امامت علی رضی اللہ عنہ کی چوتھی دلیل؛ حدیث:نیابت مدینہ :
امام ابنِ تیمیہؒامامت علی رضی اللہ عنہ کی چوتھی دلیل؛ حدیث:نیابت مدینہ :
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چوتھی دلیل یہ حدیث ہے کہ:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کومدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا، حالانکہ آپ کی غیوبت کا زمانہ نہایت محدود تھا۔ لہٰذا واجب ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا بالاجماع اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ نیز اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنی نیابت سے معزول نہیں کیا تھا۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے بعد بھی اس منصب پر فائز ہوں گے۔ جب مدینہ میں آپ کے نائب ہوں گے تو دیگر بلاد و امصار میں بھی یقیناً بالاجماع آپ کے خلیفہ ٹھہریں گے۔‘‘
[جواب]: ہم جواباً کہتے ہیں کہ:’’ شیعہ کے دیگر دلائل کی طرح یہ دلیل بھی نہایت بودی اور تارعنکبوت کی طرح بے جان ہے،اور اس کے متعدد جوابات ہیں :
٭ پہلا جواب : یہ ہے کہ علماء کی ایک جماعت کے ایک قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا؛ جیسا کہ اس سے پہلے تفصیلی بیان گزرچکا۔ اور اگر رافضی کہیں کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا تھا۔ تو ہم کہیں گے کہ پھر فرقہ راوندیہ کا قول بھی صحیح ہونا چاہیے۔ جو کہتے ہیں کہ: آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا تھا۔ جو شخص بھی کما حقہ نقلی دلائل سے آگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ اگر احادیث صحیحہ سے آپ کی موت کے بعد کسی کا استخلاف ثابت ہوتا ہے تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا استخلاف ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ۔ بلکہ آپ نے اپنے بعد کسی کو بھی دوٹوک الفاظ میں اپنا جانشین نہیں مقرر کیا تھا۔ پس اس صورت میں کہا جائے گا کہ : اگر آپ نے کسی کو بھی خلیفہ مقرر نہیں کیانہ ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔[ تواس کا مطلب یہ ہوا کہ امام کا تقرر آپ نے امت کی رائے عامہ پر چھوڑ دیا تھا کہ جس کو چاہیں مقرر کرلیں]۔
اگر مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا جانشین مقررکرنا واجب تھا تو پھر آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر نہیں کیا۔اس لیے کہ تمام اہل علم محدثین اور اصحاب السیر کا اتفاق ہے کہ صحیح اور ثابت احادیث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے جانشین یا خلیفہ ہونے پر دلالت نہیں کرتیں ۔ان میں سے جو بھی احادیث نیابت کے تقرر پر دلالت کرتی ہیں تو ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہی ثابت ہوتی ہے۔ثبوت وصحت ِ حدیث کا علم رکھنے والا ہر انسان یہ بات جانتا ہے۔
٭ دوسرا جواب : آپ لوگ توقیاس کو تسلیم نہیں کرتے؛جب کہ یہاں پر قیاس سے دلیل لے رہے ہیں ۔اس لیے کہ آپ نے مرنے کے بعدکی خلافت کو زندگی میں دوران غیوبت میں خلافت پر قیاس کیا ہے۔جب کہ ہم دواقوال میں سے جب کسی ایک قول کو فرض کرلیتے ہیں ؛تو ہم کہتے ہیں : ’’ ان دونوں کے مابین فرق وہی ہے جس پرہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے عہد میں دوسرے استخلاف پر اوربعد ازوفات شخص متعین کے انتخاب سے توقف میں آگاہ وخبردار کرچکے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں خودیا بذریعہ اپنے نائبین کے‘ اس امت پر شاہد او راس کی سیاست پر مامور تھے۔[یعنی زندگی میں کسی کو اپنا قائم مقام بنانا تو ایک قسم کی نیابت ہے اس کے لیے ہر امام کے عزم و قصد کا ہونا ضروری ہے] اور موت کے بعد آپ خلیفہ بنانے کے مکلف ہی نہیں رہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد ہے:
﴿وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ﴾ (المائدۃ: ۱۱۷)
’’اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا۔‘‘
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا خلیفہ ان پر شاہد تھا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے کسی کو بھی اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:میں بھی ایسے ہی کہوں گا جیسے اللہ کے نیک بندے نے کہا تھا:
﴿وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ﴾ (المائدۃ: ۱۱۷)
’’اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ﴾
[آل عمران۱۴۴]
’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہی ہیں آپ سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے؛ کیا اگر آپ کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات کے بعد تکلیف ختم ہوگئی تھی۔ اور آپ اگر اپنی زندگی میں بھی کسی کو خلیفہ مقرر کرتے تو آپ پر یہ واجب نہیں تھا کہ وہ خلیفہ معصوم ہو۔ بلکہ ایسا بھی ہوا کرتا کہ آپ کسی کو اپنا نائب بنا کر کہیں روانہ فرماتے ؛ اور پھر اس انسان کا جھوٹ سامنے آجاتا تو آپ اسے معزول کردیتے۔ جیسا کہ آپ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو عامل مقرر کیا تھا۔ ایسے ہی آپ اگر اپنی موت کے بعد بھی کسی کو خلیفہ مقرر کرتے تو یہ واجب نہیں تھا کہ وہ معصوم ہو۔ اس لیے کہ آپ موت کے بعد ان پر نگہبان نہیں ہیں ۔اور نہ ہی ان کے افعال پر رد کرنے کے مکلف ہیں ۔ بخلاف اپنی زندگی میں نائب مقررکرنے کے۔
٭ تیسرا جواب : یہ کہ اپنی زندگی میں نائب مقرر کرنا ہر ولی امر پر واجب ہوتاہے؛- خواہ وہ رسول ہو یا امام ہو-اس پر واجب ہوجاتا ہے کہ جو کام خود سر انجام نہ دے سکے ‘ ان میں کسی کو اپنا نائب مقرر کردے ۔ نظام کا قائم رہنا ہر صورت میں ضروری ہے ؛ خواہ وہ یہ خدمت خود انجام دے یا پھر کسی کو اپنانائب مقرر کرے۔پس جس کام کو ولی امر خود انجام دے اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ خود اس کی دیکھ بھال و اصلاح کرے ؛اور جوکام اس کی پہنچ سے دور ہے ‘ تو اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرکے ان امور کو پایہ تکمیل تک پہنچائے جو اس کی براہ راست پہنچ سے دور ہیں ۔ جیسے کہ دور کے لوگوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ؛ ان کے حقوق کی ادائیگی؛ ان میں حدود شریعت کا قیام ۔ اور ان کے مابین حکم و فیصلہ میں عدل کا قیام ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی ان تمام لوگوں کیساتھ کیا کرتے تھے جوبراہ راست آپ کی پہنچ سے دور ہوا کرتے تھے۔ آپ سرایا پر امیر مقررفرمایا کرتے ؛ جو انہیں نمازیں پڑھایا کرتے ؛اوران لوگوں کے ساتھ جہاد کرتے ؛ اور ان کی سیاست کی دیکھ بھال کرتے۔ اور ایسے ہی آپ شہروں پر اپنے عمال مقرر فرمایا کرتے۔ جیساکہ آپ نے عتاب بن اسید کو مکہ مکرمہ پر امیر مقرر فرمایا ۔ ایسے ہی آپ کے امراء میں خالدبن سعید بن عاص ؛ ابان بن سعید بن العاص ‘ ابو سفیان بن حرب ‘ معاذ؛ ابو موسی رضی اللہ عنہم کے نام آتے ہیں ۔ انہیں عرینہ کی بستیوں پر ‘ نجران پر‘ اور یمن پر عامل مقرر کیا گیا تھا۔ جوکہ وہاں پر ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے جن پر زکوٰۃ فرض ہوچکی؛ اور پھر ان لوگوں میں اس کو تقسیم کر دیتے جن کے لیے یہ مال زکوٰۃ لینا حلال ہوتا۔ایسے ہی دوسرے لوگوں کو بھی آپ نے عمال مقرر فرمایا تھا۔
ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدود قائم کرنے میں بھی اپنا نائب مقرر فرمایا کرتے تھے ؛جیسا کہ آپ نے حضرت انیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’ اے انیس ! اس انسان کی عورت کے پاس جاؤ ‘ اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اسے رجم کر دینا۔‘‘
آپ اس عورت کے پاس چلے گئے ‘ اس نے زنا کااعتراف کرلیا ‘اورآپ نے اسے رجم کردیا ۔‘‘ [البخاری ۳؍ ۱۰۲؛ کتاب الوکالۃ ؛باب الوکالۃ في الحدود ؛ کتاب الحدود : باب الاعتراف بالزنا: سنن الترمذي ۲؍ ۴۴۱ ؛ کتاب الحدود : باب ماجاء في تلقین الحد ....]
ایسے ہی آپ حج میں بھی نائب مقرر کیا کرتے تھے۔ آپ نے غزوہ تبوک کے بعد سن نو ہجری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنایا؛ اس حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کی جملہ رعیت میں سے تھے۔ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھتے ؛ اور آپ کے احکام کی پیروی کرتے تھے ؛ یہ سب باتیں غزوہ تبوک کے بعد ہوئیں ۔
ایسے ہی آپ نے کئی بار مدینہ میں اپنے جانشین مقرر فرمائے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ میں نکلتے تو اپنا نائب مقرر کرتے ؛ اور جب بھی حج یا عمرہ کے لیے نکلتے تو اپنا جانشین مقرر کرتے۔ ایسے ہی غزوہ بدر؛ غزوہ بنی مصطلق ؛ غزوہ خیبر ‘ غزوہ فتح مکہ ؛ اور غزوہ حدیبیہ ؛ عمرہ قضاء ‘ اور حجۃ الوداع کے علاوہ دیگر مواقع پر اپنے جانشین مقرر فرمائے۔
اپنی زندگی میں نائب مقرر کرنا ولی امر پر واجب ہوتا ہے؛ بھلے وہ نبی نہ ہو۔حالانکہ موت کے بعد اس پر اپنا جانشین مقرر کرنا واجب نہیں ہوتا۔اس لیے کہ زندگی میں جانشین مقرر کرنا تو انتہائی لازمی و ضروری ہے ؛ اس کے بغیر واجبات کی ادائیگی ممکن نہیں ہوسکتی۔ جب کے وفات کے بعد ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ آپ نے امت میں تبلیغ کا فریضہ ادا کردیا۔ اب امت پر واجب ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ‘ اور آپ کی وفات کے بعد کسی ایسے کو متعین کریں جسے وہ اپنا امیر بنائیں ۔اور جیسا کہ تمام فروض کفایہ میں ہوتا ہے کہ کسی ایک واحد متعین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی زندگی میں نائب مقرر کرنے سے وفات کے بعد نائب مقرر کرنے کا وجوب لازم نہیں آتا۔
٭ چوتھا جواب : ولایت کی مختلف اقسام میں اپنی زندگی میں جانشین مقرر کرنا واجب ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کے لوگوں پر اپنے جانشین مقرر کیے جو کہ ان میں واجب قائم کرتے تھے۔ ایسے ہی آپ نے حج میں اپنا جانشین مقرر کیا ؛ اور لوگوں سے زکوٰۃ و صول کرنے اورأموال فئے کی حفاظت؛ اقامت حدود اور غزوات میں اپنے جانشین مقرر کیے۔
٭ اہل عقل کا اتفاق ہے کہ جانشین مقرر موت کے بعد واجب نہیں ہوتا۔اور نہ ہی ایسا کرنا ممکن ہوتاہے۔اس لیے کہ ہر جزئی معاملہ پر موت کے بعد جانشین مقرر کرنا ممکن نہیں ؛ کیونکہ لوگوں کو ایک کے بعد ایک جانشین کی حاجت ہوتی ہے۔ اس صورت میں کسی کو متعین کرنا بڑا مشکل کام ہے۔اس لیے کہ اپنے بعد کسی کو متعین کیا گیا تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے احوال بدل جاتے ہیں ‘ اور اسے معزول کرء نا واجب ہوجاتا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں جن لوگوں کو متعین کیا کرتے تھے ؛ ان میں سے کسی ایک کے متعلق شکایت وصول ہوتی تو آپ اسے معزول کردیتے۔ جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو معزول کیا ؛ اور فتح مکہ والے سال سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو معزول کیا ؛ اور ان کی جگہ ان کے بیٹے قیس کو ولایت سونپی۔اور ایک قوم کے ایسے امام کو معزول کیا جس نے قبلہ کی طرف تھوک دیا تھا۔
٭ ایک بار آپ نے ایک آدمی کو کوئی ذمہ داری سونپی؛ لیکن اس نے اپنے واجبات ادا نہیں کیے۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا تم اس بات سے عاجز آگئے ہو کہ جو انسان میرے احکام پورے نہ کرتا ہو ؛ اسے معزول کرکے کسی ایسے کو ذمہ داری سونپ دو جو میرے احکام کو پورا کرے ۔‘‘[یہ حدیث سنن ابی داؤد میں ان الفاظ میں منقول ہے: حضرت عقبہ بن مالک سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا دستہ روانہ فرمایا میں نے ان میں سے ایک شخص کے تلوار ماردی جب وہ لوٹا تو اس شخص نے مجھ سے کہا کہ کاش تو دیکھتا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو کیسی ملامت کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جس شخص کو میں نے تمہارا امیر بنا کر بھیجا تھا اور اس نے میرے احکامات کی تعمیل نہیں کی تھی تم اس کو معزول کر دیتے اور اس کے بدلے دوسرا امیر مقرر کرلیتے جو میرا حکم بجا لاتا۔‘‘[سنن ابوداد:جلد دوم:حدیث نمبر 862] مسند ۴؍۱۶۰۔]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجبات پورے نہ کرنے والے کو معزول کرنا ان ہی لوگوں کے سپرد کردیا۔ تو پھرشروع سے ہی ایسا امیر مقرر کرنا جو واجبات اداکرسکے کیسے آپ عوام کے سپرد نہیں کرسکتے تھے۔
٭ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ سنت تھی کہ جب کسی ایسے کو والی مقرر کیا جاتا جو واجبات ادا نہ کرسکتا تو اسے معزول کردیا جاتا ؛ یا پھر آپ اسے معزول کرنے کاحکم دیتے ۔ توپھر یہ بھی ممکن تھا کہ آپ اگر اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر فرماتے ؛مگر وہ واجبات ادانہ کرپاتا؛ تو اسے معزول کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ اس صورت میں اگر امت خود ہی کسی کو جانشین مقرر کرے ؛ اور معزول کرے یہ اس بات سے بہت آسان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو امیر متعین کریں ؛ اور امت اسے معزول کردے۔ اس سے جانشین کو متعین نہ کرنے کی حکمت واضح ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ:
٭ پانچواں جواب : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی موت کے بعد کسی کو جانشین مقرر نہ کرنا ؛ مقررکرنے سے زیادہ بہتر تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جو بھی انتخاب کیا ‘ وہ افضل ترین امور کا ہی انتخاب تھا[ایسے ہی اب بھی آپ کا جانشین افضل ہی مقرر ہوگا]۔اور اس کی وجہ یہ ہے : یاتو یہ کہا جائے کہ: ’’ آپ پر واجب تھا کہ اپنی زندگی میں صرف معصوم کو ہی اپنا جانشین بنائیں ۔جب کہ آپ کے بعض جانشینوں سے نا مناسب کام بھی ہوگئے جس پر آپ نے سخت انکار کیا ۔ اور ان میں سے بعض کو معزول بھی کیا۔
٭ جیسا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو جذیمہ کے قتال کے لیے بھیجااور آپ نے ان لوگوں کو قتل کردیا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو نصف دیت ادا کی؛ان کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا ؛ انہوں نے کتے کے برتن تک کا تاوان ادا کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا:’’ یا اللہ!میں برأت کااظہار کرتا ہوں اس کام سے جو خالد نے کیا۔‘‘
٭ حضرت خالدبن ولید اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے مابین جھگڑا ہوگیا؛ یہاں تک کہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی۔ تو آپ نے فرمایا:
(( لا تسبوا أصحابی فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحدہم ولا نصیفہ)) [البخاری:ح ۸۸۷]
’’ میرے صحابہ کو برا نہ کہو ؛ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد(سیر بھر وزن)یا آدھے کے برابر بھی(ثواب کو)نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
مگر اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو معزول نہیں کیا۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو ایک قوم میں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل مقرر کیا ‘ آپ واپس آئے اور عرض کی: وہ لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کررہے؛ بلکہ وہ جنگ کے لیے تیار ہیں ۔ آپ چاہتے تھے کہ ان لوگوں کے خلاف فوج بھیجی جائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
﴿اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ﴾ [الحجرات۶]
’’اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کروایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو۔‘‘
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر[ انصاری لشکر پر] حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو والی بنایا تھا ۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت سعد نے یوں کہاہے: ’’ آج کا دن خونریز جنگ کادن ہے ؛ آج حرمتیں پامال کرنے کا دن ہے۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے ان کی جگہ ان کے بیٹے قیس کو والی بنایا؛ اور نشانی کے طور پر اپنا عمامہ شریف ارسال فرمایا ؛ تاکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کومعلوم ہوجائے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معزول کیا ہے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے بعض نائبین کی شکایات پہنچائی جاتی تھیں ۔توآپ اسی چیز کاحکم دیتے جو حکم اللہ تعالیٰ نے آپ کودیا ہوتا۔ جیساکہ اہل قباء نے آپ کے پاس شکایت کی کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں ۔ یہ اس وقت ہوا جب آپ نے نماز عشاء میں سورت بقرہ کی تلاوت کی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تم فتنہ گربننا چاہتے ہو؟ آپ سبح اسم ربک الأعلی اور واللیل إذا یغشی اوران جیسی سورتیں پڑھا کرو ۔‘‘
٭ صحیح مسلم میں ہے : ’’ایک آدمی نے آپ سے عرض کی : ’’فلاں انسان ہمیں نماز فجر بہت لمبی پڑھاتا ہے ‘ اس لیے میں نماز سے پیچھے رہ جاتاہوں ۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:
((إِذا أمَّ أحدکم لِلناسِ فلیخفِف ؛ فإِن من ورائہ الضعِیف والکبیر و ذا الحاجۃ۔ وإِذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء))۔ [صحیح مسلم:کتاب الصلاۃ ‘ح۱۰۴۳]
’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ اس کے پیچھے کمزور بیمار؛ عمر رسیدہ اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں ۔اور جب اپنے لیے نماز پڑھے تو پھر جتنا مرضی لمبا کرلے ۔‘‘
٭ جس امام نے مسجد میں قبلہ رخ تھوکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معزول کردیا؛ اور فرمایا: ’’ بیشک تم نے اللہ اوراس کے رسول کو اذیت دی ہے۔‘‘[سنن أبي داؤد ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب کراہیۃ البزاق في المسجد۱؍۱۸۹۔]
آپ کے جانشینوں میں سے کسی ایک کو جب کسی مسئلہ میں کوئی مشکل درپیش آتی تو وہ آپ کے پاس کسی آدمی کو بھیج کر اس کا حل دریافت کرلیا کرتے تھے ۔
سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانشین کو ان باتوں کی تعلیم دیا کرتے جن کا انہیں علم نہ ہوتا۔اور اگرکسی سے غلطی ہوجاتی تو اس کی اصلاح کرتے ۔اوراگروہ اپنی اصلاح نہ کرتے تو انہیں معزول کردیا جاتا۔ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ معصوم نہ تھے۔پس معلوم ہوا کہ آپ پر واجب نہیں تھا کہ معصوم کو ہی ولایت تفویض کرتے۔نیز یہ ایسی چیزہے جس کا مکلف بنایا جانا ممکن نہیں ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی معصوم پیدا ہی نہیں کیا۔اگر آپ کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا جاتاکہ صرف معصوم کو ہی اپنا جانشین مقرر کریں تو یہ ایسی تکلیف ہوتی جو آپ کے بس سے باہر ہے۔ اس طرح مقصودولایت فوت ہوجاتا؛ اور لوگوں کی دنیا اوردین میں خرابی پیدا ہوجاتی ۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے لیے اپنی زندگی میں جائز ہی نہیں بلکہ واجب تھا کہ ایسے لوگوں کو اپناجانشین مقرر کریں جو کہ معصوم نہیں ؛ایسے ہی اگر اپنی موت کے بعد کسی کوجانشین مقرر کریں تو ان کے لیے معصوم ہونا ضروری نہیں ۔اورنہ ہی موت کے بعد آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ آپ انہیں تعلیم دیں یا ان کی اصلاح کریں ؛ جیساکہ آپ اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے ۔ تو اس لیے آپ کااپنا جانشین مقرر نہ کرنا جانشین مقرر کرنے سے زیادہ بہتر تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت تک اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی پہنچادیئے۔ اورامت کوان چیزوں کی تعلیم دے دی جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اورجن سے منع کیا ہے۔ پس وہی خود ایسے انسان کواپنے اوپر خلیفہ مقرر کرلیں گے جو ان میں اللہ اوراس کے رسول کے احکام قائم کرے۔ اوروہ لوگ اس خلیفہ کے ساتھ قیام شریعت کے امور میں مدد کریں گے۔اور کسی کے لیے ان امور کوقائم کرنااس کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ پس جو کوئی علم کی بات اس [خلیفہ ] سے رہ گئی ہو توجاننے والے اسے تعلیم دیں گے؛ اور جہاں پر ان کی مدد کی ضرورت ہوگی تو مدد کریں گے۔ اورجو کوئی حق سے روگردانی کرے ‘ اسے حسب امکان اپنے قول و عمل سے واپس حق پر لائیں گے۔ چنانچہ ان کی کسی بات کا حساب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہوگا۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کی کوئی جواب دہی نہیں ہوتی۔اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی موت کے بعد جانشین مقرر نہ کرنا جانشین مقرر کرنے سے زیادہ بہتر اور آپ کے حق میں زیادہ اکمل ہے۔پس جو کوئی موت کے بعد جانشین مقرر کرنے کو زندگی میں جانشین مقرر کرنے پر قیاس کرتا ہے ؛ وہ لوگوں میں سب سے بڑا جاہل انسان ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں ؛ تو پھر آپ کے لیے ان کے حقدار ہونے کی طرف اشارہ ورہنمائی بھی کردی۔حالانکہ آپ جانتے تھے کہ امت آپ کے بعد ان کو ہی جانشین مقرر کرے گی؛ یہ خود آپ کے جانشین مقرر کرنے سے بے نیاز کردیتا ہے تاکہ امت خود ہی اس واجب کو پورا کرے۔ اور اس کا ثواب بھی امت کے لیے زیادہ ہوگا کیونکہ اس سے مقصود رسالت حاصل ہورہا ہے۔
ایسے ہی جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ علم تھا کہ امت میں اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا کوئی دوسرا نہیں ؛ اور آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر میں انہیں اپنا جانشین مقرر نہیں کروں گاتو ان کی سختی کی وجہ سے شائد لوگ آپ کو خلیفہ نہ بنائیں ؛ تو آپ نے خود ہی انہیں اپنا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ کایہ اقدام امت کے حق میں بہت بہتر تھا۔
پس جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ؛ وہ آپ کے علم و فضل کے شایان شان تھا۔ اور جوکچھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ‘ وہ آپ کے لائق تھا ؛ اس لیے کہ جس چیز کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا ؛ اس کا علم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں تھا۔
٭ چھٹا جواب:ان سے کہا جائے گا : تصور کیجیے ! جانشین مقرر کرنا واجب تھا ؛ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا ؛ جیسا کہ تعین استخلاف والوں کا کہنا ہے۔ اور اس پردیگر اقوال بھی دلالت کرتے ہیں ۔
[حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امارت مدینہ]
[اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی امارت سے معزول نہیں کیا تھا۔‘‘[سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے امارت مدینہ سے معزول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپس آنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں سیدنا علی کے محکوم ہوں گے۔ ممکن ہے شیعہ مصنف الوہیت علی کا قائل ہو اور اس کے نزدیک سرور کائنات کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زیر فرمان ہونا چنداں قابل اعتراض نہ ہو جیسا کہ اس کے پیش رو ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا قول ہے۔ ٭....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر نائب کی حیثیت سے کام کرنا مستقل جانشینی نہیں ہوا کرتی تھی؛بلکہ اس کی اہمیت عارضی ہوا کرتی تھی۔ اور جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے تو بغیر کسی مزید اقدام کے نائب کو معزول سمجھاجاتا۔ یہی کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا۔[کشمیری]]
[جواب]:ہم کہتے ہیں : ایک غلط بات ہے۔ اس لیے کہ جونہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس وارد ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے واپس آنے سے خود بخودہی معزول ہوگئے تھے۔ جس طرح آپ کے دیگرنائبین آپ کی تشریف آوری سے از خود اُس منصب سے الگ ہو جایا کرتے تھے جس پر آپ ان کو اپنی عدم موجودگی میں مقرر فرمایا کرتے تھے۔[آپ نے اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کفار سے اظہار براء ت کرنے کے لیے مکہ بھیجا تھا]۔ نیزآپ کو یمن میں عامل مقرر کیا[تھاجہاں سے] آپ حجۃ الوداع کے موقع پر[واپس آکر] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے؛ اس وقت مدینہ پر آپ کے علاوہ کو ئی دوسرا خلیفہ تھا۔٭
کیا آپ یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے ؛ مگر پھر بھی مدینہ میں خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے ؟ [أیں چہ بو العجبی است ؟]۔
٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی بات کوئی ایسا جاہل ہی کہہ سکتا ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کاکچھ پتہ نہ ہو۔ یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ برابر مدینہ میں خلیفہ رہے یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔مگر انہیں اس بات کا علم نہ ہوسکا کہ اسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن ۹ھ میں آپ کواپنا نمائندہ بنا کرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تاکہ اہل مکہ کے عہد انہیں واپس کریں ۔ اس وقت آپ پر امیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس آنے کے بعد آپ کو یمن روانہ فرمایا۔آپ کے علاوہ حضرت معاذ اورحضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو بھی یمن بھیجا تھا۔
٭ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع والے سال حج کیا ؛ تو اس وقت مدینہ پر اپنا جانشین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو بنایا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس مکہ میں آکر آپ سے ملے ۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کی قربانی دی ؛ جن میں سے سڑسٹھ اونٹ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کیے ؛ جب تینتیس اونٹوں کی قربانی کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ذمہ داری تفویض فرمائی ۔
یہ تمام باتیں اہل علم کے ہاں معلوم شدہ اور متفق علیہ ہیں ۔اور متواتر اسناد کیساتھ ایسے منقول ہیں گویا کہ آپ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ساری چیزیں دیکھ رہے ہوں ۔اور جس انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے بارے میں علم نہ ہو ؛ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے بنیادی اوراصولی مسائل میں گفتگو کرے۔
خلیفہ اسی وقت خلیفہ ہوسکتا ہے جب تک مستخلِف [جس کی جگہ خلیفہ بنایا جانا ہو] غائب ہو ؛ یا اس کا انتقال ہوچکا ہو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خو د مدینہ طیبہ میں موجود تھے تو پھر وہاں پر آپ کے جانشین کا ہونا بھی ممتنع ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے علاوہ دیگر مواقع پر اپنی عدم موجودگی میں جتنے بھی لوگوں کو مدینہ پر اپنا جانشین مقرر کیا ؛ آپ کے واپس آتے ہی ان کی جانشینی ختم ہوگئی۔یہی حال تمام ولاۃ الامور کا ہوتا ہے ؛ جب حاکم اپنی عدم موجودگی میں شہر پر کسی کو جانشین مقرر کرتے ہیں تو جب بھی جانشین مقرر کرنے والا خود واپس آجائے تو اس کی جانشینی کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوں کہنا درست نہیں ہے کہ : ’’ بیشک فلاں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا جانشین بنایا ۔‘‘
سو بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ زندہ و قائم اور اپنے بندوں کے امور کا مدبر ہے ۔ وہ موت ؛نیند اور غائب ہونے سے مبرا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’ یا خلیفۃ اللہ !‘‘ تو آپ نے فرمایا : ’’ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں ؛بلکہ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ۔‘‘
ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ بندے کا خلیفہ ہے ۔جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اللہم أنت الصاحب في السفر و الخلیفۃ في الأہل۔))
’’ اے اللہ ! تو ہی سفر کا ساتھی ہے اور گھر والوں میں خلیفہ ہے ۔‘‘
اورحدیث دجال میں آتا ہے :
’’واللّٰہ خلیفتي علی کل مسلم ۔‘‘ ’’اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے ۔‘‘
پس ہر وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خلیفہ کہا ہے ‘ وہ اپنے سے پہلوں کا جانشین و خلیفہ ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِہِمْ﴾ [یونس ۱۴]
’’پھر ان کے بعد ہم نے دنیا میں بجائے ان کے تم کو جانشین کیا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ﴾ [الأعراف۶۹]
’’پھر وہ وقت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا ۔‘‘
اور ارشادالٰہی ہے :
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ [النور ۵۵]
’’وعدہ کر لیا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کیے، وہ انہیں ضرور حاکم کر دے گا جیسے ان لوگوں کو حاکم کیا تھا جوان سے پہلے گزر چکے ۔‘‘
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا :
﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃَ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ﴾ [البقرۃ۳۰]
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ۔‘‘
یعنی اس مخلوق کا جانشین بنانے والا ہوں جو تم سے پہلے زمین پر تھے ؛ جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے۔رہ گیا فرقہ اتحادیہ کا نظریہ ؛ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے تو یہ محض جہالت اور گمراہی ہے ۔