حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف اقوالات اصولوں کے مطابق مردود ہیں
جعفر صادقحضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب حضرت امیرمعاویہؓ کے خلاف اقوالات اصولوں کے مطابق مردود ہیں!
السلام علیکم دوستو
گذشتہ حصوں میں آپ کے سامنے سیف الاسلام رافضی کی چند باتوں کا ذکر ہوا ، اب آگے ان کا رد کیا جاتا ھے۔
آگے سیف الالسلام لکھتا ھے کہ
باقی آپ نے کہا ابن عباس نے معاویہ کو صحابی کہا ہے تو چلو مان لیتا ہوں صحابی کہا ہے لیکن اس سے کوئی فضیلت تو ثابت نہیں ہوتی ہے کیونکہ نبی کے صحابی مومن بھی تھے اور منافق بھی تھے اس کے لیئے واضح مثال نبی کریم کی وہ حدیث جو مسلم شریف میں موجود ہے میرے بارہ صحابی منافق ہیں
لنک
اب اس میں کیا پتا ممکن ہے معاویہ بھی ہو لہاذا ابن عباس کا کوئی صریح قول پیش کریں جس میں اس کی فضیلت ثابت ہو؟
الجواب۔
۱، شیعہ مناظرین کی ایک لاعلمی یہ بھی ہوتی ھے کہ بات اھل السنت کی کتب کے حوالاجات سے کرتےہیں اور ان میں موجود الفاظ کا مطلب اپنے مذہب کی اصطلاحات کے مطابق لیتے ہیں، جیساکہ یہاں بھی سیف الاسلام نے یہی حرکت کی ہے کہ صحابی کا معنی اپنے مذہب کے مطابق کردیا جس میں یہ منافق اور مؤمن دونوں کو صحابی میں شمار کردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک )معاذ اللہ( صحابی ہونے میں سیدنا علیؓ اور عبد اللہ بن ابی منافق برابر ہیں۔
فی الحال اس پر بحث نہیں کرتے کہ صحابی کے معنی کیا ہے۔
لیکن میں یہاں شیعوں سے ایک سوال ضرور کرونگا کہ کیا تم لوگ اہل السنت کو بھی یہی موقعہ دوگے کہ ہم شیعوں کی کتب میں بھی اپنی اصطلاحات کے مطابق مطلب لےکر تم پر الزام قائم کریں؟؟
اگر دوگے تو بتادو تاکہ ہم آئندہ ایسا ہی کریں، اگر اجازت نہیں دیتے تو ھماری کتب میں کس منہ سے اپنی اصطلاحات فٹ کرکے اعتراض کرتے ہو؟؟
۲، اھل السنت کے نزدیک صحابی ہونا ایک مرتبہ اور فضلت ہے، تو ہمارے مذہب کے مطابق ابن عباسؓ کا معاویہؓ کو صحابی کہنا ان کی فضیلت ہی ہے جیسا کہ ابن حجرؒ نے بھی لکھا ھے
لَان ظَاهر شَهَادَة بن عَبَّاسٍ لَهُ بِالْفِقْهِ وَالصُّحْبَةِ دَالَّةٌ عَلَى الْفَضْلِ الْكثير
فتح الباري لابن حجر جلد 7 صفحہ 104
ابن عباس ؓ کی ظاہری طور پر معاویہؓ کے لیے فقہ اور صحابیت کی گواہی کثیر فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
لنک
۳، رہا سیف الاسلام کا صحیح مسلم کی حدیث سے بارہ منافقین والی بات نقل کرنا، تو یہ بھی اس کی کم علمی کی دلیل ہے، کیونکہ امام نوویؒ نے ان کی وضاحت بھی کردی ہے کہ
أما قوله صلى الله عليه وسلم في أَصْحَابِي فَمَعْنَاهُ الَّذِينَ يُنْسَبُونَ إِلَى صُحْبَتِي
شرح النووي على مسلم جلد 17 صفحہ 125
نبی کریم ﷺ کا قول کہ میرے صحابہ میں منافق ہیں، اس کا معنی ہے کہ وہ لوگ جو میری صحابی ہونے کی طرف منسوب ہیں۔
یعنی بظاہر مومن بن کر صحابی کہلاتے ہیں حقیقت میں وہ صحابی نہیں۔
لنک
اور فتح الباری جلد 11 صفحہ 385 پر ابن حجرؒ لکھتے ہیں
لم یرتد من الصحابة احدا و انما ارتد قوم من جفاة الاعراب ممن لا نصرة لهم فی الدین و ذلک لا یوجب قدحا فی الصحابة المشھورین۔
صحابی میں سے کوئی مرتد نہیں ہوا،جو مرتد ہوئے تھے وہ عربوں کے بدو تھے جن کی دین میں کوئی مدد نہیں تھی،اور یہ بات مشہور صحابہؓ پر کوئی عیب نہیں۔
تو سیف الاسلام رافضی کی اس بات کی کوئی حیثیت نہیں کہ صحابہ میں منافق تھے۔
اس کے بعد سیف الاسلام رافضی آگے لکھتا ہے کہ
ورنہ اس عکس ابن عباس کا قول موجو د ہے جس میں ابن عباس معاویہ پر لعنت کرتے جو حاضر خدمت ہے اور مکمل روایت اسکین پیج میں موجود ہے
دوسری بات ابن عباس سے یہ بھی ثابت ہے کے معاویہ گدھے ہیں اگر ابن عباس معاویہ کو صحابی سمجھتے تو کبھی اس پر لعنت بھی نہ کرتے اور گدھے بھی نہ کہتا۔
پہر آگے شرح معانی الآثار کا حوالہ دیا ھے۔
الجواب۔
۱، ابن عباسؓ کی روایت جس میں تلبیہ بلند آواز سے نہ پڑھے جانے پر معاویہؓ کے بارے میں بغض علی میں سنت کو ترک کرنے اور سنن کبری میں لعنت کے جو الفاظ ہیں اس کی سند میں خالد بن مخلد راوی شیعہ ہے۔
ميزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 640، 641 پر ھے کہ
قال أبو داود صدوق، لكنه يتشيع،
وقال ابن سعد: مفرط في التشيع.
وقد قال الجوزجاني: كان شتاما معلنا بسوء مذهبه،
یعنی ابو داأد نے کہا کہ خالد سچا تھا لیکن شیعہ تھا،
ابن سعد نے کہا شیعت میں آگے بڑھنے والا تھا ،
جوزجانی نے کہا کہ گالیاں دینے والا اور اپنی برے مذھب کو اعلانیہ بیان کرتا تھا۔
اور اصول تو آپ کو پتا ہے کہ بدعتی راوی کی روایت اس کے مذہب کی تائید میں قبول نہیں۔
اور اس روایت میں ابن عباسؓ کی طرف معاویہؓ کے بارے میں برے الفاظ کی نسبت ہے، اور شیعہ تو ویسے بھی بغض معاویہ کے مریض ہیں۔
۲، شرح معانی الآثار کی روایت میں عکرمہ خارجی ہے، تھذیب التھذیب جلد 7 میں عکرمہ کے خارجی ہونے کے کافی اقوالات موجود ہیں کہ عکرمہ خارجی ، اباضیا اور صفریہ تھا۔ اور یہ خارجیوں کے فرقے ہیں جیسا کہ شیعوں کے فرقے ہیں اسماعیلیہ، زیدیہ، واقفیہ، جارودیہ وغیرہ۔
اور خارجی سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ دونوں سے بغض رکھتے ہیں، تو ابن عباسؓ کی طرف عکرمہ نے یہ الفاظ منسوب کردیے ہیں۔
اس کے برعکس بخاری کی روایت مین عکرمہ نہیں تو ابن عباسؓ سے یہ الفاظ بھی نہیں بلکہ فقیہ اور صحابی رسول کے الفاظ ہیں۔
۳، اگر بالفرض عکرمہ کے خارجی ہونے والی بات نہ بھی کی جائے تب بھی یہ روایت بخاری کی روایت کے مقابلے میں شاذ ہے، بخاری کی روایت کی سند اس روایت کی سند سے زیادہ قوی ہے، تو یہ شاذ ہوئی۔
خلاصہ کلام یہ کہ ابن عباسؓ کی طرف منسوب معاویہؓ کے خلاف دونوں اقوالات اصولوں کے مطابق مردود ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ سیف الاسلام اپنی لاعلمی کا ثبوت دیتے ہوئے خالد بن مخلد اور عکرمہ کی توثیقات بھیجنے کی کوشش کرے، تو میں پہلے ہی بتا دوں کہ ان کی توثیق بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے ان پر جرح نہیں کی صرف مذہب بیان کیا ہے۔
باقی ان شاء اللہ اگلے پارٹ میں