رسول اللہﷺ کی موجودگی میں فتویٰ
علی محمد الصلابیرسول اللہﷺ کی موجودگی میں فتویٰ
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حنین کے روز میں نے دیکھا ایک مسلمان ایک مشرک سے لڑ رہا ہے اور دوسرا مشرک اس مسلمان کو دھوکا دے کر پیچھے سے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں جلدی سے اس مشرک کی طرف بڑھا جو مسلمان کو دھوکے سے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے مارنا چاہا، لیکن میں نے اس کے ہاتھ پر وار کیا اور اس کا ہاتھ کٹ گیا، اس نے مجھے سختی سے بھینچ لیا، میں ڈر گیا کہ مر نہ جاؤں پھر اس نے چھوڑ دیا، میں نے اس کو دھکیل کر قتل کر دیا۔ ابتداء میں مسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے، میں بھی انھی بھاگنے والوں میں تھا۔
اتنے میں سیدنا عمرؓ ملے، میں نے ان سے پوچھا یہ لوگوں کو کیا ہو گیا؟
آپ نے کہا اللہ کا یہی حکم تھا، قضا و قدر میں یہی مقرر تھا۔
پھر لوگوں کو ہوش آیا اور واپس رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے۔ اللہ نے فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے مقتول کے قتل پر دلیل اور ثبوت فراہم کر دے تو اس مقتول کا مال و اسباب اس کے لیے ہے۔
میں اپنے مقتول پر ثبوت فراہم کرنے کے لیے نکلا لیکن کسی کو گواہ نہ پایا، مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر خیال آیا اور میں نے جا کر رسول اللہﷺ سے معاملہ بیان کیا۔
وہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا اس مذکور مقتول کا اسلحہ میرے پاس ہے۔ آپ اسے مجھے دلا دیجیے۔
ابو بکرؓ بول اٹھے ہرگز نہیں، رسول اللہﷺ، ہو نہیں سکتا کہ اللہ کے اس شیر کو چھوڑ کر جو اللہ و رسول کی طرف سے لڑتا ہے، ایک کمزور ترین قریشی کو دے دیں۔
پھر رسول اللہﷺ نے اسے میرے حوالہ کر دیا، میں نے اس سے ایک باغ خریدا، یہ پہلی جائداد تھی جس کا میں بحالتِ اسلام مالک ہوا۔
(البخاری: المغازی، جلد، 5 صفحہ، 119 حوالہ، 3422)
رسول اللہﷺ کی موجودگی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس سلسلہ میں زجر و توبیخ اور قسم کھانے، فتویٰ دینے میں جلدی کرنا، پھر رسول اللہﷺ کا آپ کی تصدیق کرنا اور آپ کی موافقت میں فیصلہ صادر کرنا خصوصی شرف و منزلت کی دلیل ہے، جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔
(الریاض النَّضرۃ فی مناقب العشرۃ: ابو جعفر محب الدین، صفحہ، 185)
اور اس واقعہ کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ ابو قتادہؓ اپنے مسلمان بھائی کی سلامتی و حفاظت کے انتہائی حریص ہوئے، اس کو بچانے کی خاطر بڑی مشقتیں برداشت کر کے کافر کو قتل کیا۔ اسی طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس مؤقف میں اس بات کی واضح دلالت ہے کہ آپ حق کو حق کہنے اور حق کی طرف سے دفاع کرنے کے انتہائی حریص تھے۔ اور اسی طرح اس میں آپ کے ایمان راسخ، یقین کامل اور اسلامی اخوت کے احترام و قدر شناسی کی واضح دلیل ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم ترین منزلت وشرف کی بات ہے۔
(التاریخ الاسلامی للحمیدی : جلد، 8 صفحہ، 26)