روافض کا غلو
امام ابنِ تیمیہؒروافض کا غلو
روافض نے انبیاء کرام علیہم السلام اور ائمہ کی شان میں اس حد تک مبالغہ آمیزی کا مظاہرہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انھیں رب بنا لیا۔اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کو ترک کردیا جس کا حکم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔انبیاء علیہم السلام کی توبہ و استغفار کے ضمن میں جو نصوص وارد ہوئی تھیں ان کی تکذیب کرنے لگے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مساجد میں جمعہ و جماعت کا نام نہیں حالانکہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ انہیں بلند کیا جائے ‘ اور اللہ کے ذکر سے آباد کیا جائے ۔ ان کے ہاں ان مساجد کی کوئی توقیر و حرمت نہیں ۔اگر مسجدوں میں نماز پڑہتے بھی ہیں تو اکیلے اکیلے پڑھتے ہیں ۔ مگر قبروں پر [قبے ومزارات] بنا کر مقابر کی تعظیم و تکریم میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔مشرکین کی مشابہت میں ان پر اعتکاف بیٹھتے اور ان کا حج کرنے کے لیے ایسے ہی جاتے ہیں جیسا کہ بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے سفر کیا جاتاہے۔ اس کی حد یہ ہے کہ بعض شیعہ ان زیارتوں کو حج بیت اللہ کے مقابلہ میں ترجیح دیتے ہیں ۔ان میں ایسے بھی ہیں جو بیت اللہ کے حج کیساتھ ان مقابر کے حج سے مستغنی ہوتا ہے ؛ اسے گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں ۔ اور ایسے ہی نماز باجماعت اور جمعہ کے ساتھ ان کا معاملہ ہے ۔ یہ لوگ بالکل عیسائیوں کی طرح ہیں جو اللہ کی بندگی پر بتوں کی پوجا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ [جب کہ ]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد گرامی صحیح احادیث میں ثابت ہے؛ آپ نے فرمایا:
’’ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘آپ انکے فعل سے ڈراتے تھے ۔ [صحیح بخاری کتاب الصلاۃ، باب (۵۵) (ح:۴۳۵۔۴۳۶) صحیح مسلم۔ کتاب المساجد۔ باب النھی عن المسجد علی القبور (ح:۵۲۹،۵۳۱)]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پانچ روز قبل ارشاد فرمایا:
’’ آگاہ ہوجاؤ ! جولوگ تم سے پہلے ہوا کرتے تھے ‘ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے؛ تم ہر گزقبروں کو مسجدیں نہ بنانا ‘ میں تمہیں اس چیز سے منع کرتا ہوں ۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
’’وہ بدترین لوگ ہوں گے جن کی زندگی میں قیامت آئے گی اور جو لوگ قبروں کو مسجدیں بناتے ہوں گے۔‘‘[صحیح ابن حبان(۲۳۱۹)، مسند احمد(۱؍۴۰۵)]
یہ روایات امام احمد اور محدث ابن حبان نے اپنی صحیح میں ذکر کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا:
(( اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْنًا یُّعْبَدُ؛ اِشْتَدَّ غَضْبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ۔)) [موطا امام مالک(۱؍۱۷۲) کتاب قصر الصلاۃ فی السفر ح:۸۵، بدون السند، مسند احمد(۲؍۲۴۶)]
’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے اس قوم پر اللہ کا شدید غضب نازل ہوا جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘
شیعہ کے مشہور عالم شیخ المفید۔جو کہ موسوی اور طوسی کا شیخ ہے۔ نے ’’حج المشاہد‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں مخلوقات کی قبروں کی زیارت کو اس حج بیت اللہ سے تعبیر کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جائے قیام قرار دیا ہے ۔ [ اکابر شیعہ نے شیخ المفید کی کتاب کے علاوہ بھی متعدد کتب مقامات مقدسہ کی زیارت پر لکھی ہیں اور عوام کے یہاں اسی طرح مقبول و متداول ہیں جیسے قرآن کریم۔ شیعہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ مقامات مقدسہ کو مکہ مکرمہ۔ خانہ کعبہ اورسات آسمانوں کے مقابلہ میں افضل قرار دیا جائے۔ میں نے ایک مرتبہ فارسی زبان کے ایرانی رسالہ’’پرچم اسلام‘‘ مجریہ ۱۰؍محرم۱۳۶۶ھ بروز جمعرات میں حسب ذیل عربی اشعار اوران کا فارسی ترجمہ دیکھا تھا۔ اس رسالہ کا ایڈیٹر عبدالکریم فقیہی شیرازی ہے؛ شعر یہ ہیں : ہِیَ الطَّفُوْفُ فَطُفْ سَبْعًا بِمَعْنَاہَا فَمَا لِمَکَّۃَ مَعْنًی مِّثْلَ مَعْنَاہَا اَرْضٌ وَلٰکِنَّمَا السَّبْعُ الشِّدَادُ لَہَا دَانَتْ وَطَاْطَاَ اَعْلَاہَا لِاَدْنَاہَا (یہ اشعار اور ان کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے۔) الطفوف طف کی جمع ہے یہ ارض کربلا کا نام ہے۔ اس میں ایک فرضی قبر ہے جس کی تزئین و آرائش پر شیعہ نے کروڑوں روپیہ صرف کیا اور یہ کہہ کر اپنے لیے تسکین و اطمینان کا سامان بہم پہنچایا ہے کہ یہ نبیرۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر ہے یہ شاعر ان کفریات کے سامع و قاری کو اس فرضی قبر پر سات مرتبہ طواف کرنے کا حکم دیتا ہے اور بتاکید کہتا ہے کہ جو فضیلت ان کی تعمیر کردہ فرضی قبر کی بناء پر اس کربلا کو حاصل ہے وہ سرزمین مکہ کو خانہ کعبہ کی وجہ سے کہاں نصیب! پھر یہاں تک کہتا ہے کہ اس کی نشیب ترین زمین کے سامنے سات آسمانوں کی بلند ترین جگہ سجدہ ریز ہے۔غالباً اس کا اشارہ عرش اعظم کی جانب ہے۔ رسالہ کے ایڈیٹر عبد الکریم شیرازی کو یہ خطرہ دامن گیر تھا کہ شائد اس کے عام قارئین ان کفریہ اشعار کو سمجھنے پر قادر نہ ہوں اس لیے اس نے بکمال امانت و دیانت فارسی زبان میں اشعار کا ترجمہ کردیا۔ شیعہ کے علماء آج تک اپنے ائمہ کی قبروں کی زیارت کو حج سے زیادہ افضل قرار دیتے ہیں ۔ اور یہ سارا مواد اس دور میں نٹ پر خود شیعہ علماء کی زبانی تحریری اور تقریری ہر دو صورتوں میں مل سکتا ہے۔ آج بھی شیعہ کہتے ہیں : عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ خود عرغات میں اپنے مہمانوں کو ایسے چھوڑ کر حضرت حسین کی قبر کی زیارت کے لیے آتے ہیں ؛ اور زائرین قبر حسین کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیتے ہیں ۔]
بیت اللہ ہی وہ سب سے پھلا گھر ہے جسے اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا۔ پس اس کے علاوہ کسی اور گھر کا طواف نہیں کیا جاسکتا؛ اور صرف اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے گی؛ اور صرف بیت اللہ کے حج کا حکم دیا جائے گا۔
یہ بات یقینی طور پر ہر کوئی جانتا ہے کہ ان درگاہوں او ردرباروں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بھی ایسا حکم نہیں دیا جیسا کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے خود ساختہ کہانیاں گھڑلی ہیں ۔اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس عبادت کرنے کے طریقے مقرر کئے ہیں ۔بلکہ یہ تو مشرکین کا دین ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ﴾
[نوح۲۳]
’’اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو چھوڑنا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : ’’ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بزرگ تھے۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو لوگ ان کی قبروں پر بیٹھ گئے ۔ جب ایک لمبا زمانہ گزر گیا تو انہوں نے ان کی مورتیاں بنالیں ‘ او رپھر ان کی بندگی کرنے لگے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’ تم قبروں پر نہ بیٹھنا اور نہ ہی ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا۔ ‘‘ [مسلم ۳؍۶۶۸۔ِکتاب الجنائِزِ، باب النہیِ عنِ الجلوسِ علی القبرِ والصلاِۃ علیہِ ؛ سننِ أبِی داود 3؍294 ِ کتاب الجنائِزِ، باب فِی کراہِیۃِ القعودِ علی القبرِ ؛ سننِ التِرمِذِیِ 2؍257؛ ِکتاب الجنائِزِ، باب ما جاء فِی کراہِیۃِ الوطئِ علی القبورِ والجلوسِ علیہا؛ سننِ النسائِیِ 2؍53؛ ِکتاب القِبلۃِ، باب النہیِ عنِ الصلاِۃ إِلی القبرِ) ؛ المسندِ (ط. الحلبِیِ4؍135.۔ ]
حضرت ابوہیاج اسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا کہ تو کسی صورت کو مٹائے بغیر نہ چھوڑنا اور نہ کسی بلند قبر کو برابر کئے بغیرچھوڑنا۔‘‘[صحیح مسلم: کتاب جنازوں کا بیان ؛باب قبر کو برابر کرنے کے حکم کے بیان میں ؛ ح۲۲۳۶]
یہاں پر مورتیوں کو مٹانے اور قبروں کو برابر کرنے کا ایک ہی حکم بیان ہوا ہے۔اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں شرک پھیلانے کا ذریعہ ہیں ۔ جیسا کہ صحیحین میں حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے‘ انہوں نے ایک گرجا ارض حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں خوبصورت تصویریں تھیں ۔جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرد مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں یہ تصویریں بنا دیتے، یہ لوگ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین خلق ہوں گے۔‘‘[رواہ البخاري ۱؍۸۹؛ مسلم ۱؍۳۷۵۔]
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں مسجدوں کو آباد کرنے کا حکم دیاہے۔یہاں پر درگاہوں کا کہیں ذکر تک نہیں ۔ رافضہ نے اللہ کے دین کو ہی بدل ڈالا ۔ انہوں نے مسلمانوں کی مخالفت میں مشرکین کے دو بدو چلتے ہوئے درگاہیں آباد کیں ‘ اور مساجد کو ویران کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ [الأعراف۲۹]
’’ فرما دیجیے کہ ’’میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے اور اس بات کا کہ ہر مسجد کے پاس اپنی توجہ ٹھیک اسی کی طرف رکھو۔‘‘
یہاں پر ہر درگاہ نہیں فرمایا ‘ بلکہ مسجد کا نام لیا ہے۔ نیز فرمان الٰہی ہے :
﴿مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِِمْ بِالْکُفْرِ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ وَ فِی النَّارِہُمْ خٰلِدُوْنَ٭اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ ﴾ [التوبۃ ۱۷۔۱۸]
’’لائق نہیں تھاکہ مشرک اللہ تعالی کی مسجدوں کو آباد کریں ۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں ؛ ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں ۔اللہ کی مسجدوں کی آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ، نمازوں کے پابند ہوں ، زکوٰۃ دیتے ہوں ، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں ، بیشک یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے درگاہوں کا ذکر نہیں کیا ‘ بلکہ یہ حقیقت ہے کہ درگاہوں کو آباد کرنے والے غیر اللہ سے ڈرتے ہیں ‘ اور ان سے اپنی امیدیں وابستہ کیے رہتے ہیں ۔ جب کہ اللہ کا حکم ہے :
﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا﴾ [الجن ۱۸]
’’اور بیشک مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہیں پس تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔‘‘
یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ درگاہیں بھی اللہ کے لیے ہوتی ہیں ۔ بلکہ مساجد کا فرمایا۔ نیزمساجد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا﴾ [الحج۴۰]
’’ وہ مسجدیں ہیں جہاں اللہ کا نام باکثرت لیا جاتا ہے۔‘‘
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے درگاہوں کا نام تک نہیں لیا ۔ نیز فرمان الٰہی ہے :
﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ﴾ [النور ۳۶]
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔‘‘
دین اسلام میں یہ بات اضطراری طور پر تواتر کے ساتھ سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے نمازوں ‘ باجماعت نمازوں ‘ جمعہ اور جماعت اور عیدین قائم کرکے اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے کو مشروع ٹھہرایاتھا۔ آپ نے اپنی امت کو ہر گز یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی نیک انسان یا نبی کی قبر پر مسجد بنائیں ‘ یا وہاں پر درگاہیں قائم کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں کسی نبی یا کسی نیک انسان کی قبر پر ہر گز نہ ہی کوئی مقبرہ ہوتا تھااورنہ ہی کچھ؛ نہ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر پر ؛ نہ ہی کسی دوسرے نبی کی قبر پر۔
بلکہ مسلمانوں نے کتنی ہی باربلاد ِ شام کا سفر کیا ۔حضرت عمر ؛ حضرت عثمان ‘ حضرت علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کئی بار شام گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتح بیت المقدس کے موقع پر شام گئے ‘ تاکہ آپ اہل ذمہ کے ساتھ معاہدہ کرکے بیت اللہ کی چابیاں وصول کرلیں ۔ پھر آپ وہاں سے سرغ کے علاقہ میں بھی گئے۔ان تمام چکروں میں کبھی کسی ایک نے بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی قبرکی زیارت کے لیے کوئی سفر نہیں کیا ۔ اور نہ ہی وہاں پر کوئی مقبرہ یا درگاہ موجود تھے۔ بلکہ وہاں پر ایک عمارت ہوا کرتی تھی جو ایسے گول اور بغیر دروازہ کے تھی جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حجرہ شریف۔بنوامیہ اور بنو عباس کے دور میں یہ سلسلہ ایسے ہی رہا ۔ یہاں تک کہ پانچویں صدی ہجری کے آخر میں جب ان علاقوں پر عیسائی غالب آگئے تو انہوں نے وہاں پر ایک گرجا بنالیا ۔ اور اس پرانی عمارت میں سوراخ کرکے ایک دروازہ بنالیا ۔ اس لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ دروازہ بنایا نہیں گیا ‘ بلکہ وہاں پر نقب لگائی گئی ہے ۔
پھر جب مسلمانوں نے یہ علاقے عیسائیوں سے واپس حاصل کر لیے تو بعض لوگوں نے وہاں پر مساجد بنالیں ۔ [ایسا صحابہ کے دور میں نہیں تھا ‘ بلکہ بعد میں ہوا ہے] اس لیے کہ صحابہ کرام جب کسی کو دیکھتے کہ وہ قبر پر مسجد بنا رہا ہے تو اسے منع فرمایا کرتے تھے۔
جب شہر تستر میں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر ظاہر ہوئی توحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا ؛ تو آپ نے جواب دیا کہ : دن کے وقت تیرہ قبریں کھودی جائیں ؛ اور رات کے وقت ان تیرہ میں سے کسی ایک میں دفن کردیا جائے ‘ تاکہ لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں ۔اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ لوگ کسی ایسی جگہ کو متبرک سمجھ کر نماز پڑھ رہے ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہو‘ تو آپ اس سے منع فرمایا کرتے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے :
’’ تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء کے نشانات و مقامات کوسجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے۔جو انسان وہاں پر نماز کا وقت پالے ؛ اسے چاہیے کہ نماز پڑھ لے ‘ ورنہ وہاں سے گزر جائے ۔‘‘[تاریخ الطبری ؍سترھویں سال کے واقعات ]
یہ مسئلہ اور اس جیسے دوسرے مسائل جن سے توحید ثابت ہوتی ہو‘جو کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مرسلین کاپیغام ہے ۔ان میں سنن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں ۔ اسلام دو بنیادوں پر قائم ہے :
۱۔ یہ کہ ہم اللہ معبود برحق کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کریں ۔
۲۔ اور ہم اللہ تعالی کی بندگی اس طریقہ کے مطابق کریں جو اس نے مشروع ٹھہرایا ہو؛ بدعات کیساتھ اللہ کی بندگی نہ کریں ۔
نصاری ان دونوں اصولوں سے نکل چکے ہیں ۔یہی حال اس امت کے اہل بدعت اور روافض کا ہے۔نیز عیسائی یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی اتباع کرنے والے حواری ابراہیم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کرام ومرسلین سے افضل ہیں ۔ان لوگوں کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حواریین سے بالمشافہ خطاب کیا تھا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ہے ۔ نیز یہ بھی کہتے ہیں : حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ۔ یہی حال رافضیوں کا ہے۔ وہ اپنے بارہ ائمہ کو سابقین اولین مہاجرین و انصار سے افضل قرار دیتے ہیں ۔ ان کے غالی فرقہ کے لوگ کہتے ہیں : ائمہ انبیاء کرام سے بھی افضل ہیں ۔ اس لیے کہ یہ لوگ ائمہ کے متعلق ویسے ہی الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں ۔
عیسائی کہتے ہیں :امور دین پادریوں اور درویشوں کے سپرد ہیں ؛ وہ جس چیز کوحلال کردیں وہ حلال ہے ‘ اور جس چیز کوحرام قرار دیدیں وہ حرام ہے ۔ اور دین وہی چیز ہے جس کو وہ شریعت مقرر کردیں ۔
رافضی بھی یہی کہتے ہیں : دین کے تمام امور ائمہ کے سپرد ہیں ‘ حلال وہی ہے جسے وہ حلال قرار دیں ‘ اور حرام وہی ہے جسے وہ حرام قرار دیں ۔ اور دین وہی چیز ہے جس کو وہ شریعت مقرر کردیں ۔
رہے وہ لوگ جو شیعہ غلو کا شکار ہوئے‘ جیسے اسماعیلیہ ؛ جو کہتے ہیں کہ حاکم ہی الہ ہوتا ہے ؛ اور اس کے ساتھ ہی اپنے ائمہ کی الوہیت کے بھی قائل ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ: محمد بن اسماعیل محمد بن عبد اللہ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی شریعت کا رہبر و شیخ ہے۔ان کے علاوہ بھی ان کے کچھ ایسے عقائد ہیں جو غالیہ اور رافضہ سے لیے گئے ہیں ۔ان میں سے اکثر لوگ یہود ونصاری اور مشرکین کے علاوہ دوسرے کفار سے بھی بدتر ہیں ‘اور اپنے آپ کو شیعیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ اور اپنے مذاہب کااظہار بھی کرتے ہیں ۔