Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امام نسائی رحمہ اللہ کی وفات کا قصہ

  حافظ زبیر علی زئی

امام نسائی یعنی ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی رحمۃ اللہ (متوفیٰ 303ھ) کا شمار حدیث کے مشہور اماموں میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب ’’سنن نسائی‘‘ کتبِ ستہ میں شامل ہے۔ 
امام نسائیؒ کے بارے میں عوام و خواص میں یہ قصہ مشہور ہے کہ انھیں شام کے ناصبیوں نے بہت مارا تھا اور وہ اسی مار کی وجہ سے شہید ہو گئے تھے۔ 
اس قصے کی روایات کا مختصر اور جامع جائزہ درج ذیل ہے: 
1: حاکم نیشا پوریؒ نے فرمایا: 
’’فحدثنی محمد بن اسحاق الأصبھانی قال: سمعت مشایخنا بمصر یذکرون ان ابا عبدالرحمٰن فارق مصر فی آخر عمرہ و خرج إلیٰ دمشق فسئل بھا عن معاویۃ بن أبی سفیان و ما روی فی فضائلہ فقال: لا یرضی معاویۃ رأساً برأس حتی یفضل؟ قال: فما زالوا یدفعون فی حضنیہ حتی أخرج من المسجد ثم حمل إلیٰ مکۃ و مات بھا سنۃ ثلاث و ثلاث مائۃ وھو مدفون بمکۃ‘‘ 
ترجمہ: پس مجھ سے محمد بن اسحاقؒ (بن محمد بن یحییٰ بن مندہ) الاصبہانی نے بیان کیا: میں نے مصر میں اپنے استادوں کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ ابو عبدالرحمٰن (النسائیؒ) نے آخری عمر میں مصر کو الوداع کہا اور دمشق کی طرف چلے گئے تو وہاں اُن سے سیدنا امیرِ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا اور ان کے فضائل کی روایات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: کیا حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی نہیں کہ ان کا معاملہ برابر برابر ہو جائے؟ چہ جائے کہ انھیں فضیلت دی جائے کہا: لوگ انھیں سینے (یا خصیوں) پر مارتے رہے حتیٰ کہ وہ مسجد سے نکال دیئے گئے پھر انھیں اٹھا کر مکہ لے جایا گیا اور وہ وہیں 303ھ میں فوت ہوئے اور مکہ میں دفن ہوئے۔ 
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: صفحہ، 83 حدیث، 182 و عنہ ابن نقطۃ فی التقیید: جلد، 1 صفحہ، 154) 
اس روایت کی سند میں ’’مشائخنا‘‘ سارے مشائخ مجہول ہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے اور اس پر حافظ ابنِ عساکرؒ کا حاشیہ (تہذیب الکمال: جلد، 1 صفحہ، 45) بے فائدہ ہے۔ 
اس روایت کو حافظ ذہبیؒ نے بغیر کسی سند کے ابنِ مندہ عن حمزہ العقبی المصری وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: جلد، 14 صفحہ، 132) یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ 
2: کہا جاتا ہے کہ حاکم نے امام ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی رحمۃ اللہ سے نقل کیا: 
’’کان أبو عبدالرحمٰن افقہ مشایخ مصر فی عصرہ و أعرفھم بالصحیح والسقیم من الآثار و أعلمھم بالرجال فلما بلغ ھذا المبلغ حسدوہ فخرج إلی الرملۃ فسئل عن فضائل معاویۃ فأمسک عنہ فضربوہ فی الجامع فقال: أخرجونی إلیٰ مکۃ فأخرجوہ إلیٰ مکۃ وھو علیل و توفی بھا مقتولاً شھیدًا‘‘ 
ترجمہ: ابو عبدالرحمٰن النسائیؒ اپنے دور کے اساتذۂ مصر میں سب سے بڑے فقیہ، صحیح اور ضعیف روایات کو سب سے زیادہ جاننے والے اور اسماء الرجال کے سب سے بڑے ماہر تھے، پھر جب وہ اس مقام پر پہنچے تو لوگوں نے ان سے حسد کیا، پھر وہ رملہ تشریف لے گئے تو ان سے سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ چپ رہے پھر لوگوں نے انھیں جامع مسجد میں مارا تو آپ نے فرمایا: مجھے مکہ لے جاؤ۔ پھر وہ آپ کو مکہ لے گئے اور آپ بیمار تھے اور مکہ میں شہادت نصیب ہوئی۔ 
(تہذہب الکمال للمزی: جلد، 1 صفحہ، 45 واختصرہ الذہبی فی سیر اعلام النبلاء: جلد، 14 صفحہ، 133) 
اگر یہ روایت حاکم یا امام دارقطنیؒ سے باسناد صحیح ثابت ہو جائے تو عرض ہے کہ امام دارقطنیؒ 306ھ یا 305 ہجری میں پیدا ہوئے تھے اور امام نسائیؒ 303ھ میں فوت ہو گئے تھے لہٰذا یہ روایت منقطع و مردود ہے۔ 
یہ وہ روایات ہیں جنھیں بعض علماء اور واعظین مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ 
مثلاً شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے امام نسائیؒ کے بارے میں لکھا ہے: 
’’ان کی موت کا واقعہ یہ ہے کہ جب آپ مناقب مرتضوی (کتاب الخصائص) کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو انھوں نے چاہا کہ اس کتاب کو دمشق کی جامع مسجد میں پڑھ کر سنائیں تاکہ بنی امیہ کی سلطنت کے اثر سے عوام میں ناصبیت کی طرف جو رجحان پیدا ہو گیا تھا اس کی اصلاح ہو جائے، ابھی اس کا تھوڑا سا حصہ ہی پڑھنے پائے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا: امیر المومنین حضرت امیرِ معاویہؓ کے مناقب کے متعلق بھی آپ نے کچھ لکھا ہے؟ تو امام نسائیؒ نے جواب دیا کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہی کافی ہے کہ برابر برابر چھوٹ جائیں، ان کے مناقب کہاں ہیں۔ 
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کلمہ بھی کہا تھا کہ مجھے ان کے مناقب میں سوائے اس حدیث لاَ اَشْبَعَ اللہُ بَطنَہ کے اور کوئی صحیح حدیث نہیں ملی۔ 
پھر کیا تھا، لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور شیعہ شیعہ کہہ کر مارنا پیٹنا شروع کیا۔ ان کے خصیتین میں چند شدید ضربیں ایسی پہنچیں کہ نیم جان ہو گئے خادم انھیں اٹھا کر گھر لے آئے۔ 
پھر فرمایا کہ مجھے ابھی مکہ معظمہ پہنچا دو تاکہ میرا انتقال مکہ یا اس کے راستے میں ہو۔ 
کہتے ہیں کہ آپ کی وفات مکہ معظمہ پہنچنے پر ہوئی اور وہاں صفا و مروہ کے درمیان دفن کیے گئے۔ بعض کا قول یہ بھی ہے کہ مکہ جاتے ہوئے راستہ میں رملہ (فلسطین) میں انتقال ہوا۔ پھر وہاں سے آپ کی نعش مکہ معظمہ پہنچائی گئی۔ 
واللہ اعلم
(بستان المحدثین: صفحہ، 267، 268) 
یہ سارا بیان زیبِ داستان ہے اور باسناد صحیح ہرگز ثابت نہیں۔ 
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام نسائیؒ کی وفات کہاں ہوئی تھی؟  تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام نسائیؒ کے شاگرد ابنِ یونس المصریؒ (مؤرخ) نے لکھا ہے: 
’’وکان خروجہ من مصر فی ذی القعدۃ سنۃ اثنتین و ثلاث مائۃ و توفی بفلسطین یوم الاثنین لثلاث عشرۃ خلت من صفر سنۃ ثلاث و ثلاث مائۃ‘‘ 
آپ ذوالقعدہ 302ھ کو مصر سے روانہ ہوئے اور 13 صفر 303ھ بروز سوموار فوت ہوئے۔ 
(سیر اعلام النبلاء: جلد، 14 صفحہ، 133 المستفاد من ذیل تاریخ بغداد: جلد، 19 صفحہ، 49 تاریخ ابنِ یونس المصری: جلد، 2 صفحہ، 24 ت 55) 
حافظ ذہبیؒ نے اس قول کو ’’اصح‘‘ قرار دیا ہے۔
(النبلاء: جلد، 14 صفحہ، 133) 
سوال یہ ہے کہ امام نسائیؒ کے شاگرد اور مؤرخِ تاریخ مصر نے اتنے اہم واقعے کا ذکر کیوں نہیں کیا (بشرطیکہ) اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا تھا؟ 
حافظ ذہبیؒ نے بغیر کسی سند کے وزیر ابنِ حنزابہ (جعفر بن الفضل) سے نقل کیا ہے کہ میں نے محمد بن موسیٰ (بن یعقوب بن مامون) المامونی (الہاشمی، وثقہ الذہبی فی تاریخ الاسلام) صاحب النسائی سے سنا: ابو عبدالرحمٰن النسائی نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے خصائص (مناقب) پر جو کتاب لکھی، میں نے کچھ لوگوں کو اس کا انکار کرتے ہوئے سنا اور فضائلِ شیخینؓ پر کتاب نہ لکھنے کا انکار کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس بات کا ان (امام نسائیؒ) سے ذکر کیا۔ پھر انھوں نے فرمایا: میں دمشق میں داخل ہوا، اور وہاں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مخالفین بہت زیادہ تھے تو میں نے کتاب الخصائص لکھی، مجھے یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کتاب کے ذریعے سے ہدایت دے گا۔ پھر اس کے بعد انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل پر کتاب لکھی تو میرے سامنے انھیں کہا گیا: آپ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے فضائل نہیں لکھتے؟ تو انھوں نے کہا: ان کے لیے میں کیا لکھوں؟ کیا وہ حدیث جس میں آیا ہے: 
’’اللھم! لا تشبع بطنہ‘‘ 
ترجمہ: اے اللہ! اس کے پیٹ کو سیر نہ کرنا؟ 
تو وہ سائل خاموش ہو گیا۔
(النبلاء: جلد، 14 صفحہ، 129) 
یہ قصہ بھی بے سند ہے اور اگر کہیں ثابت بھی ہو جائے تو کسی قسم کی مار کٹائی کا اس قصے میں نام و نشان تک نہیں۔ 
اگر کوئی شخص کہے کہ ان قصوں میں صحیح یا حسن سند کا ہونا ضروری نہیں تو عرض ہے کہ یہ اصول غلط ہے اور اس کے مختصر رد کے لیے دیکھیئے میرا مضمون: امام مسلم رحمۃ اللہ کی وفات کا سبب؟ 
اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ امام نسائیؒ کے بارے میں بستان المحدثین وغیرہ کا قصہ اصولِ محدثین کی رُو سے باسنادِ صحیح ہرگز ثابت نہیں اور نہ امام نسائیؒ کا شیعہ ہونا کہیں ثابت ہے، بلکہ وہ اہلِ سنت کے جلیل القدر اماموں میں سے تھے۔ 
اصل مضمون:
اصل مضمون کے لیے دیکھیئے تحقیقی و علمی مقالات جلد، 6 صفحہ، 272 تا 275 للشیخ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ