قرآن کریم کی موافقت، اسباب نزول پر خصوصی توجہ، اور بعض آیات کی تفسیر
علی محمد الصلابیقرآنِ کریم کی موافقت، اسباب نزول پر خصوصی توجہ، اور بعض آیات کی تفسیر
1. قرآنِ کریم کی موافقت
سیدنا عمرؓ صحابہ کرامؓ میں سب سے زیادہ دلیر اور بہادر تھے، آپﷺ سے کسی نامانوس عمل کو صادر ہوتا دیکھتے تو پوچھ لیتے، مکمل صداقت اور صاف گوئی کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کرتے، آپ کے کمال دانائی اور قرآنِ کریم کے مقاصد پر عبور و نکتہ فہمی کی یہ اہم دلیل ہے کہ بعض مواقع پر آپ کے نظریہ اور رائے کی تائید کے موافق قرآنِ مجید کا نزول ہوا۔ سیدنا عمرؓ کا بیان ہے: میں نے اللہ تعالیٰ کی تین چیزوں میں موافقت کی۔ یا(یہ الفاظ ہیں) میں نے اپنے ربّ کی تین چیزوں میں موافقت کی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں تو بہتر ہو گا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نازل کر دیا۔ اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس نیک اور بد سبھی لوگ آتے ہیں، لہٰذا اگر آپﷺ امہات المؤمنین کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے تو بہتر ہوتا۔ تو اللہ نے پردہ سے متعلق آیات نازل فرما دیں۔ اور مجھے خبر ملی کہ نبیﷺ نے اپنی بعض بیویوں کی سرزنش کی ہے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا: اگر تم اپنی حرکت سے باز آجاؤ (تو بہتر ہے) ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عطا کرے گا۔ یہاں تک کہ میں آپ کی ایک بیوی کے پاس آیا، تو اس نے کہا: اے عمر! کیا رسول اللہﷺ میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اپنی بیویوں کو سمجھائیں، یہاں تک کہ آپ انہیں سمجھا رہے ہیں؟ (عمر بن الخطاب: علی الخطیب: صفحہ، 51) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنۡ طَلَّقَكُنَّ اَنۡ يُّبۡدِلَهٗۤ اَزۡوَاجًا خَيۡرًا مِّنۡكُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبۡكَارًا ۞
(سورۃ التحريم: آیت، 5)
’’اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمہیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔‘‘
2. منافقین پر نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کی موافقت
سیدنا عمرؓ کا بیان ہے: جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو رسول اللہﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلایا گیا، آپ تشریف لے گئے، جب آپ نے نماز پڑھانے کی نیت کی تو میں آپ کے سامنے کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی پر نماز جنازہ پڑھیں گے؟ جس نے فلاں موقع پر ایسا ایسا کہا تھا اور فلاں وقت ایسا ایسا کیا تھا؟ میں اس کے برے کردار کو گنواتا رہا اور رسول اللہﷺ مسکراتے رہے، یہاں تک کہ جب میں نے آپ سے بہت کہہ ڈالا تو آپ نے فرمایا:
أَخِّرْ عَنِّیْ یَا عُمر إِنِّیْ خُیِّرتُ فَاخْتَرْتُ۔
ترجمہ: ’’اے عمر! مجھ سے پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اختیار دیا گیا تو میں نے (مناسب عمل) اختیار کیا۔‘‘
مجھ سے کہا گیا:
اِسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ سَبۡعِيۡنَ مَرَّةً فَلَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَهُمۡ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ ۞
(سورۃ التوبة: آیت، 80)
ترجمہ: ’’ان کے لیے بخشش مانگ، یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ، اگر تو ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کرے گا تو بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
(فَلَوْ أَعْلَمُ أَنِّیْ اِنْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِیْنَ غُفِرَلَہٗ زِدْتُ۔)
یعنی ’’اگر میں جانتا کہ میرے ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے پر وہ بخش دیا جائے گا تو میں اور زیادہ استغفار کرتا۔‘‘
پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور اس کے پیچھے اس کی قبر تک گئے یہاں تک کہ اس کی تدفین سے فارغ ہو گئے۔ یہ منظر اور پھر آپ کے سامنے اپنی جرأت دیکھ کر میں خود تعجب میں پڑ گیا۔ (حالانکہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں) اللہ کی قسم! ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ یہ دو آیات نازل ہوئیں:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ۞
(سورۃ التوبة: آیت، 84)
ترجمہ: ’’ان میں سے کوئی مرجائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔‘‘
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے پھر کبھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھی، نہ اس کی قبر پر گئے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔ (صحیح بخاری: کتاب التفسیر: حدیث، 4213)
3. بدري قیدیوں کے بارے میں موافقت
سیّدنا عمرؓ کا کہنا ہے: جب غزوۂ بدر ہوا اور اللہ نے مشرکوں کو شکست دے دی ۔ان کے ستر آدمی قتل کر دئیے گئے اور ستر قیدی بنا لیے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے مشورہ طلب کیا۔ آپ نے مجھ سے کہا: اے ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے کہا: میری رائے ہے کہ فلاں آدمی، جو آپ کا قریبی تھا، کو میرے حوالے کر دیجئے، میں اس کی گردن ماروں، اور عقیل کو علی کے حوالے کر دیجیے، وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو حمزہ کے حوالے کر دیجیے وہ اس کی گردن ماریں، تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی محبت اور رواداری نہیں ہے۔ یہ لوگ تو کفار کے لیڈر اور سردار ہیں، لیکن آپﷺ نے میری رائے کو پسند نہیں کیا، اور ان سے فدیہ لے لیا۔ دوسرے دن میں علی الصبح آپﷺ کے پاس آیا تو آپ اور ابوبکر دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اور آپ کے دوست کیوں رو رہے ہیں؟ اگر میں وجہ جان سکوں تو میں بھی روؤں، اور اگر رو نہ سکا تو آپ دونوں کو روتے دیکھ کر رونے کی کوشش کروں؟ آپﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِیْ عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنَ الْفِدَائِ ، وَلَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ۔
ترجمہ: یعنی ’’اس وجہ سے کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ لینے کا مشورہ دیا، تمہارا عذاب میرے سامنے (قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس درخت سے بھی قریب کرکے دکھایا گیا۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی
مَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗۤ اَسۡرٰى حَتّٰى يُثۡخِنَ فِى الۡاَرۡضِ تُرِيۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡيَا وَاللّٰهُ يُرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞ لَوۡلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمۡ فِيۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ ۞
(سورۃ الأنفال: آیت، 67اور68)
ترجمہ: پیغمبر کو نہیں چاہیے کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک ملک میں (کافروں کو) خوب قتل نہ کرے تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ (تم کو) آخرت (کا ثواب دینا ) چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے حکم والا۔اگر اللہ تعالیٰ آگے سے ایک بات نہ لکھ چکا ہوتا توتم نے جو (مال قیدیوں سے) لیا اس (قصور ) میں تم پر بڑا عذاب اترتا۔‘‘
پھر آئندہ سال اُحد میں ان مسلمانوں میں سے ستر شہید ہوئے، اور آپﷺ کے صحابہؓ نے میدان چھوڑ دیا، آپﷺ کے رباعی دانت ٹوٹ گئے، خود آپ کے سر میں دھنس گئی، آپ کے چہرہ سے خون بہتا رہا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی
اَوَلَمَّاۤ اَصَابَتۡكُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَيۡهَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰى هٰذَاؕ قُلۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِكُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
(سورۃ آل عمران: آیت، 165)
(صحیح مسلم: حدیث: 2400 اخبار عمر: الطنطاویات: صفحہ، 380 اور 381 )
ترجمہ: ’’(کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دوگنی پہنچا چکے تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آ گئی؟ آپ کہہ دیجیے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
4. استئذان (اجازت طلبی) کے بارے میں موافقت
نبی کریمﷺ نے ایک انصاری بچے کو دوپہر کے وقت سیدنا عمر بن خطابؓ کو بلانے کے لیے بھیجا، وہ آپ کے پاس آیا، آپ سو رہے تھے اور جسم کا کچھ حصہ بے پردہ تھا۔ تو آپ نے دعا کی:
اَللّٰہُمَّ حَرِّمِ الدُّخُوْلَ عَلَیْنَا فِیْ وَقْتِ نَوْمِنَا۔
ترجمہ: ’اے اللہ! ہمارے سونے کے وقت میں کسی کی آمد کو حرام کر دے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اجازت طلبی کے بارے میں امر ونہی کے احکامات نازل فرما دیں۔
پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِيَسۡتَـاْذِنۡكُمُ الَّذِيۡنَ مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ وَالَّذِيۡنَ لَمۡ يَـبۡلُغُوا الۡحُـلُمَ مِنۡكُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوةِ الۡفَجۡرِ وَحِيۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِيَابَكُمۡ مِّنَ الظَّهِيۡرَةِ وَمِنۡ بَعۡدِ صَلٰوةِ الۡعِشَآءِ ۞
(سورۃ النور: آیت، 58)
ترجمہ: ’’ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین اوقات میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے: نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔‘‘