جمہور علماء کے اصول اجتہاد اور ماخذ سوم اجماع
ڈاکٹر طاہر الاسلام عسکریجمہور علما کے اصول اجتہاد اور ماخذ سوم اجماع
جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کے ہاں اصول اجتہاد قرآن ، سنت، اور اجماع ہیں۔ قیاس کو اسلوبِ اجتہاد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دیگر اسالیب میں استحسان،استصلاح، استصحاب وغیرہ شامل ہیں۔
ماخذ سوم:اجماع
اجماع مصادر تشریع اسلامی میں تیسرا ماخذ ہے۔ یہ جمع سے باب افعال ہے ؛ شرح الکوکب المنیر میں ہے:
"يقال: أجمع القوم على كذا؛ أي: اتفقوا عليه، فكل أمر من الأمور اتفقت عليه طائفة فهو إجماع في إطلاق أهل اللغة."
[شرح الکوکب المنیر،2؍211]
جب کہا جاتا ہے کہ قوم کا فلاں معاملے پر اجماع ہوا تو معنی ہوتا ہے کہ وہ اس پر متفق ہو گئی،چنانچہ کوئی بھی معاملہ جس پر کوئی گروہ متفق ہو جائے وہ اہل لغت کے ہاں اجماع کا مصداق ہے۔
شوافع کے ہاں اجماع کا مفہوم
قاضی ابویعلی(المتوفی 485ھ )اجماع کی تعریف کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
"هو اتفاق علماء العصر على حکم النازلة."
”کسی بھی زمانے کے علماء کا کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔“
امام الحرمین الجوینی (المتوفی 487ھ ) اجماع کے متعلق رقم کرتے ہیں۔
"هو اتفاق الأمة أو اتفاق علمائها على کلم من أحکام الشریعة."
[التخلیص، 3؍5، الشرح الکبیر علی الورقات لاحمدبن قاسم، 2؍351]
امت یا علمائے امت کا کسی شرعی مسئلہ کے حکم پر اتفاق اجماع ہے۔“
(ابوحامد الغزالی) المتوفی 505 ھ اجماع کے متعلق فرماتے ہیں۔
"فَإِنَّمَا نَعْنِي بِهِ اتِّفَاقَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ - صلی اللّٰه علیہ وسلم - خَاصَّةً عَلَى أَمْرٍ مِنْ الْأُمُورِ الدِّينِيَّة."
[المستصفیٰ، 1؍ 173]
”امت محمدیہ کا دینی معاملات میں سےکسی معاملے پراتفاق اجماع کہلاتا ہے۔“
(فخرالدین رازی) المتوفی606ھ اجماع کی تعریف یوں رقم فرماتےہیں۔
"هو اتفاق أهل الحل والعقد من أمة محمد على أمر من الأمور."
[المحصول ،2؍3]
’’امت محمد کےاہل حل وعقد کاکسی معاملے پراتفاق اجماع ہے۔‘‘
سیف الدین الآمدی(المتوفی 631ھ) اجماع کے متعلق رقم طراز ہیں۔
"هو اتفاق جملة أهل الحل والعقد من أمة محمد في عصر من الأعصار على حکم واقعة من الوقائع."
[الاحکام ، 1؍196]
’’امت محمدیہ کےتمام اہل حل و عقد کا کسی بھی زمانے میںکسی واقعہ کےبارے کسی حکم پراتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
القاضی عبداللہ بن عمرالبیضاوی ( المتوفی 685ھ) وہ اجماع کی تعریف کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
"اتفاق أهل الحل والعقد من أمة محمد على أمر من الأمور."
[منھاج الوصول بشرح نھایۃ السول، 2؍273]
’’امت محمدیہ کا اہل حل و عقد کا کسی معاملے میں اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
الصفی الھندی( المتوفی 715 ھ) وہ اجماع کی تعریف کرتے ہیں:
"اتفاق المجتهدین في فن ما الموجودین في کل عصر من أمة محمد على أمر ما من ذلك الفن."
[الفائق فی اصول الفقہ ، 3؍ 214]
ابن السبکی( المتوفی 771ھ )اجماع کی تعریف رقم کرتے ہیں:
"اتفاق مجتهدی الأمة بعد وفات محمد في عصر أی أمر کان."
[جمع الجوامع بشرح الجلال المجلی ، وحاشیۃ النبانی ، 2؍176]
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کااتفاق کسی بھی زمانہ میں کسی بھی مسئلہ پر‘‘
علی ابومنصور جمال الدین الحسن بن یوسف(المتوفی 726ھ) وہ اجماع کی تعریف میں رقم طراز ہیں:
"اجماع أمة محمد وآله حق ، أما على قولنا فظاهر ، لأن توحب المعصوم في کل زمان ، وهو سید الأمة فالحجة في قوله."
[مبادی والاصول ، 190]
”امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کااجماع حق ہے بلکہ ہمارے قول کے مطابق ثابت اورحجت بھی ہے کیونکہ ہم ہرزمانہ میں معصوم کے وجود کو واجب تسلیم کرتے ہیں جو کہ امت سردار ہے اور اپنے ہر قول میں حجت ہے۔“
الشیخ محمد الخضری الباجوری( المتوفی 1345ھ )وہ اجماع کی تعریف کرتے ہیں۔
اتفاق المجتهدین من هذه الأمة ، في عصر، علی حکم شرعی."
[اصول فقہ ،ص271]
’’کسی بھی زمانے میں امت کے مجتھدین کااتفاق کسی شرعی حکم پر۔‘‘
(الشیخ مصطفیٰ خفاجی) کے ہاں اجماع کی تعریف یہ ہے:
"اتفاق مجتهدی عصرمن أمة محمد على أمر شرعی."
[صفوۃ الکلام فی اصول الاحکام ،ص127]
’’امت محمدیہ کے مجتہدین عصر کااتفاق کسی شرعی امر میں اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
الشیخ علی حسب اللہ اجماع کی تعریف رقم کرتے ہیں۔
"اتفاق المجتهدین من أمة محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم في عصر من العصور بعد وفاته على حکم شرعی."
[اصول التشریع الاسلامی ، ص95]
’’مجتہدین امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی زمانہ میں وفات نبوی کے کسی شرعی حکم پر اتفاق اجماع کہلائے گا۔‘‘
علمائے حنابلہ کے ہاں اجماع کا مفہوم:
ابن عقیل الحنبلی(المتوفی 512ھ )اجماع کی تعریف کےسلسلہ میں لکھتے ہیں:
"هو اتفاق فقهاء العصر على حکم الحادثة."
[الواضح ، 1؍ 42]
’’نئے پیش آمدہ مسائل میں فقہائےعصر کااتفاق اجماع ہے۔‘‘
(ابن قدامہ المقدسی) المتوفی 620 ھ اجماع کی تعریف بیان فرماتے ہیں:
"هو اتفاق علماء العصر من أمة محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم على أمر من أمور الدین."
[روضۃ الناظر، ص130]
’’ اموردینیہ میں امت کے علمائے عصر کا اجماع ہے۔‘‘
ابوالخطاب الحنبلی( المتوفی 510 ھ )وہ اجماع کی تعریف میں رقم طراز ہیں:
"الاتفاق من جماعة"
’’جماعت کااتفاق اجماع ہے۔‘‘
محمد بن علی الشوکانی( المتوفی 1250ھ) وہ تعریف اس طرح لکھتے ہیں:
"انه اتفاق مجتهدی أمة محمد بعد وفاته في عصر من الأعصار ، على أمر من الأمور."
[ارشاد الفحول ، ص71، نشر دارالمعرفۃ؍ بیروت]
’’وفات نبوی کے بعد مجتہدین امت کا کسی بھی زمانہ میں کسی معاملے میں اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
ابن النجار الفتوحی المتوفی 972ھ وہ اجماع کی تعریف کے سلسلہ میں لکھتے ہیں۔
"هو اتفاق مجتهدي الأمة في عصر على أمر، ولو كان الأمر فعلا اتفاقا، كائنا بعد النبي صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ."
[شرح الکوکب المنیر، 2؍ 211]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد مجتہدین امت کا کسی بھی زمانے میں کسی معاملہ کو اتفاق اگرچہ فعلا بھی کیوں نہ ہو اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
(الشیخ محمدبن عبدالرحمان عید المحلاوی) المتوفی 1280ھ وہ اجماع کی تعریف کرتے ہیں۔
"اتفاق المجتهدین من أمة محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم بعد وفاته، في عصر من الأعصار، على حکم شرعی."
[تسھیل الوصول فی علم الاصول ،ص170]
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مجتہدین امت کا کسی بھی زمانے میں حکم شرعی پر اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
(الشیخ احمد ابراہیم) المتوفی 1945م) وہ اجماع کی تعریف رقم کرتے ہیں:
"اتفاق المجتهدین من أمة محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم ، بعد وفاته ، علی أمر من الأمور الشرعیة قولا أو فعلا في أی عصر من العصور."
[علم الاصول الفقہ ،ص68]
’’امت کے مجتھدین کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شرعی امور میں سے کسی امر پر قولی یا فعلی اتفاق جس کا تعلق کسی بھی زمانے کے ساتھ ہو اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
(الشیخ ابوزھرۃ المتوفی1974م) وہ اجماع کی تعریف کچھ یوں لکھتے ہیں۔
" هو اتفاق المجتهدین من الأمة الإسلامیة في عصر من العصور، بعد النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم على حکم شرعی في أمر من الأمور العلمیة. "
[اصول فقہ ،ص198]
’’امت اسلامیہ کے مجتہدین کاکسی بھی زمانہ میںرحلت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی حکم شرعی عملی پراتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
علمائےاحناف کےہاں اجماع کا مفہوم:
(علاء الدین سمرقندی) المتوفی 535ھ وہ اجماع کی تعریف لکھتےہیں:" هو اجتماع جمیع آراء أهل الإجماع على حکم من أمور الدین عقلی أو شرعی، وقت نزول الحادثة، أو یقال اتفاق جمیع أهل الاجماع. "
[میزان الاصول ، ص490]
’’امور دینیہ میں سے کسی بھی عقلی یا شرعی جدید مسئلہ کے حکم پر تمام اہل اجماع کی آراء کا جمع ہونے کا نام اجماع ہے یاپھر اہل اجماع کااتفاق اجماع ہے۔‘‘
(محمد بن عبدالحمید الاسمندی) المتوفی 552 ھ وہ اجماع کی تعریف رقم کرتے ہیں۔
" هو اجماع علماء أمة محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم على أمر في أصول الشرعیة "
[بذل النظر فی الاصول ، ص520]
’’امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علماء کا کسی اصول شرعی پر اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
(النسفی) المتوفی 710ھ وہ اجماع کی تعریف کے متعلق لکھتے ہیں۔
" هو اتفاق علماء کل عصر من أهل العدالة والاجتهاد على حکم. "
[کشف الاسرار ، شرح المصنف علی المنار، 2؍ 180]
’’ہر زمانے کے علماء اہل عدالت اوراصحاب اجتہاد کاکسی حکم پرجڑ جانا اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
(صدرالشریعۃ) المتوفی 747ھ وہ اجماع کی تعریف لکھتے ہیں۔
" هو اتفاق المجتهدین من أمة محمد في عصر على حکم شرعی"
[التوضیح بشرح التلویح ، 2؍41]
’’کسی بھی عصر میں مجتہدین امت کااتفاق مسئلہ شرعیہ پراجماع ہے۔‘‘
مالکیہ کے ہاں اجماع کا مفہوم:
(ابوالولید الباجی) المتوفی 474ھ وہ اجماع کی تعریف کےمتعلق فرماتے ہیں۔
"هو اتفاق علماء العصر على حکم الحادثة."
[الحدود ، ص63]
’’علمائے عصر کا نئے پیش آمدہ مسئلہ میں اتفاق کواجماع کہتے ہیں۔‘‘
(ابن الحاجب) المتوفی 646ھ وہ تعریف رقم کرتے ہیں۔
"اتفاق المجتهدین من هذه الأمة في عصر على أمر."
[مختصر المنتھی بشرح العضد ،2؍29]
’’اس امت کے مجتہدین کا کسی امر پر اتفاق اجماع ہے اگرچہ کسی بھی زمانہ میں ہو ۔‘‘
"ومن یری انقراض العصر یزید في تعریفه إلى انقراض العصر"
جعفریہ کے ہاں اجماع کا مفہوم:
1۔ "الاتفاق الکاشف عن قول المعصوم علی حکم دینی."
[الاجماع دراسۃ فی فکرتہ من خلال تحقیق باب الاجماع من اصول الجصاص،ص83]
’’حکم دینی میں معصوم کے قول پر کھلا اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
2۔ "کل اتفاق یستکشف منه قول المعصوم سواءً کان اتفاق الجمیع او البعض."
[اصول الفقہ للمظفر،3؍1۔6]
’’یہ ایسا اتفاق ہے کہ جس سے قول معصوم فکر ونظر کے سامنے آشکار ہو جائے اجماع کہلاتا ہے اگرچہ تمام امت کا ہو یا بعض افراد کا۔‘‘
3۔ "اتفاق جماعة یکشف اتفاقهم عن رأی المعصوم علیه السلام."
[قوانین الاصول ، ص349]
’’اہل علم کی ایک جماعت کااتفاق جو کسی معصوم کی رائے کو کھول دے۔‘‘
(الشیخ محمد رضا المظفر) المتوفی 1964م اجماع کی تعریف میں لکھتے ہیں:
"ان الاجماع بها هو إجماع لاقیمة علمیة له عند الإمامیة، مالم یکشف عن قول المعصوم. "
[اصول الفقہ للمظفر، 3 ؍105]
’’کسی بھی اجماع کی اس وقت تک کوئی قیمت نہیں جب تک وہ کسی قول معصوم کا کشف نہ کرے۔‘‘
معتزلہ کے ہاں اجماع کا مفہوم:
(ابوالحسن البصری ) المتوفی ۴۳۶ھ وہ اجماع کی تعریف رقم کرتے ہیں۔
" هو اتفاق من جماعة على أمر من الأمور أما فعل أو ترك وبعتریفه أخذ أبو الخطاب (المتوفى 510هـ) الحنبلی دون أن یغیر فیه شیئاً. "
[التمھید، 3؍224]
اجماع کے بارے میں جمہور امت کے نقطہ نگاہ کا تجزیہ:
اہل سنت والجماعۃ کے چاروں مکاتب فکر کے علماء نے جو اجماع کی تعریفات ذکر کی ہیں ان کا اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو فکر ونظر کے سامنے چند انتہائی اہم نکات سامنے آتے ہیں۔
پہلا نکتہ:
سب سے اہم حقیقت جو اجماع کے مطالعہ سے آشکار ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امت کے تمام مکتب فکرجوسنی زاویہ نظر کے حاملین ہیں ان میں اجماع کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ جیسا کہ احناف کے جلیل القدر امام نسفی فرماتے ہیں۔
" هو اتفاق علماء کل عصر من أهل العدالة والاجتهاد على حکم. "
ہر زمانہ کے اہل عدالت اور اصحاب اجتہاد علماء کا کسی حکم پر جمع ہو جانے کا نام اتفاق ہے۔
اب شوافع کے کباراہل فقہ میں سے امام الحرمین کے اجماع کے بارے میں موقف ملاحظہ فرمائیے وہ فرماتے ہیں۔
" هو اتفاق أمة أو اتفاق علمائها على حکم من أحکام الشریعة "’
’امت یا امت کے علماء کا کسی شرعی حکم پر اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔‘‘
یہ بھی یقیناً اسی حقیقت کااظہار فرما رہے ہیں کہ امام رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
مالکیہ میں ابن حاجب کے خیالات اجماع کے حوالے سے یہ ہیں :
" اتفاق المجتهدین من هذه الأمة في عصر على أمر"
کسی معاملے میں کسی زمانے میں امت کے مجتہدین کا اتفاق اجماع کہلاتا ہے ۔
حنابلہ کے عظیم امام ابن قدامہ المقدسی اجماع کے حوالے سے رقم طراز ہیں:۔
"هو اتفاق علماء العصر من أمة محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم على أمر من أمور الدین"
”امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علماء کا کسی بھی زمانہ میں امور دینیہ میں سےکسی امر پر اتفاق اجماع کہلاتا ہے۔“
مذاہب اربعہ کے علماء کے اقوال سے اس بات کا واضح ثبوت مل جاتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں اجماع کے مصداقات کے حوالے سے کوئی بھی قابل ذکر اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک ہی حقیقت کے اظہار کے لیے ہر اہل علم نے اپنی طبع کے مطابق الفاظ کا بہترین چناؤ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسرا نکتہ:
تمام علماء کی تعریفات سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ اجماع صرف اہل اجتہاد اور اہل عدالت کامعتبر ہے۔وہ علماء جو درجہ اجتہاد کو نہیں پہنچتے ان کااتفاق یااختلاف اجماع کی اہمیت کے بڑھانے یا کم کرنے کا سزاوار نہیں ہے ۔ بل کہ یہ ایک خاص علمی صلاحیت کاتقاضہ کرتا ہے جن حضرات اہل علم میں یہ صلاحیت اور خوبی ہو گی وہ اس شعبہ کے اہل ہوں گے۔
تیسرا نکتہ:
اجماع زمانہ وحی کے اعتبار سے نہیں ہو گا بل کہ اجماع کے لیے بنیادی ترین شرط یہ ہے کہ زمانہ نبوت کے بعد ہوجس کے لیے سطور بالا میں ذکر کی گئی تمام تعریفات کوبطور شاہد دیکھا جا سکتاہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زمانہ وحی میں ہرایک چیز اہل سرچشمہ شریعت سے براہ راست وصول ہو رہی ہوتی ہے جس میں بندوں کے اتفاق و افتراق کی چندا ضرورت نہیں ہے ۔علمائے مجتہدین کے اتفاق کی تب ضرورت پیش آتی ہے جب شریعت کسی مسئلہ میں خاموش ہو ۔ جب شریعت خود بطورقاضی اور حاکم امت کے ہر مسئلہ کا جائزہ لے رہی ہو اور شارع براہ راست رہنمائی دے رہے ہیں تو تب کسی دوسری شے کی کیا ضرورت رہے گی۔
چوتھا نکتہ:
اجماع کی تعریف میں دو طرح کے الفاظ کو یہ بکثرت دہرایا گیا ہے۔ ”علی امر“ ”علی حکم“ جس کا مطلوب یہ ہے کہ کسی بھی شرعی مسئلہ میں امت کا اتفاق اجماع کہلاتا ہے اگرچہ وہ مسئلہ کسی نص شریعت کے مفہوم پر ہو کہ فلاں نص کی مراد کیا ہے یا پھر کسی اجتہادی مسئلہ کی صحت پر ہو ۔ یا اس بات کا بھی امکان ہے کہ کوئی نیا پیش آمدہ مسئلہ ہو اس پر علماء کی آراء کو جمع کیا جئے تو وہ اتفاق اور اجماع پر منتج ہو تو ایسے تمام مسائل احاطہ اجماع میں شامل ہوں۔البتہ بعض علما نے ایک شرط یہ بھی ذکر کی ”علی کارثہ“ یا ”علی حادثہ“ کی کسی نئے پیش آمدہ مسئلہ پر اتفاق اجماع کہلائے گا یہ تعریفات اس اعتبار سے ناقص متصور کی جائے گی کہ یہ سابقہ اجماع یا اجماع کی دیگر شکلوں کو شامل نہیں ہے۔
پانچواں نکتہ:
اہل تشیع کا اجماع کے حوالے سے نقطہ نگاہ امت سے قطعا مختلف ہے ان کے علما ایسا اتفاق اجماع کہلاتا ہے جو معصوم یعنی آئمہ اثنا عشر کے اقوال کی تفہیم اور اظہار میں ہو ۔ یا جس اتفاق سے معصوم کے قول کی تمام جہتیں منکشف ہو جائے وہ اجماع کہلائے گا۔ اور اختلاف اسی وجہ سے ہے کہ اہل السنۃ اور اہل تشیع میں اصولی اختلاف ہے جو فکر ونظر کے تمام گوشوں میں ظاہر ہوتا رہے گا۔