Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نبی ﷺ کے چہرہ انور کی روشنی سے سوئی ملنے کا واقعہ (تحقیق)

  خادم الحدیث سید محمد عاقب حسین

نبیﷺ کے چہرہ انور کی روشنی سے سوئی ملنے کا واقعہ۔ (تحقیق)

یہ واقعہ اکثر خطباء اور واعظین بیان کرتے ہیں اور فیضانِ عائشہ صدیقہؓ نامی کتاب میں صفحہ، 483 پر بھی اس واقعے کو شامل کیا گیا ہے مگر یہ واقعہ جھوٹا ہے یہ روایت موضوع ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
اس واقعے کو باسند 3 آئمہ کرام نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔
  1.  امام ابوالقاسم ابنِ عساکرؒ م571ھ
  2.  ابوالقاسم اسماعیل اصبہانیؒ م535ھ 
  3.  ابو العباس احمد المقدسیؒ م623ھ
تینوں اسناد میں علت مشترکہ ہے جس کی بنا پر یہ روایت موضوع ہے۔
أخبرنا أبو محمد الحسين بن أحمد السمرقندی الحافظ بنيسابور أنا أبو إبراهيم إسماعيل بن عيسىٰ بن عبد الله التاجر السمرقندی بها ثنا أبو الحسن علی بن محمد بن يحيىٰ بن الفضل بن عبد الله الفارسی ثنا أبو الحسن محمد بن علی بن الحسين الجرجانی الحافظ بسمرقند ثنا مسعدة بن بكر الفرغانی بمرو وأنا سألته فأملى علی بعد جهد ثنا محمد بن أحمد بن أبی عون ثنا عمار بن الحسن ثنا سلمة بن الفضل عن محمد بن إسحاق بن يسار عن يزيد بن رومان وصالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشةؓ قالت استعرت من حفصة بنتِ رواحةؓ إبرة كنت أخيط بها ثوب رسول اللهﷺ فسقطت عنی الإبرة فطلبتها فلم أقدر عليها فدخل رسول اللهﷺ فتبينت الإبرة لشعاع نور وحهه فضحكت فقال يا حميراءؓ بم ضحكت قلت كان كيت وكيت فنادى بأعلى صوته يا عائشةؓ الويل ثم الويل ثلاثا لمن حرم النظر إلى هذا الوجه۔
(كتاب دلائل النبوة لإسماعيل لأصبهانی: صفحہ، 117)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے سیدہ حفصہ بنتِ رواحہؓ سے ایک سوئی ادھار لی جس کے ساتھ میں رسول اللہﷺ کے کپڑے سی رہی تھی وہ سوئی گر گئی میں نے تلاش کیا لیکن نہ مل سکی رسول اللہﷺ تشریف لائے تو آپﷺ‎ کے چہرے کے نور سے وہ سوئی چمک اٹھی میں ہنسنے لگی رسول اللہﷺ نے فرمایا حمیراؓ آپ کیوں ہنسی ہیں؟ میں نے واقعہ سنایا آپﷺ نے بلند آواز سے پکار کر تین مرتبہ فرمایا عائشہؓ اس شخص کے لیے ویل ہے جو اس چہرے کو دیکھنے سے محروم رہا ہر مؤمن اور ہر کافر میرے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے۔
(كتاب تاريخِ دمشق لابنِ عساكر: جلد، 3 صفحہ، 310)
(كتاب جزء من تخريج أحمد بن عبد الواحد البخاری: صفحہ، 12)
نوٹ: ترجمہ تمام طریق کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے 
اس روایت کی سند میں "مسعدة بن بكر الفرغانی" متھم بالوضع راوی ہے یعنی اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے اور ائمہ کرام نے اس کے روایت کردہ اس قصے کو واضح طور پر موضوع اور باطل قرار دیا۔
امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ م748ھ نے فرمایا:
مسعدة بن بكر الفرغانى عن محمد بن أحمد ابنِ عون بخبر كذب۔
ترجمہ: مسعدۃ بن بکر نے محمد بن احمد ابنِ عون کے واسطے سے جھوٹی روایت بیان کی۔
(كتاب ميزان الاعتدال: صفحہ، 8464)
نوٹ: محمد بن احمد ابنِ عون کے واسطے سے اس نے یہی روایت بیان کی ہے جو اوپر گزر چکی۔
اسی طرح امام ابنِ عراق الکنانیؒ م963ھ نے بھی اس روایت کو جھوٹ قرار دیا:
مسعدة بن بكر الفرغانی عن محمد بن أحمد بن أبی عون بخبر كذب۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة: جلد، 1 صفحہ، 117)
اسی طرح امام ابو الحجاج المزیؒ م742ھ نے بھی اس روایت کو باطل قرار دیا:
كل حديث فيه الحميراء باطل إلا حديثا فی الصوم فی سنن النسائی
ترجمہ: ہر وہ حدیث جس میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو حمیرا کہہ کر پکارا گیا ہے جھوٹی ہے سوائے سنن نسائی کی حدیث کے وہ صحیح ہے اور اس کے علاوہ بھی ایک دو اور روایتیں ہیں جو کہ مقبول ہیں جن کی ائمہ نے صراحت کر دی ہے۔
امام بدر الدین زرکشیؒ اور حافظ ابنِ کثیرؒ نے امام مزیؒ کی موافقت کی
(كتاب الإجابة لإيراد ما استدركته عائشةؓ على الصحابة ط المكتب الإسلامی: صفحہ، 58)
علامہ ابنِ قیم الجوزیہؒ نے بھی یہی فرمایا:
(كتاب المنار المنيف فی الصحيح والضعيف: صفحہ، 10)
زیرِ بحث روایت میں بھی سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو حمیرا کہہ کر پکارا گیا ہے اور یہ ان روایات میں سے نہیں جو کہ مقبول ہیں لہٰذا امام مزیؒ٬ امام بدر الدین زرکشیؒ٬ اور حافظ ابنِ کثیرؒ اور علامہ ابنِ قیم جوزیہؒ کے نزدیک بھی یہ روایت باطل ہے۔
مسعدة بن بكر الفرغانى کی ایک اور روایت کو ذکر کرکے امام دارقطنیؒ نے بھی اس روایت کو جھوٹا قرار دیا اور شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے موافقت کی۔
(كتاب لسان الميزان: جلد، 6 صفحہ، 22)
نیز روایت کی سند میں اور بھی علتیں ہیں تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ روایت ائمہ کرام کی تصریحات سے اور سند میں واقع علت کی بنا پر موضوع ہے اس کی نسبت نبی کریمﷺ کی طرف کرنا حرام ہے۔
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی۔
مؤرخہ 5 ذو الحجہ 1443ھ
ہم نے 5 ذو الحجہ 1443ھ کو ایک تحقیق لکھی جس میں نبیﷺ کی طرف منسوب ایک جھوٹی روایت کی نشاندہی کی اور اس روایت کو اصول محدثین پر اور کلام محدثین کی روشنی میں موضوع ثابت کیا ابھی دو دن پہلے ہمارے ایک عزیز نے ہمیں ایک پی ڈی ایف سینڈ کی جس میں مفتی عبید رضا مدنی صاحب نے ہمارے دلائل کا جواب دینے کی اور اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی ، ہم اپنی اس پی ڈی ایف میں مفتی عبید رضا صاحب کی پی ڈی ایف کے صفحات بھی نقل کریں گے تاکہ احباب جان سکیں اور پھر ان کے اصولِ حدیث اور منہج محدثین سے ناواقفیت پر مبنی کلام کا تعاقب بھی کریں گے لہٰذا سب سے پہلے ہم اپنی گذشتہ تحقیق یہاں نقل کریں گے اس کے بعد اس تحقیق پر جو عبید رضا صاحب نے رد لکھنے کی کوشش کی وہ نقل کر کے جواب دینا شروع کریں گے۔