Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شوریٰ کی کاروائی میں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی

  علی محمد الصلابی

شوریٰ کی کاروائی میں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حکمتِ عملی

سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ شوریٰ کی تنفیذ میں جو طرزِ عمل اختیار فرمایا وہ بلندی عقل، شرافتِ نفس اور جذبہ ایثار وقربانی کا واضح ثبوت ہے، آپؓ نے مسلمانوں کی عام مصلحت کو ذاتی مصلحت اور شخصی نفی پر ترجیح دی، اور برضا و رغبت عظیم ترین منصب کو خیر باد کہا کہ جس کے لیے دنیا میں انسان انتہائی حریص ہوتا ہے۔ آپؓ نے یہ ایثار و قربانی اس لیے پیش کی تاکہ مسلمان متحد رہیں اور ان کا شیرازہ منتشر نہ ہونے پائے، اور آپؓ نے منظم شوریٰ کے مظاہر میں سے پہلا مظہر خلیفہ کے انتخاب کی شکل میں حاصل کر لیا، آپؓ نے بڑی بردباری، انتظار و مہلت، صبر و عزم اور حسنِ تدبیر کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اس سلسلہ میں جو مراحل آپؓ نے اختیار کیے وہ اس طرح تھے: 

مجلسِ شوریٰ کے اوّل اجتماع میں اپنے پروگرام کو پیش کیا اور تمام ممبرانِ شوریٰ کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اپنی اپنی رائے پیش کریں، اور اس طرح ہر ایک کے نقطۂ نظر کو معلوم کر لیا اور پھر اپنا سفر دلائل و ثبوت کی روشنی میں آگے بڑھایا۔ 

حقِ خلافت سے خود تنازل اختیار کر لیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں کسی طرح کا شک و شبہ اور بدگمانی نہ پیدا ہو سکے اور لوگوں کا اعتماد بحال رہے۔ 

ممبرانِ شوریٰ میں سے ہر ایک کے خیالات و تصورات کو معلوم کرنے میں لگے رہے اور مختلف پہلوؤں سے ان سے گفت و شنید کرتے رہے یہاں تک کہ جزوی انتخاب تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لی، جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں حاضرین کی اکثریت کی رائے نمودار ہوئی۔

سیدنا عثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہما میں سے ہر ایک سے دوسرے کے بارے میں دوسرے ممبرانِ شوریٰ کے مقابلہ میں حیثیت معلوم کرنے کی کوشش کی، جس میں آپؓ اس نتیجہ پر پہنچے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کی دیگر ممبرانِ شوریٰ کے مقابلہ میں ترجیح کے قائل ہیں، اور اس کے مقابلہ میں کسی اور کو درجہ نہیں دیتے۔

مجلسِ شوریٰ سے باہر خاص و عام کی رائے معلوم کرنا شروع کی، دیکھا کہ بیشتر لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں، چنانچہ ان سے بیعت خلافت کی اور پھر تمام لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔

(عثمان بن عفان، صادق عرجون: صفحہ، 70، 71)

سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی عقل مندی، امانت، استقامت، خلافت کی طمع سے دست برداری اور حکومت کے اعلیٰ منصب سے زہد کے نتیجہ میں اس امتحان اور نازک گھڑی کو پار کیا، اور پوری مہارت اور بے نیازی سے شوریٰ کی قیادت کی جس میں آپؓ عظیم خراج تحسین و عقیدت کے مستحق ہیں۔

(مجلۃ البحوث الاسلامیۃ: العدد، 10 صفحہ، 255)

امام ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

’’سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے افضل ترین اعمال میں سے شوریٰ کے وقت اپنے آپ کو حقِ خلافت سے دست بردار کرنا اور اہلِ حل و عقد نے جس کا مشورہ دیا اس کو امت کے لیے بحیثیتِ خلیفہ منتخب کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں آپؓ نے امت کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر جمع کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی اگر وہ اس سلسلہ میں حق گریز کرتے اور ترجیح نفس کا شکار ہوتے تو آپؓ خود اس منصب کو اپنے لیے حاصل کر لینے یا اپنے چچا زاد بھائی اور ممبرانِ شوریٰ میں سب سے قریبی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو منتخب فرما دیتے۔‘‘ 

(سیر أعلام النبلاء، شمس الدین الذہبی: جلد، 1 صفحہ، 86)

اس طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں شوریٰ کی دوسری شکل سامنے آئی وہ یہ کہ مجلسِ شوریٰ عام لوگوں سے مشورہ لے کر اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لے اور پھر عام بیعت ہو۔

(دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ: صفحہ، 278)