مطاعن بر مذہب اہل سنت
مولانا مہرمحمد میانوالیسوال نمبر 31 تا 33
آپ کا مذہب مادی اقدار کو اہمیت دیتا ہے یا روحانی اقدار کو؟ مسلمان ترقی یافتہ کیوں نہیں؟ بد عمل کفار کیوں خوشحال ہیں؟
جواب: مذہب اہلِ سنت دونوں کی کامرانی کا ضامن ہے، سوال نمبر 25 کے جواب میں مذکور 2 آیتیں اس پر کافی دلیل ہیں، عہد رسالت، عہد خلافت راشدہ، عہد بنو امیہ، عہد عباسی، عہد آل عثمان ہزار برس سے زائد تک مغلیہ عہد سمیت، مسلمانوں کی ترقی و کامیابی کے ادوار ہیں، بے شمار ان کی ایجادات ہیں، علوم و فنون کی کثرت ہے، اقتصادیات اور مادی ترقی میں کوئی قوم ان کی ہمسر نہ ہوسکی، مگر جب سے ایران کے شاہان صفویہ نے (اب کے خمینی کی طرح)خونی انقلاب برپا کر کے اہلِ تشیع و اہل سنت کی جنگ مسلمانوں میں برپا کردی۔ شاہ سلیم خاں سے غداری کر کے برطانیہ فتح نہ کرنے دیا، تیمور لنگ نے بارہ لاکھ مسلمان قتل کر کے سلطنتِ عثمانیہ تباہ کر دی اور مسلمان جہاد سے غافل رہ کر امامت و خلافت کے زخم چاٹنے لگے، اپنے لوگوں سے اپنے ہی مال و جان اور سرحدوں کی حفاظت کرنی پڑ گئی تو انگریز وغیرہ قوموں کو صنعتی ترقی کا میدان ہاتھ آگیا اور وہ بازی لے گئے تو اب مسلمانوں کی مادی ترقی میں پسماندگی، مذہب کی کمزوری کا نتیجہ نہیں، بلکہ تشیع و اختلافات کارہینِ منت ہے، بدعملی صرف مسلمان کے لیے نقصان دہ اس لیے ہے کہ یہ خدا کی فوج کا سپاہی ہے جس نے وفاداری کا عہد کر رکھا ہے اور فوجی سپاہی کو بہ نسبت سول کے سزا زیادہ دی جاتی ہے، اس کی کچھ تفصیل ہمارے رسالہ(سنی مذہب سچا ہے) میں ملاحظہ کریں۔
سوال 34، 35: آپ کے مذہب کی بنیاد اقوال اصحاب ہیں جو مختلف الاجتہاد والرائے تھے تو یکجہتی کی ضمانت کیا ہے جب صراط مستقیم صرف ایک راستہ ہے؟ آپ کے مذہب کے اصول دین کا حقیقی معیار کیا ہے؟
جواب: ہمارے مذہب کی اصل بنیاد اور حقیقی معیار تین چیزیں ہیں قرآن مجید، سنت نبویﷺ، اجماعِ امت جس میں صحابہؓ کا اجماع بھی آجاتا ہے، ان تینوں کی مکمل تشریح مع دلائل تحفہ امامیہ صفحہ 247 تا صفحہ 253 کر دی گئی ہے، ایک ظنی اصول قیاسِ شرعی بھی ہے یعنی جس نئے مسئلے میں قرآن و حدیث خاموش ہوں، اجماعِ امت بھی نہ ملے تو اہل اجتہاد و علماء اس جیسا مسئلہ قرآن و سنت اور اجماع میں تلاش کریں اگر مل جائے تو اسے اصل (مقیس علیہ) بنا کر نئے مسئلے پر بھی وہی حکم لگا دیں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ اجتہاد یہ کام کرتے آئے ہیں اور قیاس کا یہ مختلف النوع لچک آمیز اصول قانون اسلام کی وسعت، دیگر مذاہب پر اس کی برتری اور جدید سائنسی دور میں ترقی کا ضامن ہے، تعجب ہے کہ شیعہ اس قیاس شرعی مبنی بر قرآن و سنت کے تو منکر ہیں مگر بہت سے مسائل محض عقل کے بل بوتے پر طے کرتے ہیں، خواہ صراحتاً وہ قرآن و سنت کے خلاف ہوں۔ جیسے رسومِ عزاداری، مذمت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ایجاد امامت وغیرہ، مذہبی یکجہتی کی ضمانت یہ ہے کہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت میں تو سب متفق ہیں ان سے ہم کسی کو اختلاف کا حق نہیں دیتے، اجتہادی مسائل میں ایک مجتہد کی رائے دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے مگر عامی شخص کو یہ حق ہے کہ جس مجتہد کو اپنے عقیدہ و امانت کی رو سے قرآن و حدیث اور اجماعی مسائل کے زیادہ قریب سمجھے اس کی تقلید کرے، باقی ائمہ مجتہدین کا احترام کرے، ایک امام کا مقلد دوسرے کے پیچھے اقتداء کرسکتا ہے اور یوں یہ امت ایک ہی صراطِ مستقیم پر گامزن ہے، تعجب ہے کہ زندہ اماموں کا سلسلہ ماننے کے باوجود شیعہ تقلید مجتہدین کے قائل ہیں پھر مجتہد کے مرنے پر اس کا فتوٰی مرجاتا ہے، نیا مجتہد تلاش کر کے پہلے فتوٰی کے برعکس اس کی تقلید لازم سمجھی جاتی ہے اور وہ دوسرے کے مقلد کے پیچھے نماز پڑھنے کا مجاز نہیں یہ تو ایک امامیہ کا حال ہے صرف پاکستان میں 9 مختلف فقہوں والے شریعت مداروں اور مجتہدوں کے مقلد شیعہ 9 فرقے موجود ہیں، باقی آغا خانی، زیدی، تفضیلی شیعوں کو دیکھا جائے تو سب ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں، ہر ایک کے امام جدا جدا بنے ہوئے ہیں تو شیعہ بے چاروں کو تو صراطِ مستقیم کی سمت کا بھی پتہ نہیں ہے، کیونکہ صراطِ مستقیم منعم علیھم چار گروہوں کے راستے کا نام ہے۔ انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین ان چاروں میں ائمہ نہیں ہیں بلکہ شیعہ تو ائمہ کو انبیاء سے افضل مانتے ہیں تو امامیہ صراطِ مستقیم کیسے پائیں؟ اور مذہبی یکجہتی کیسے حاصل ہو؟
سوال 36: اگر قرآن میں ایمان باعدل نہیں ہے تو کیا ایمان بتوحید اللہ کا بھی حکم ہے؟
جواب: بالکل غلط خیال ہے قرآن میں عدل و انصاف کرنے کا حکم ہے مگر اصولِ دین میں عدل کا اضافہ کرنے اور اس پر ایمان لانے کا سائل کے اقرار کے مطابق کہیں ذکر نہیں ہے، جس سے اس کی رکنیت ختم ہو گئی ہاں سینکڑوں آیات میں اللہ کو ایک اور معبود یکتا ماننے کا حکم ہے اور دین و ایمان کا بڑا رکن یہی ہے۔
1: وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَـتَّخِذُوۡۤا اِلٰهَيۡنِ اثۡنَيۡنِ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ (سورۃالنحل: آیت 51)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے کہا دو دو معبود نہ بناؤ، اللہ ہی صرف ایک معبود ہے۔
2: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَالۡكِتٰبِ الَّذِىۡ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَالۡكِتٰبِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓئِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا (سورۃ النساء:آیت 136)
ترجمہ: اے ایمان والوں! اللہ پر ایمان رکھو، اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یوم آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔
3: وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا (سورۃ النساء: آیت 36)
ترجمہ: اور تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔