Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمدﷺ کو نبی و رسول مان کر میں راضی ہوں

  علی محمد الصلابی

اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمدﷺ کو نبی و رسول مان کر میں راضی ہوں

حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جسے آپﷺ نے ناپسند کیا، جب اس پر اصرار کیا گیا تو آپﷺ غصے ہو گئے اور لوگوں سے فرمایا: سَلُوْنِیْ عَمَّا شِئْتُمْ، ’’تم مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو‘‘ ایک آدمی نے کہا: میرا باپ کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: حذافہ۔ دوسرا کھڑا ہوا، اس نے پوچھا: میرا باپ کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ شیبہ کے غلام سالم ہیں۔

(صحیح البخاری: بدء الخلق: حدیث، 3192)

جب سیدنا عمرؓ نے آپﷺ کے چہرے پر غصہ کی علامت دیکھی تو کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ہم اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔ 

(اس کی سند صحیح ہے اور بخاری کی شرط پر ہے۔ مسند أحمد حدیث، 122 الموسوعۃ الحدیثیۃ)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ دو زانو بیٹھ گئے اور کہا: ہم اللہ کو ربّ مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمدﷺ کو نبی مان کر خوش ہیں۔ 

پھر آپﷺ خاموش ہو گئے۔

نہیں میرے لیے خاص نہیں، نہ تیرے لیے باعث مسرت ہے اور نہ دوسروں ہی کے لیے، بلکہ یہ سب کے لیے ہے

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے پاس ایک عورت کچھ خریدنے آئی، میں اسے اپنے خاص کمرے میں لے گیا اور جماع کے علاوہ سب کچھ کیا۔ آپؓ نے فرمایا: تیری بربادی ہو شاید اس کا خاوند جہاد پر گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ نے کہا: سیدنا ابوبکرؓ کے پاس جا کر سوال کرو، اس شخص نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس جا کر سوال کیا، سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: شاید اس کا شوہر جہاد پر گیا ہے؟ اس نے وہی کہا جو سیدنا عمرؓ سے کہا تھا۔ پھر اس شخص نے رسول اللہﷺ کے پاس جا کر یہ مسئلہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: شاید اس کا شوہر جہاد پر گیا ہے؟ اور قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَـفًا مِّنَ الَّيۡلِ‌ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ ذٰلِكَ ذِكۡرٰى لِلذّٰكِرِيۡنَ۞

(سورۃ هود: آیت، 114)

ترجمہ: ’’دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘

پھر اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میرے لیے یہ خاص ہے یا تمام لوگوں کے لیے عام ہے؟ سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کے سینے پر اپنا ہاتھ مارا اور کہا: نہیں، تیرے لیے خاص نہیں، تب تو نہ تیرے لیے یہ مسرت کی بات ہے اور نہ دوسروں ہی کے لیے بلکہ یہ سب کے لیے ہے، اس موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: سیدنا عمرؓ نے سچ کہا۔ 

(مسند أحمد: حدیث، 205 الموسوۃ الحدیثیۃ اس کی سند قوی ہے۔)