Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بعض ایسی باتیں منسوب کیں ہیں جو کہ شانِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے بعید ہیں ۔ 1):-عائشہ رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کپڑے کی گڈیاں بنار کھیلتی تھی حالانکہ اہل سنت کے نزدیک ثابت ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جہاں تصویر موجود ہو۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی تصویریں کعبہ سے محو کرا دی تھیں۔ (الفاظ حدیث یہ ہیں عن عائشہ رضی اللہ عنھا قالت کنت العب بالبنات عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان لی صواحب یلعبن معی الحدیث صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 258 باب مناقب عائشہ رضی اللہ عنھا)

  علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتیؒ

اہلِ سنت نے رسول اللہﷺ کی طرف
بعض ایسی باتیں منسوب کیں ہیں جو کہ شانِ نبوتﷺ سے بعید ہیں ۔

1):عائشہؓ رسول اللہﷺ کے گھر میں کپڑے کی گڈیاں بنار کھیلتی تھی حالانکہ اہلِ سنت کے نزدیک ثابت ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جہاں تصویر موجود ہو۔اور رسول اللہﷺ نے ابراہیم اور اسماعیل علیہم السّلام کی تصویریں کعبہ سے محو کرا دی تھیں۔
(الفاظ حدیث یہ ہیں عن عائشہؓ قالت کنت العب بالبنات عندالنبیﷺ وکان لی صواحب یلعبن معی الحدیث صحیح  مسلم جلد 2 صفحہ 258 باب مناقب عائشہؓ)
جواب:

مذکورہ بالاروایت کے بارہ میں کئی احتمالات پیدا ہو سکتے ہیں سیدہ عائشہؓ ابتداء میں صغیرہ تھی ان پر شرعی تکلیفات ساقط تھیں، ہو سکتا ہے، وہ گڈیاں کپڑے کی تھیں اور انسانی تصویر میں نہ تھیں، ہوسکتا ہے تحریم صورت سازی سے پہلے کا یہ واقعہ ہے ابراہیم علیہ اسلام کی تصویر فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ نے محو کرائی تھی، جو کہ سن 8 ھجری کا واقعہ ہے حدیث میں یہ بھی احتمال ہے کہ انصاری لڑکیاں سیدہ عائشہؓ کے پاس آتی تھیں ، ان کے ساتھ سیدہ عائشہؓ کھیلا کرتی تھی بنات سے مراد وہی انصاری لڑکیاں ہیں۔

2):-اہلِ سنت بروایت عائشهؓ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 788 باب نظر المرأة إلى الجيش وكتاب العيدين جلد 1 صفحہ 130)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چادر پہنائی میں حبشیوں کی طرف دیکھتی تھی جو کہ مسجد میں کھیل رہے ہوتے ۔ اس روایت میں کئی قباحتیں موجود ہیں۔

1):حبشیوں کو رسول اللہﷺ نے لعب کیلئے مقرر کیا۔ 2):خود لعب دیکھا گویا آپ بھی ان میں شامل ہو گئے۔ 3):اپنی بیوی کو نا محرم مردوں کو دیکھنے کی اجازت دی جو کہ غیرت کے منافی ہے ۔

جواب: حبشیوں کے کھیل سے مراد آلات حرب کی تربیت ہے، نہ کہ بے ہودہ اور بے فائدہ مشغلہ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے:

(جامع ترمذی باب جاءفی فضل الرمی فی سبیل اللہ جلد1صفحہ 333ابنِ ماجہ صفحہ 207 باب الرمی فی سبیل اللہ)

لعب المسلم باطل الا ثلثة تعليمه بقوسه تاديبه بفرسه وملاعبةمع نساءه.

مسلمان کا کھیلنا باطل ہے سواء تین کھیل کے۔ 

1):کمان کے ساتھ کھیلنا 2): گھوڑے کو تربیت دینا، اور

3):اپنی عورتوں کے ساتھ خوش گپیاں۔

لہٰذا یہ لعب حرام نہ تھا، بلکہ جہاد کی غرض سے عین عبادت میں داخل ہے، قرآن پاک میں ہے:

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ

اور ان کیلئے جو قوت تمہاری استطاعت میں ہو تیار رکھو

صغیرہ لڑکی(کسی ایک شخص کو نہیں دیکھا جارہا ہے بلکہ رسول اللہﷺ کی معیت میں مجاہدین کی مجموعی پریکٹس کو ملاحظہ کیا جا رہا ہے اس میں بے غیرتی کی کونسی بات ہے)کا پس پردہ دیکھنا غیرت کے منافی نہ ہے، واضح ر ہے کہ یہ واقعہ آیت حجاب کے نازل ہونے سے پہلے اور سیدہ زینبؓ کے نکاح کے بعد کا ہے، دیکھیے سنن ابی داؤد، دارمی وغیره۔

سیدنا عمرفاروقؓ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حبشیوں کو روکا تھا ، اس وقت ان کے خیال میں یہ لعب نا جائز تھا، جب انہیں پتہ چلا کہ رسولﷺ کی اجازت سے تربیت ہے تو وہ خاموش ہو گئے مگر روافض کا طرزِ عمل سادات اہلِ بیت کے ساتھ کتنا قابل نفرین ہے، ہیں کی ایک مثال یہ کہ سیدنا جعفر صادقؒ کی طرف یہ جھوٹی نسبت کرتے ہیں، کہ انہوں نے کہا :

خدمة جوارينا لنا وفروجھن لكم

ہماری لونڈیوں کی خدمت ہمارے لئے ہے، اور انکی شرمگاہیں تمہارے لئے

3):-اہلِ سنت روایت کرتے(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 267)ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملک الموت کو تھپڑ رسید کیا، وہ کانے ہو گئے اس سے معلوم ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام فیصلہ خدا پر راضی نہ تھے، اور اللہ کی ملاقات کو ناپسند کیا ۔ حالانکہ اہلِ سنت ہی یہ روایت بھی لاتے ہیں:

(ایضاً)

من كره لقاء الله كره الله لقاءه -

جو اللہ کی ملاقات ناپسند کرتا ہے خدا بھی اس کی ملاقات ناپسند کرتا ہے۔

جواب: یہ تھپڑ اس لئے نہیں مارا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی موت پر راضی نہ تھے اگر ایسا ہوتا تو بعد میں کیوں اپنی جان قبض کرنے کی اجازت دیتے ، یہ اس لئے ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں موت و حیات میں اختیار دیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اختیار کے بعد ان کی جان قبض ہو گی۔مگر فرشتہ بلااذن جان قبض کرنا چاہتا ہے۔

(فرشتہ انسانی شکل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا، ہو سکتا ہے حضرت موسیٰ نے سمجھا ہو کہ یہ کوئی قبطی ہے، جو مجھے دھمکا رہا ہے، اس لئے اس کو تھپڑ رسید کر دیا۔ امام ابنِ خزیمہ، مازری، اور قاضی عیاض وغیرہ نے یہی توجیہہ بیان کی ہے

دیکھئیے شرح مسلم للنوادی صفحہ 267 جلد2) جو کہ انبیاء کے حق میں سوء ادب ہے آخر موت پر راضی ہوگئے اور زمین مقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے قدر قرب کا مطالبہ کیا۔

4):- اہلِ سنت روایت کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا:

(صحیح مسلم جلد2 صفحہ265 باب فضائل ابراہیم)

نحن احق بالشك من وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى 

(سورۃ البقره 26)

ہم ابراہیم سے زیادہ شک کرنے  کا حق رکھتے ہیں، جبکہ انہوں نے کہا اے رب مجھے دکھا، آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔

شک ایمان کے منافی ہے ابرہیم علیہ سلام اور سید الرسلﷺ کی طرف شک کی نسبت کرنا محال ہے ۔

جواب: شک سے مراد اس جگہ زیادتی یقین اور قوت اطمینان میں قلب کا تردد ہے، اسے صوفیا ہی جان سکتے عوام نہیں نص قرآن اس پر دال ہے ارشاد ہے :-

اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ

(سورۃ البقرہ 260)

کیا آپ نہیں مانتے، فرمایا کیوں نہیں( سوال اس لیے ہے) تاکہ میرے دل کو پورا اطمینان حاصل ہو جائے۔

لہٰذا یہ تو ایمان کامل پر دال ہوا احادیث کا مفہوم یہ بنا ابراہیم علیہ السلام زیادۃ و یقین کے طالب تھے ۔ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں کیوں کہ ہمیں طلب زیادۃ کا

حکم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا

(سورۃ طہٰ آیت 114)

اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔

اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث کا مفہوم یوں ہے:

ابراہیم علیہ السلام کا سوال شک کی بناء پر نہ تھا، اگر شک کی وجہ سے ہوتا تو یہ شک ہمیں بھی ہوتا حالانکہ ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔ لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کو بھی شک نہ تھا۔

5):-اہلِ سنت (صحیح مسلم جلد2) اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام صرف تین کذباب بولے ہیں ، اس میں کذب کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے حالانکہ انبیاء کذب سے معصوم ہیں ۔

جواب: اس حدیث میں لفظ کذب کا معنی مجازی تعریض ہے، الفاظ کے مجازی معانی اللہ کے کلام اور رسولﷺ کے فرامین میں عام ہیں اگر شیعہ اس جگہ کذب کے حقیقی معنی لیتے ہیں اور تقیہ کا جواز ڈھونڈتے ہیں جس سے پھر انبیاء علیہم السلام کی باتوں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔(نعوذ بالله)

6):-اہلِ سنت صحاح میں روایت کرتے ہیں(جامع ترمذی میں لفظ یہ ہیں ان الشیطان لیخاف منک یا عمر الحدیث جلد 2 صفحہ 232 مناقبِ عمر نیز جامع ترمذی میں ہے انی لانظر الی شیاطین الجن والاانس یفرون من عمرؓ قصہ لعب الجشنیتہ)رسول اللہﷺ نے فرمایا سیدنا عمر فاروقؓ کے سایہ سے شیطان بھاگ جاتا ہے، اس حدیث سے سیدنا عمر فاروقؓ کی انبیاء پر تفضیل لازم آتی

ہے، دیکھئیے شیطان نے آدم علیہ السّلام کو وسوسہ میں ڈالا، قرآن میں ہے:

فَوَسۡوَسَ لَهُمَا الشَّيۡطٰنُ

شیطان نے ان دونوں کو وسوسہ ڈالا۔

(سورۃ الاعراف آیت 20)

نیز فرمایا:

قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى

کہا اے آدم! کیا میں تمہیں ایسا درخت بتاؤں جس سے جاودانی، زندگی اور وہ بادشاہی حاصل ہو جاتی ہے، جو کبھی پرانی نہیں پڑتی۔

(سورۃ طہٰ آیت 120)

موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:

هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-

ترجمہ:یہ شیطان کا کام ہے۔

(سورۃ القصص 15)

ایوب علیہ السّلام کو مس کیا فرمایا:

مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ

ترجمہ: مجھے شیطان نے تکلیف و عذاب کے ساتھ مس کیا ہے ۔

 (سورۃ ص آیت41)

رسول اللہﷺ کی قرأت میں القاء کیا، اور یہ آیت اتری: 

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّلَا نَبِىٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰٓى اَلۡقَى الشَّيۡطٰنُ فِىۡۤ اُمۡنِيَّتِهٖ ‌ۚ 

ترجمہ: اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے جب بھی کوئی رسول یا نبی بھیجا تو اس کے ساتھ یہ واقعہ ضرور ہوا کہ جب اس نے (اللہ کا کلام) پڑھا تو شیطان نے اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی (کفار کے دلوں میں) کوئی رکاوٹ ڈال دی۔

(سورۃ الحج آیت 52)

جواب: حدیث عمرؓ میں شیطان کا فرار اس کے خوف اور عدم تسلط سے کنایہ ہے ،اس وجہ سے کہ حق تعالیٰ اپنے دوستوں کی حفاظت و حمایت فرماتے ہیں ارشادِ 

باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ

یقین رکھو کہ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔

(سورۃ الحجر 46)

فرار خوف کے معنیٰ میں مستعمل ہے، قرآن پاک میں ہے:

اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ

بے شک جس موت سے تم بھاگتے ہو۔

(سورۃالجمعة آیت 8)

مقصد یہ ہوا کہ سیدنا عمرؓ سے شیطان سخت خوف میں ہے۔ اور یہ شدت خوف انبیاء سے بھی ہے اس کے باوجود کبھی کبھی وسوسہ بھی ڈال دیتا ہے، جس طرح کہ رجوم آسمانی سے شدید ترین خوف کے باوجود شیاطین سرقت سمع کر لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ حِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ

ترجمہ:یہ ہر سرکش شیطان سے حفاظت

کے لئے ہے ۔

(سورۃ الصافات 7)

اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ

ترجمہ:البتہ جو کوئی چوری سے کچھ سننے کی کوشش کرے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔(سورۃ الحجر آیت18) 

مذکورہ بالا آیات جن میں انبیاء علیہم السلام کا اعتراف معصیت سمجھا جاتا ہے ظاہر پر نہیں ہیں بلکہ ان کا فرمانا کسر نفسی کے طور پر ہے کتب تفسیر میں اس کی تفصیلات موجود ہیں 

7):-اہلِ سنت روایت کرتے ہیں(صحیح بخاری جلد 1صفحہ530 مناقب الليل) کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں بہشت میں داخل ہوا تو بلال کے جوتوں کی آواز آگے سنی ، اس حدیث سے ابوبکر صدیقؓ کے غلام بلالؓ کی رسول اللہﷺ پر برتری ثابت ہورہی ہے (نعوذ باللہ)

جواب: یہ اعتراض بالکل باطل اور حدیث کے مفہوم نہ سمجھنے کی بناء پر ہے اس لئے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا بلالؓ کی مثالی صورت دیکھی تھی ۔ دوسرے ایمان داروں کی مثالی صورت میں بھی آپ نے اس طرح دیکھی تھیں۔ طبرانی میں ہے، ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا میں بہشت میں داخل ہوا، اور آپ نے آگے بلالؓ کی حرکت کی آواز سنی اور میں نے اپنی امت کے فقراء کو بہشت کے بالا تر مقام میں دیکھا ۔ ان کے مثالی ہونے پر یہ دلیل ہے کہ فقراء و اغنیاء امت قیامت کے بعد بہشت میں داخل ہوں گے۔

8):-اہلِ سنت روایت کرتے ہیں(طبرانی اوسط اس کی سند ضعیف ہے جمیع الفوائد جلد 2 صفحہ361 مناقب عمرؓ) کہ عرفہ کے دن رسول اللہﷺ نے عمرؓ کی طرف نظر کی، اور فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مباہات فرماتے ہیں، بالخصوص عمرؓ پر اس حدیث سے عمرؓ کی رسول اللہﷺ پر برتری  لازم آتی ہے، کیونکہ خود کو آپ نے خواص میں شما رنہ کیا ۔

جواب: اس حدیث سے یہ نتیجہ بالکل باطل ہے اس لئے کہ اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا عمر فاروقؓ کے علاوہ کسی اور پرخصوصی مباہات نہیں کرتے ، لہٰذا اس حدیث سے تو سیدنا عمرفاروقؓ کی سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر افضلیت بھی ثابت نہیں ہوتی ۔ انبیاء علیہم السّلام کی شان تو بہت اونچی ہے۔