Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ علماء کے نزدیک کب تقیہ ترک کرنا جائز ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

شیعہ علماء کے نزدیک کب تقیہ ترک کرنا جائز ہے؟

جواب: ایک شیعہ جب تک مسلمان ملک میں ہو اس کے لیے تقیہ کرنا لازمی ہے۔ چنانچہ شیعہ علماء دارالاسلام کو دار تقیہ کا نام دیتے ہیں۔ روایت کرتے ہیں کہ دار تقیہ میں تقیہ کرنا واجب ہے۔

(جامع الأخبار: صفحہ، 110 بحار الأنوار: جلد، 27 صفحہ، 395 ح، 13 باب التقية والمداراة)

دار الاسلام کو باطل ملک یا حکومت کا نام بھی دیتے ہیں بہتان تراشی کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ باطل حکومت میں تقیہ کے بغیر بات نہ کرے۔

(جامع الأخبار: صفحہ، 110 بحار الأنوار: جلد، 72 صفحہ، 412 ح،61 باب التقية والمداراة بحار الأنوار: جلد، 27 صفحہ، 421 ح، 79 باب التقيه والمدراة)

شیعہ دار الاسلام کو ظالمین کی حکومت قرار دیتے ہیں اور روایت کرتے ہیں کہ ظالموں کی حکومت میں تقیہ کرنا ہمارے لئے واجب فریضہ ہے تو جس نے تقیہ کو ترک کیا اس نے شیعہ امامیہ کے دین کو ترک کیا اور اسے چھوڑ دیا۔

(وسائل الشيعه: جلد، 11 صفحہ، 251 باب، 26)

اور اہلِ سنت کے ساتھ تقیہ کرتے ہوئے رہن سہن کو واجب قرار دیا ہے شیخ عاملی نے باب باندھا ہے:

باب، عام لوگوں کے ساتھ تقیہ کرتے ہوئے ملنا واجب ہے۔

(كمال الدين: صفحہ، 346 ح، 5 باب، 35 ما روى عن الرضا وسائل الشيعه: جلد، 11 صفحہ، 248 ح، 25 باب وجوب التقيه مع الخوف الى خروج صاحب الزمان تفسير نور الثقلين: جلد، 4 صفحہ، 47 ح، 13 سورۃ الشعراء)

 تناقض:

شیعہ علماء روایت کرتے ہیں کہ جس نے ہمارے امام القائم کے ظہور سے پہلے تقیہ کرنا ترک کیا تو وہ ہم میں سے نہیں آخر کیوں؟ 

اس کا جواب ان کے عالم محمد باقر الصدر نے دیا ہے کہ تقیہ ترک کرنے سے ایسے مخلص اور جانثار شیعوں کی کافی تعداد حاصل کرنے میں سستی آتی ہے جو تعداد امام قائم کے ظہور کے لیے بنیادی شرط ہے۔

(تاريخ الغيبة الكبرىٰ: صفحہ، 353)