں خدا کی آیات کی اور حکمت کی تلاوت ہوتی ہے۔ یہاں الکتاب سے قرآن کریم اور حکمت کی مراد سنت نبویﷺ ہے اور اس آیت کی علماء نے اس سے خوب صورت تشریح نہیں بیان کی۔ اور میں نے یہ وضاحت قرآن کی اپنی حد تک سب سے بہترین صاحب علم سے سنی ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ کہنا درست ہی نہیں ہے کہ یہاں سنت کے علاؤہ کسی دوسری چیز کو مراد لیا جائے۔
(الرسالہ: صفحہ، 73)
امام شاطبی مالکیؒ حجیت سنت کے سلسلہ میں اپنی معروف کتاب الموفقات میں رقم طراز ہیں:
سنت نبویﷺ پر عمل پیرا ہونے اور اس کی شرعیت پر اعتماد رکھنا یہ قرآن کی دلالت کی وجہ سے ہے، کیوں کہ وہ معجزہ ہے جو رسول اللہﷺ کی سچائی کی دلیل قطعی ہے۔ اور نبی اکرمﷺ نے بھی اسے بڑے ترین معجزے میں شمار کیا ہے۔ اور فرمایا میں تو صرف وہی وحی دیا گیا ہوں جو اللہ رب العزت نے میری طرف وحی کی ہے۔ اگرچہ نبی اکرمﷺ کے بے شمار معجزات ہیں لیکن معجزہ قرآن سب سے بڑا اور شاندار ہے ایسے ہی اطاعت نبوی میں قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت بجا لاؤ اور اپنے امرا کی اطیعو اللہ ورسولہ کے جملے کو کئی مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ جس پر امام شاطبیؒ یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ اطاعت رسولﷺ کے قرآن کریم میں بار ہا دہرایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ کی اطاعت مستقل اور مطلق ہے اور جو کتاب میں نہ ہو اُسے سنت میں تلاش کیا جائے۔ جیسا کی قرآن میں ہے کہ تمھیں رسولﷺ جو کچھ بھی دے دیں اسے لے لو۔ اور جس سے روک دیں اس سے باز آجاو۔ اور فرمایا لوگ رسول خداﷺ کے اوامر کی مخالفت سے ڈریں کہیں انھیں فتنہ اور درد ناک عذاب نہ آ لے۔
جیسا کہ قرآن کریم کے بعد سنت کا یہ مقام ہے کہ وہ ایک مستقل مآخذ شرع ہے ایسے سنت کا ایک یہ بھی مقام ہے کہ وہ شارح قرآن بھی ہے، جیسا کے قران کریم میں ہے۔
وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ (سورۃ النحل: آیت نمبر، 44)
ترجمہ: اور ہم نے آپﷺ کی طرف ذکر نازل کیا ہے، تا کہ آپﷺ لوگوں کو منزل من اللہ کی وضاحت کریں۔
دوسرے موقع پر فرمایا۔ اے رسول کریمﷺ پہنچا دیجئے جو آپﷺ کے پاس آپﷺ کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے، شاطبیؒ کہتے ہیں یہاں تبلیغ دو چیزوں کی مطلوب ہے ایک الکتاب اور دوسرے اس کی وضاحتِ معنیٰ!
(الموافقات: جلد، 3 صفحہ، 30/229)
سنت کو قرآن پر پیش کرنے کا مسئلہ:
منکرین حجیت سنت کی طرف سے مغالطہ دیا گیا ہے کہ سنت کی الگ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلکہ سنت جب بھی کسی کے سامنے آئے وہ اُسے قرآن پر پیش کرے۔ اگر قرآن میں اس کی موافقت ہو تو قبول ورنہ رد کر دی جائے گی اس سلسلہ میں ایک روایت کا سہارا لیا جاتا ہے کہ جس میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے ثوبان مولیٰ رسول اللہﷺ سے مروی ہے:
إذا روی لکم حدیث ماعرضوه على کتاب اللّٰه فان وافقه فأنا قلته وإن خالفه فلم أفله. (معرفۃ السنن والآثار: جلد، 1 صفحہ، 111) 
جب تمہیں کوئی حدیث بیان کی جائے تو اُسے کتاب اللہ پر پیش کرو اگر اس کے موافق ہو تو میری بات ہو گی اور اگر اس کے مخالف ہو تو میں نے نہیں کہا ہو گا۔ اس روایت کے بارے میں یحیٰ بن معینؒ کہتے ہیں کی یہ موضوع روایت ہے جس کو زنادقہ نے وضع کرنے کی جسارت کی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے میں جن لوگوں کی روایت کا اعتبار ہے ان میں سے کسی چھوٹے یا بڑے راوی کا یہ قول نہیں ہے۔ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب جامع العلم میں عبدالرحمٰن بن مھدی کے حوالے سے کہا ہے کہ اس روایت کو گھڑنے کا سہرا نادقہ اور خوارج کے سر ہے۔ بعض اہلِ علم نے ایک لطیفہ بھی کہا ہے کہ ہم جب خود اس روایت کو قرآن پر پیش کیا تو یہ اس کے مخالف ٹھہری، کیوں کہ قرآن کریم میں ہے۔
وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا‌
امام اوزاعی سنت کی حجیت کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں:
الکتاب أحوج إلى السنة من السنة إلى الکتاب.
کتاب اللہ بیان مطالب کے سلسلہ میں سنت کی نسبت زیادہ محتاج سنت ہے۔
ابن عبدالبرؒ کہتے ہیں:
انها تقضی علیه وتبین المراد.
ترجمہ: سنت مفاہیم قرآن کا فیصلہ کرتی ہے اور اس کی مراد کا تعین کرتی ہے۔
یحییٰ بن ابی کثیرؒ حجیت سنت کے بارے رقم طراز ہیں:
السنة قاضیة على الکتاب
ترجمہ: سنت مفاہم کتاب میں فیصلہ کن ہے۔
شوکانیؒ اس طویل بحث کے بعد حاصل مطالعہ کے طور پر فرماتے ہیں:
وَالْحَاصِلُ أَنَّ ثُبُوتَ حُجِّيَّةِ السُّنَّةِ الْمُطَهَّرَةِ وَاسْتِقْلَالَهَا بِتَشْرِيعِ الْأَحْكَامِ ضَرُورَةٌ دِينِيَّةٌ وَلَا يُخَالِفُ فِي ذَلِكَ إِلَّا مَنْ لَا حَظَّ لَهُ في دين الإسلام (ارشاد الفحول: جلد، 1 صفحہ، 97)
حاصل بحث یہ ہے کہ سنت مطہرہ کی حجیت اور اس کے مستقل مآخذ کی شریعت ہونے کو تسلیم کرنا ضروریاتِ دین میں سے ہے اور اس کا وہی شخص انکار کر سکتا ہے جس کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے لہٰذا یہ بات کہ سنت اسی کو درست تسلیم کیا جائے جو موافق کتاب اللہ ہو یا سنت بھی کتاب اللہ کے مخالف ہوتی ہے یہ ایک لغو بات ہے۔