حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق علماء کے مختلف افکار و آراء
امام ابنِ تیمیہؒحضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق علماء کے مختلف افکار و آراء
[ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والوں نے ان کے خلاف شورش بپا کر دی تھی۔ایک گروہ آپ کی بیعت تک سے منحرف ہوگیا، اہل شام اس وقت تک آپ کی بیعت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، جب تک
قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص نہ لے لیا جائے]۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں لوگ گروہ بندی کا شکار ہوگئے تھے ۔
پہلا گروہ :.... اس امر کا قائل تھا کہ حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں خلیفہ برحق ہیں ۔اورجب ایک خلیفہ پر اتفاق نہ ہوسکے تو ایک وقت میں دو خلیفہ بنانے جائز ہیں ۔کرامیہ سے یہ قول نقل کیا گیا ہے۔
دوسرا گروہ:.... ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ وہ انار کی کا دور تھا، اور اس وقت کوئی بھی جائز خلیفہ نہ تھا بصرہ کے محدثین میں سے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔اسی لیے جب امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھا خلیفہ شمار کرنا شروع کیا تو توآپ کی عدم خلافت کے قائلین نے آپ کو گدھے سے بڑھ کر گمراہ و بدتر کہا۔ اور ایک گروہ نے چوتھے خلیفہ کی خلافت کا انکار کیا ۔ اور کہنے لگے اس سے پہلے ان لوگوں نے آپ کی خلافت کا انکار کیا ہے ‘ جو کہ ایسے نہیں تھے ؛ اس سے مراد بیعت سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کو لیتے تھے۔ امام احمد بن حنبل اور دوسرے علماء رحمہم اللہ جو خلافت علی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے نے آپ کی خلافت پر حدیث سفینہ سے استدلال کیا؛ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’میرے بعد تیس سال خلافت ہو گی، پھر ملوکیت کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘ [سنن ابی داؤد ۔ کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء(ح:۴۶۴۶) سنن ترمذی، باب فی الخلافۃ (ح:۲۲۲۶) ۔]
تیسرا گروہ:.... حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا قائل تھا۔اور جن لوگوں سے آپ نے قتال کیا ‘ اس قتال میں آپ حق پر تھے۔اور ان کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جن صحابہ کرام نے قتال کیا جیسے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ؛وہ غلط کار نہیں تھے، کیونکہ وہ اپنے اجتہاد کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بر خلاف نبرد آزما تھے، اور یہ مشہور مقولہ ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ: ’’ کُلُّ مُجْتَہِدٍ مُصِیْبٌ ‘‘
یہ اہل بصرہ میں سے ابو ہذیل علاف جبائی،ابو علی؛ ابو ہاشم بن جبائی اوران کے موافقین اشاعرہ جیسے قاضی ابو بکر ابن الباقلانی؛ امام ابی حامد رحمہم اللہ [ابو بکر محمد بن طیب باقلانی المتوفی ۴۰۳ھ آپ ابو الحسن اشعری کے تلمیذ رشید تھے ، استاد کی وفات کے بعد معتزلہ کے خلاف صف آراء رہے، یہ بڑے وسیع العلم حاضر جواب اور کامیاب مناظر تھے، کثیر التصانیف تھے، ان کی اعجاز القرآن اور التمہید زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔]کی یہی رائے ہے۔ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا ایک قول یہی ہے۔ ان کی رائے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس قتال میں ایسے ہی مجتہد تھے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ یہ فقہائے کرام کی ایک جماعت اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اصحاب کا قول ہے۔ابو عبد اللہ ابن حامد نے اصحاب امام احمد رحمہ اللہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین کے بارے میں تین اقوال نقل کیے ہیں :
پہلا قول: ان میں سے ہر ایک راہ حق پر تھا۔
دوسرا قول: ان دو میں سے ایک گروہ حق پر تھا ‘مگر اس کا پتہ نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہے۔
تیسراقول: حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے ‘ اور ان کے مخالفین خطا کار تھے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اہل سنت و الجماعت سے صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کی بھی مذمت بھی نہیں کی جائیگی۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں گروہوں میں سے حق کے زیادہ قریب تھے۔ جب کہ قتال کو درست کہنا اہل سنت و الجماعت کاعقیدہ نہیں ہے۔بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قتال کو ترک کرنا دونوں گروہوں کے لیے بہتر تھا۔
چوتھا گروہ:.... ان کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ امام برحق تھے اور ان کے خلاف لڑنے والے اگرچہ بنا بر اجتہاد ان کے خلاف برسر پیکار تھے، مگر ان کا اجتہاد مبنی برخطا تھا، بہت سے حنفیہ ، شافعیہ مالکیہ اور حنابلہ اسی نقطہ نظر کے حامل ہیں ۔
پانچواں گروہ:.... ان کا خیال ہے کہ اس دور میں خلیفہ برحق صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں حق و صداقت سے قریب تر تھے۔ تاہم ان دونوں کے لیے آپس میں نبرد آزما ہونا مناسب نہ تھا۔ بلکہ اس سے احتراز و اجتناب اختیار کرنا افضل تھا۔وہ اس کی دلیل میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پیش کرتے ہیں :
’’ ایک فتنہ برپا ہو گا اس میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے کی نسبت افضل ہوگا؛ اور کھڑا رہنے والا دوڑنے والے کی نسبت افضل ہوگا؛ ۔‘‘ [صحیح بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام(حدیث:۳۶۰۱) صحیح مسلم: کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر، (حدیث:۲۸۸۶) ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[صحیح بخاری، حوالہ سابق(ح:۳۶۲۹)]
اس حدیث میں آپ نے صلح کرانے کی بنا پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش فرمائی۔[( دیکھئے العواصم من القواصم:۱۹۹)۔]
اگر نبرد آزمائی واجب یا مستحب ہوتی تو آپ اس کے تارک کی مدح نہ فرماتے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باغیوں کے خلاف ابتدائً جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ہر باغی کے خلاف قتل و قتال کو ضروری ٹھہرایا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْریٰ فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ﴾ (الحجرات۹)
’’اگر مومنوں کی دو جماعتیں باہم برسر پیکار ہوں تو ان میں صلح کرا دیجئے اور اگر ایک گروہ دوسرے پر ظلم کر رہا ہو تو اس سے لڑو جو دوسرے پر ظلم کررہا ہو؛ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئے۔‘‘