Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تحاریک اور انتخابات

  ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقی

تحاریک اور انتخابات: 

1ـ مولانا شہیدؒ دار العلوم کبیر والا میں ابھی زیر تعلیم ہی تھے کہ ایوبی آمریت کے خلاف 1969ء میں پورے ملک میں تحریک چلی۔ جمعیتہ علماءِ اسلام نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا مولاناؒ نے بحیثیت ایک کارکن اس تحریک میں حصہ لیا اور پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے۔

2ـ 1974ء میں تحریک ختم نبوت میں بھر پور انداز میں حصہ لیا اس وقت مولاناؒ بطورِ کارکن خطیب جامع مسجد پپلیانوالی (جامع مسجد حق نواز شہیدؒ ) میں تشریف لاچکے تھے جھنگ میں اس تحریک میں حصہ لینے والے دیگر قائدین کے مقابلہ میں مولانا شہیدؒ کی تقاریر منفرد مقام رکھتی تھی اور عوام میں ایک نیا جذبہ اور لگن پیدا کر رہی تھیں اس تحریک میں بھی مولانا شہیدؒ کو گرفتار کیا گیا۔

3ـ 1978ء میں تحریک نظامِ مصطفیٰﷺ اس میں مولانا شہیدؒ نے بھٹو آمریت کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگادی اور انہیں ایک مرتبہ پھر پس دیوار زنداں جانا پڑا۔

4ـ پاکستان میں کسی فوجی آمر کی حکومت ہو یا کسی سول آمر کی مولانا شہیدؒ نے ہر آمریت کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ مارشل لاء دور میں بھی متعدد مرتبہ گرفتار ہوئے بحالی جمہوریت کے لئے اپنی آواز بلند فرماتے رہے لیکن اس تحریک میں اتنی احتیاط فرماتے رہے کہ جھنگ میں پیپلز پارٹی کے شیعہ لیڈروں کے ساتھ اس سٹیج پر کبھی نہیں آئے اپنی مسجد سے تحریک بحالی جمہوریت کے لئے کام کرتے رہے۔

5ـ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو جمعیتہ علماءِ اسلام نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن مولاناؒ نے جماعت سے اجازت لے کر جھنگ میں عابدہ حسین اور امان اللہ خان سیال شیعہ امیدواروں کی مخالفت میں تقاریر فرمائیں اور انتخابی دورے کئے بلکہ عابدہ حسین کے مقابلہ میں ایک سنی امیدوار غلام احمد گاڈی کو مولاناؒ نےخود کھڑا کیا تاکہ عابدہ حسین بلا مقابلہ کامیاب نہ ہو جائے۔

6ـ 1988ء میں جماعتی انتخابات ہوئے تو جمعیتہ علماءِ اسلام کے ٹکٹ سے مولانا شہیدؒ نے جھنگ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 18 سے الیکشن میں حصہ لیا آپ کے مقابلہ میں شیعہ لیڈر عابدہ حسین بطورِ آزاد امیدوار اور ذوالفقار علی بخاری بطورِ امیدوار پیپلز پارٹی تھے یہ سب پرانے پارلیمیٹرین تھے مولاناؒ نے کسی بھی الیکشن میں ذاتی طور پر پہلی مرتبہ حصہ لیا تھا وسائل کے اعتبار سے مولاناؒ کا اپنے مخالفین سے کوئی مقابلہ ہی نہ تھا بہرحال مولاناؒ نے اپنے مثبت پروگرام کی وجہ سے شہر میں انتہائی مقبولیت حاصل کر لی البتہ دیہی علاقہ کی انتخابی مہم میں عدم وسائل عدم رابطہ اور وقت کی کمی کے باوجود مولاناؒ نے تقریباً چالیس ہزار ووٹ حاصل کئے اور شہری علاقہ میں اپنے مدِمقابل امیدوار سے 15000 ووٹوں کی برتری حاصل کی پڑھے لکھے لوگوں نے مولاناؒ کے موقف کو بڑی تیزی سے قبول کیا اور تعلیم یافتہ لوگوں کے ووٹ سب سے زیادہ مولاناؒ ہی کو ملے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریٹرنگ آفیسر کے دفتر میں جب سرکاری ملازمین کے ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹ گئے تو مولاناؒ کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 174 اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سید ذوالفقار علی بخاری کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد صرف 54 تھی اس طرح باقی تینوں امیدواروں کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں سے مولاناؒ کے حاصل کردہ ووٹ زیادہ تھے اب مولانا شہیدؒ عوام کے مسائل حل کرانے میں بھر پور توجہ دے رہے تھے اور اس وقت آئندہ الیکشن کے اعتبار سے رائے عامہ مولاناؒ کے حق میں سب سے زیادہ تھی اور یہ بات مخالفین خصوصاً عابدہ حسین سے مخفی نہ تھی مولاناؒ کو اپنے راستہ سے ہٹانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

7ـ جہار افغانستان میں سپاہِ صحابہؓ کے بہت سے کارکنوں نے عملی طور پر حصہ لیا کچھ کارکن شہید بھی ہوئے مارچ 1990ء میں خود مولانا شہیدؒ کا اپنی جماعت کے تقریباً 30 افراد کے ہمراہ جہاد افغانستان میں شمولیت کا ارادہ تھا۔

8ـ جہاد کشمیر کے سلسلہ میں 5 فروری 1990ء کو ملک گیر ہڑتال ہوئی تو مولاناؒ نے فوراہ چوک (حق نواز شہیدؒ چوک) میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب فرماتے ہوئے حکومت کو پیش کش کی کہ اگر حکومت مجاہدین کو کشمیر بھیجنے کا بندوبست کرے تو وہ سپاہِ صحابہؓ کی جانب سے 50 ہزار مجاہدین بھیجنے کیلئے تیار ہیں مولاناؒ کی شہادت پر شدید رکاوٹوں کے باوجود مولاناؒ کے جنازہ میں ملک کے طول و عرض سے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کی شمولیت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ 50 ہزار مجاہدین کا مہیا کرنا مولاناؒ کے لئے کوئی مشکل نہ تھا۔

9۔ سندھ کی صورت حال پر مولاناؒ کو بڑی تشویش تھی آپ نے کراچی حیدر آباد سکھر اور اندرون سندھ کے دورے کئے وہاں کے عوام کو علاقائی عصبیت کے نقصانات اور باہمی اخوت و محبت کی برکات سے آگاہ فرمایا اور حکومت سے صورت حال کو بروقت کنٹرول کرنے کی اپیل کی آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپس کی محبت کی مثالیں بیان فرمایا کرتے تھے آپ مہاجر اور سندھی نوجوانوں سے فرمایا کرتے تھے کے اگر وہ اپنی مہاجر یا سندھی ماں کیلئے نہ لڑیں بلکہ سب کی سیدہ امی عائشہ صدیقہؓ کے مقدس دوپٹہ کی عظمت کے لئے لڑیں تو اس سے بڑی کیا سعادت ہوسکتی ہے۔

10ـ مرکز اور پنجاب کی اس دور کی محاذ آرائی پر مولاناؒ کو بڑی تشویش تھی مولاناؒ فرمایا کرتے تھے کہ اس ساری کارروائی کے پیچھے دونوں طرف کے شیعہ لیڈروں کا ہاتھ ہے وہ قوم کو آپس میں لڑا کر پاکستان میں ایرانی انقلاب کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔