Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خارجی فرقے اور ان کے متعلق فتوی

  امام ابنِ تیمیہؒ

خارجی فرقے اور ان کے متعلق فتوی

یہ خوارج تقریباً اٹھارہ فرقے تھے۔ جیسے ازارقہ[ازارقہ ؛ ابو راشد نافع بن الازرق بن قیس الحنفی البکری الوائلی ؛ اہل بصرہ میں سے تھا۔ شروع شروع میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی صحبت میں رہا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بلوائیوں میں شامل ہوگیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور دوستی کا اظہار کرنے لگا۔ حتی کہ جب آپ نے حروراء کی طرف خروج کیا۔ یہ ایک بہادر اور لڑاکا اور انتہائی سرکش خارجی تھا۔ پھر سن ۶۵ ہجری میں قتل ہوا۔ فرقہ ازارقہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما دونوں کو اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کو بھی کافر کہتے ہیں جو ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ اور مزید ان کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب لوگ کافر اور دائمی جہنمی ہیں ۔ اور ان کے مخالفین کے مقبوضہ علاقے دار الکفرہیں ۔مزید دیکھیں: لِسان المِیزانِ:۶؍۱۴۴، تارِیخ الطبرِیِ:۵؍۵۲۸، الأعلام:۸؍۳۱۵، مقالاتِ الإِسلامِیِین :۱؍۱۵۷، المِلل والنِحل:۱؍۱۰۹، الفرق بین الفِرقِ، ص:۵۰،۵۲؛ التبصِیر فِی الدِینِ، ص: الخطط لِلمقرِیزِی: ۲؍۳۵۴۔ []:نافع بن ازرق کے اتباع کار۔ نجدات: [انہیں نجدیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نجدہ بن عامر حنفی کے اتباع کار ہیں ۔ یہ انسان ۳۶ہجری میں پیدا ہوا؛ اور ۶۱ ہجری میں وفات ہوئی۔ بظاہر یہ بھی نافع بن ازرق کا پیروکار تھا۔پھر اس کی مخالفت میں علیحدہ سے ایک مذہب کی بنیاد رکھ لی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے ایام میں بحرین میں اس کی مستقل حکومت تھی؛ اور اسے امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ پانچ سال تک اس کی حکومت رہی ؛ پھر اسے قتل کردیا گیا۔ علامہ اشعری کہتے ہیں : نجدات بھی دوسرے تمام خوارج کی طرح ہیں ۔ان کا کہناہے : ہر کبیرہ گناہ کفر ہے۔ اور کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو دائمی عذاب دیں گے۔ اور ان کا خیال ہے کہ جو کوئی صغیرہ گناہ پر اصرار کرتا ہے؛ وہ مشرک ہے۔ او رجس نے کبیرہ گناہ کیا؛ اور وہ اس پر مصر نہ ہو؛ تو وہ مسلمان ہے ۔ نجدات کہتے ہیں : لوگوں کے لیے کسی کو حاکم بنانا ضروری نہیں ہے۔ بس ان کے باہمی معاملات عدل و انصاف اور حق پر مبنی ہونے چاہییں ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : لِسان المِیزانِ۶؍۱۴۸، شذراتِ الذہبِ:۱؍۷۶ ، الکامِل لِابنِ الأثِیرِ:۴؍۷۸، الأعلام:۸؍۳۲۴، مقالاتِ الإِسلامِیِین: ۱؍۱۵۶، الفرق بین الفِرقِ ص:۵۴، المِلل والنِحل:۱؍۱۱۰، التبصر فِی الدِینِ ص ۳۱، الفِصل فِی المِلل والنِحل:۵؍۵۳، الخطط لِلمقرِیزِیِ: ۲؍۳۵۴۔]نجدۃ الحروری کے اتباع کار۔

الاباضیہ [اباضیہ : عبداللہ بن اباض المقاعسی المری اور التمیمی کے اتباع کار ہیں ۔ مؤرخین کا اس کے حالات زندگی اور تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے۔ یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا معاصر تھا۔ اور مروان بن عبدالملک کے آخری عہد تک زندہ رہا۔ اور راجح تاریخ کے مطابق ۸۶ہجری میں فوت ہوا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کے مخالفین اہل قبلہ کافر ہیں ؛ مشرک نہیں ۔ اور ان کے مخالفین اہل اسلام کا دار دار التوحید ہے۔ سوائے حکمرانوں کے معسکر کے۔ وہ دار بغاوت ہے۔ اور ان کا اجماع ہے کہ: کبیرہ گناہ مرتکب کفر نعمت کا ارتکاب کرتا ہے؛ اس وجہ سے وہ ملت اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ اوران کی بھی تین اقسام ہیں ؛ حفصیہ ؛ حارثیہ اور یزیدیہ۔ دیکھو: ِلسان المِیزانِ : ۳؍۲۴۸، الأعلام:۴؍۱۸۴، مقالاتِ الإِسلامِیِین:۱؍۱۷۰، المِلل والنِحل:۱؍۱۲۱، الفرق بین الفِرقِ ص:۶۱ ، التبصِیر فِی الدِینِ، ص:۳۴،۳۵، الفِصل فِی المِلل والنِحل:۵؍۵۱، الخطط لِلمقرِیزِیِ:۲؍۳۵۵، الإِباضِیۃ فِی موِکبِ التارِیخِ لِعلِی یحی معمر ط۔ مکتبِۃ وہب:۱۳۸۴، ۱۹۶۴۔] : عبداللہ بن اباض کے اتباع کار۔

اس کے عقائد اور احوال عقائد؛حدیث؛ اور احوال و تراجم کی کتابوں میں بڑے ہی مشہور ہیں ۔یہ لوگ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کے عہد مسعود میں موجود تھے۔ان سے مناظرے بھی کرتے تھے؛ اور لڑتے بھی تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان سے قتال کے واجب ہونے پر اتفاق ہے۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کو کافر نہ صحابہ نے کہا اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے۔

جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرنے والے شیعہ کے کفر پر تمام صحابہ کرام اور مسلمانوں کا اتفاق ہے۔خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے انہیں کافر قرار دیکر آگ میں جلایا تھا؛ ان غالی شیعہ میں سے جس پر قدرت حاصل ہو؛اسے قتل کردیا جائے۔ جہاں تک خوارج کا تعلق ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے خلاف اس وقت جنگ آزما ہوئے جب انھوں نے کسی مسلمان کو قتل کیا۔ اور لوگوں پر حملہ کرکے ان کا مال لوٹنے کا بیڑا اٹھایا۔

خلاصہ کلام یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں غلو کرنے والوں کو صحابہ بلکہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرتد قرار دیا۔ اور ان سے مرتدین کا سا سلوک کیا۔ مگر خوارج سے کسی نے بھی مرتدین جیسا سلوک روانہ رکھا۔ یہ حقائق اس بات کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ اصحاب ثلاثہ سے بغض رکھنے والے جو حب ِ علی رضی اللہ عنہ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ان میں بالاتفاق علی و جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق جو شرّ و کفر پایا جاتا ہے وہ ان لوگوں میں موجود نہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھتے اور آپ کی تکفیر کرتے تھے۔نیز یہ بات بھی نکھر کر سامنے آئی کہ اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ و جمیع صحابہ کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں سے بدتر تھے۔