بارہ صحابه (رضی اللہ تعالی عنھم) منافق ہیں جو جنت میں نہیں جائیں گے۔
مولانا ابوالحسن ہزارویبارہ صحابه (رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم) منافق ہیں جو جنت میں نہیں جائیں گے۔
(مسلم، مسند احمد، مشکوٰۃ، ترجمان السنہ، کنز العمال)
الجواب اہلسنّت
1۔ یہ اعتراض بھی شیعہ لوگوں کا عامة الناس کو خوبصورت طریقے سے دھوکہ میں مبتلا کرنا ہے ورنہ یہاں لفظ صحابی سے مراد ہے،
الذين ينتسبون الى صحبتی
کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو میری صحابیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
(حاشیہ امام نووی صحیح مسلم صفحہ 369 جلد 2)
ورنہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ منافق صحابی نہیں ہوتا صرف نام کے التباس کی وجہ سے یہ کہہ دینا کہ وہ منافق جو اپنے آپ کو صحابی کہہ کر اپنی نسبت ان سے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے وہ بھی ویسے ہی ہیں جِن کو صحابیت کا شرف عطا کیا گیا تو پھر یہ بھی ملاحظہ فرما لیں کہ منافق لوگوں نے مدینہ میں مسجد بنائی اور اس کو مسجد ہی کا نام دیا۔ قرآن پاک نے بھی مسجدًا ضرارًا کہہ کر اس کا تعارف کروایا اور ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ اسے گرا دیا جائے اب اگر فی الحقیقت وہ معروف معنی کی مسجد تھی جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ اللّٰه کا گھر اور بیت اللّٰه کی بیٹیاں کہلاتی ہیں تو اسے گرانا سخت گناہ اور بڑا ظلم ہے۔ قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:
وَ مَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ أَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ ۔ الخ۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر 114)
کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو لوگوں کو اللّٰه کی مسجدوں سے روکتا ہے کہ اُن میں اللّٰه کا ذکر کیا جائے اور اُن کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر یہ مسجد ضرار بھی مسجد جیسی ہے تو پھر اس کا گرانا کیسے درست ہے ؟ معلوم ہوا کہ منافقین بعض ایسی چیزوں کی نسبت اپنا لیتے تھے جو دھوکہ دہی کا باعث بنتی تھیں۔ وہ نسبتیں محض دھوکہ ہوتی تھیں۔ حقیقی معنٰی اُن پر صادق نہ آتا تھا۔ بعینہ اسی طرح جِس طرح منافقین نے مسجد ضرار بنا کر اسے مسجد کا نام دیا اور قرآن نے بھی مسجد کہہ کر اس کی نشاندہی کی ہے مگر اس کا معنٰی مسجد نہیں بلکہ یہ معنٰی ہے،
، الذي ينسب الى المسجد
وہ جگہ جِس کو وہ مسجد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اسی طرح حدیث پاک کے مذکورہ مقام پر صحابی کا لفظ ہے کہ اس کا معنٰی جیسا کہ امام نووی نے فرمایا ہے یہ ہے،
الذين ينسبون الى صحبتی
کہ وہ اپنے کو میری صحابیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔درحقیقت وہ صحابی نہیں ان کی یہ نسبت اختیار کرنا محض دھوکہ دہی کے لیے ہے ورنہ حقیقت میں یہ منافق ہیں۔
2- محترم قارئین کرام ! آپ اندازہ لگائیں جو منافقین کے دھوکہ کی طرح اب بھی بعینہ اسی طرح دھوکہ دیتے ہیں جِس طرح منافق صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کو دھوکہ دیا کرتے تھے ان کی پوزیشن کتنی واضح اور ایمان کا دعویٰ کِتنا غیر ثابت ہے ؟ ہم عرض کرتے ہیں کہ جِس طرح ملت اسلامیہ اطاعتِ صحابہ رضوان اللّٰه علیھم اجمعین پر پوری طرح قائم ہے اسی طر ح مسجد ضرار والوں کے ورثاء بھی اپنے مورچے پر پوری طرح جمے ہوئے ہیں۔ وہ منافق اپنے آپ کو صحابی کہہ کر صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کو کم عقل بے وقوف کہتے تھے اور دورِ حاضر کے مہربان بھی صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کو ان کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر برا بھلا کہتے ہیں۔
3- خط کشید روایت کا حاصل یہ ہے کہ یہ مذکورہ "بارہ منافق اپنے کو صحابی کہتے تھے۔" (عکسی صفحہ)
اور شیعہ لوگوں نے مطلب یہ کشید کر لیا کہ 12 صحابہ منافق ہیں۔ حالانکہ 12 صحابہ منافق نہیں تھے۔ 12 منافق صحابیت کا دعویٰ کرتے تھے۔
جو لوگ انصاف کی نظر رکھتے ہیں وہ اِن دونوں لفظوں کا فرق بخوبی جان لیں گے۔ کہ صحابہ کی جگہ منافق اور منافق کی جگہ صحابی کو رکھ کر کس طرح سے یار لوگوں نے عامۃ الناس کو دھوکہ اور فراڈ میں مبتلا کیا۔
4_ جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے ایمان کا اور سابقین اولین، بدری اور شریک بیعت رضوان کی عند اللّٰہ قبولیت و عز و شرف کا تعلق ہے تو اس پر بے شمار ارشاداتِ ربانی اور فرموداتِ محبوب سُبحانی موجود ہیں۔ یہاں تفصیل کا بیان کرنا تو ممکن نہیں البتہ چند مقامات کا حوالہ لکھ دینا فائدہ سے خالی نہیں۔ مذکور مقامات کی آیاتِ قرآنی انصاف پسند طبیعت رکھنے والوں کی تسلی کے لیے کافی ہوں گی اور ضدی لوگوں کا علاج تو ابھی دریافت ہی نہیں ہو سکا۔
سورۃ البقرہ، رکوع 2، آیت نمبر 13۔
سورۃ التوبة، رکوع 13، آیت 100۔
سورۃ النساء، رکوع 17، آیت نمبر 115۔
سورۃ المجادلہ، رکوع 3، آیت نمبر 22۔
سورۃ الکہف، رکوع 4، آیت نمبر 28۔
سورۃ الانعام، رکوع 6، آیت نمبر 52۔
سورۃ الاحزاب، رکوع 3، آیت نمبر 22۔
سورۃ الاحزاب، رکوع 3، آیت نمبر 25۔
سورۃ آل عمران، رکوع 2، آیت نمبر 13۔
سورۃ الحشر، رکوع 1، آیت نمبر 8۔
سورۃ الفتح، رکوع 3، آیت نمبر 18۔
سورۃ التوبہ، رکوع 14، آیات 117 تا 119۔
سورۃ الحجرات، رکوع 1، آیات 10+7۔
سورۃ العبس، رکوع 1، آیات 1 تا 12۔
سورۃ النساء، رکوع 11، آیت نمبر 83۔
سورۃ الفتح، رکوع 4، آخری آیت۔
سورۃ آل عمران، رکوع 10، آیت نمبر 173۔
سورۃ الاحزاب، رکوع 3، آیت نمبر 23۔
سورۃ الفتح، رکوع 1، آیات 4+5۔
سورۃ التوبہ، رکوع 14، آیت نمبر 111۔
سورۃ الفتح، رکوع 3، آیت نمبر 18۔
سورۃ التحریم، رکوع 1، آیت نمبر 4۔
سورۃ الحشر، رکوع 1، آیت نمبر 10۔
سورۃ الحجرات، رکوع 1، آیت نمبر 3۔
چند آیات کی طرف ہم نے نشاندہی کر دی اور صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین سے متعلق اللّٰه تعالٰی کے ارشاد تو بہت ہیں، صحاح ستہ اور مشکوٰة شریف کے ابواب المناقب دیکھ کر محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک جو ان کا مقام ہے وہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔
5_۔ یہاں جِن بارہ آدمیوں کو منافق بتلایا گیا یہ وہ 12 افراد ہیں جو غزوۂ تبوک سے واپسی کے موقع پر عقبہ کے مقام پر رات کے وقت گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے۔ یہ لوگ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنا اور سواری سمیت آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو کھائی میں گرانا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے ان کو زور دار آواز سے ڈرایا۔ ادھر حضرت حذیفہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو ان حملہ آوروں کا پتہ چلا تو انہوں نے ڈنڈے مار مار کر اُن کو دم دبا جانے پر مجبور کر دیا۔ اگرچہ یہ لوگ رات کی تاریکی میں پہچانے نہ گئے مگر خُدائی کلام نے اُن کا پردہ چاک کر دیا اور وحی سے اطلاع پا کر ان منافقوں کے نام آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو ارشاد فرما دیے تھے۔ اور حضرت حذیفہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے یہ نام تو ظاہر نہ فرمائے صیغہ راز میں رکھے البتہ حضرت عُمَر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو فرما دیا تھا کہ آپ ان میں سے نہیں ہیں۔