جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم: اہل سنت کتب
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓاہل سنت کی تاریخ کی ایک اور معتبر کتاب تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ) کا عکس ملاحظہ فرمائیں۔ جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ
۔۔۔۔۔۔ جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو کفن دیا گیا اور آپ اپنی چار پائی پر تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما آئے اور ان کے ساتھ انصار و مہاجرین کے اتنے آدمی تھے جو گھر میں سما سکتے تھے۔
ان دونوں حضرات نے کہا السلام علیک ایھالنبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ اور انصار مہاجرین نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عہنھما کی طرح سلام کہا پھر انہوں نے صفیں باندھ لیں اور ان کا کوئی امام نہ تھا اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پہلی صف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے لکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔ وہ (صحابہ) تین دن آپ کی نماز جنازہ پڑھتے رہے۔
تو یہاں یہ بات دوپہر کے چمکتے سورج کی طرح کتنی واضح ہو گئی کہ تمام صحابہ اور خصوصا حضرت ابوبکر رضہ و حضرت عمر رضہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز پہلی صف میں کھڑے ہوکر ادا کی
اور پھر یہ بھی وضاحت ہوگئی کہ تین دن تک مسلسل لوگ آتے رہے اور جنازہ نماز پڑھتے رہے ۔ تو ثابت ہوا کہ دو دن یا تین دن کی جو تاخیر تدفین میں ہوئی اس کی اھم وجہ بھی نماز جنازہ کا ادا کرنا تھا۔
نوٹ : حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک بہت چھوٹا تھا اور اندر زیادہ لوگ نہیں جاسکتے تھے بس زیادہ سے زیادہ 10 یا 11 لوگ اندر جاسکتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز لاکھوں صحابہ کرام نے ادا کرنی تھی۔ جس کی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوئی جس کو دشمنان اسلام رافضیوں نے ایک ہنگامہ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کردیا۔ تاکہ رسالت کے چشم دید گواہوں کو ہی مشکوک بنا کر اسلام کو ہی ختم کیا جائے۔ (استغفر اللہ)
عکس
شیعہ حضرات اکثر سادہ لوح سنیوں میں اس قسم کی بے بنیاد باتیں پھیلاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد، حضرت ابوبکر رضہ و حضرت عمر رضہ اور باقی صحابہ نے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ چھوڑ کر خلافت حاصل کرنے کے لئے لگ گئے۔
اور ہمارے سادہ سنی مسلمان بھی بغیر تحقیق کئے شیعوں کے ان مکر وفریب سے متاثر ہوکر شیعہ بن جاتے ہیں اور اپنی عاقب خراب کر بیٹھتے ہیں۔
لیکن ہم ان شاء اللہ اس البم میں اہل سنت اور اہل تشیع کے بہت ساری کتابوں سے یہ ثابت کریں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ نماز تمام صحابہ اور خصوصا حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضہ نے ادا کیا۔
اس پوسٹ میں اہلسنت کی مشہور کتاب طبقات ابن سعد کا ایک عکس ملاحظہ فرمائیں کہ جس میں چودہ (14) مختلف روایتوں میں لکھا ہوا موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز تمام صحابہ مہاجرین و انصار، بلکہ عورتوں نے بھی ادا کیا۔ اور
خصوصا حضرت ابوبکر رضہ اور حضرت عمر رضہ نے بھی حضور ﷺ کی جنازہ کی نماز ادا کی۔
اور ان مختلف 14 راویوں میں جن میں حضرت علی رضہ ، حضرت حسن رضہ اور عبداللہ بن عباس بھی شامل ہیں۔ جو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز تمام صحابہ رضہ نے ادا کی۔
اب اگر اتنی واضح حقیقت کے بعد بھی اگر کوئی نہ مانے تو پھر اس آیت کا مصدا ہی بن سکتا ہے۔
[خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ]
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
تاریخ کی سب سے معتبرترین کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ ۔۔۔ میں بھی اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ کی نماز تمام صحابہ رضہ (مردوں عورتوں اور بچوں) نے ادا کی۔
نوٹ: ایک بات کی میں وضاحت کرتا چلوں وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کوئی یہ کہہ دے کہ جنازہ کی نماز عورتوں پر فرض نہیں تو یہ جنازہ عورتوں نے کیسے ادا کیا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک جنازہ کی نماز عورتوں پر فرض نہیں ہے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ مبارک اس طرح ادا نہیں کیا گیا جس طرح عام لوگوں کا ادا کیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ مبارک میں نہ کوئی امام بنتا تھا نہ کوئی مغفرت کی دعا کی جاتی تھی جس طرح عام جنازوں میں ہوتی ہے۔ بلکہ اس میں صرف اور صرف درود پاک پڑھا جاتا تھا اور یہی نماز جنازہ تھا۔