حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کا تعارف
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند"سلیمان بن صرد کون ہیں"
اکثر ہمارے دوست احباب جب رافضیوں سے واقعہ کربلا کے حوالے سے بحث کر کے کوفہ کے شیعوں کو ہی سیدنا حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کا قاتل ثابت کرتے ہیں (کہ جس میں کوئی شق نہیں) اور جب وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ کوفیوں نے ہی خط لکھ کر بلایا تو کبھی کبھار جانے انجانے اور بےخبری میں خط لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد کا بھی نام لے لیتے ہیں۔ آخر یہ سلیمان بن صرد ہیں کون؟؟
سیدنا سلیمان بن صرد الخزاعی رضی اللہ عنہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ اُنکا ذکر صغار صحابہ میں آتا ہے۔ وہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک سیدنا ابوموسیٰ اشعری اور سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہما وغیرہ جیسے صحابہ اور سیدنا اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ جیسے تابعین جو مخلص طبقے میں تھے اور دوسرا طبقہ منافقین کا تھا جیسے عبداللہ ابنِ سبا اور مالک بن اشتر النخعی وغیرہ جو اپنے آپ کو شیعانِ علی کہا کرتے تھے جو کہ نہ صحابی تھے اور نہ تابعی کیوں کہ تابعی ہونے کے لیئے بھی صحابی کی اتباع ضروری ہے۔
مؤقف نمبر 1:
بعض علماء کے نزدیک اُنکا خط لکھنا ثابت ہی نہیں کیوں کہ اُن کے حوالے سے زیادہ تر روایات لوط بن یحییٰ ابو مخنف رافضی سے مروی ہیں جو کہ اکثر و بیشتر اکابرینِ اہلسنت کے نزدیک ایک جھوٹا، کذاب اور غالی قسم کا رافضی راوی ہے۔ مقتل الحسین نامی کتاب بھی اِس ابو مخنف سے ہی منسوب ہے کہ جس میں اکثر و بیشتر گپ بازی کے علاوہ کُچھ نہیں۔
مؤقف نمبر 2:
بعض علماء کا سیدنا سلیمان بن صرد الخزاعی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بھی مؤقف ہے کہ خط لکھنے والوں میں وہ بھی شامل تھے لیکن اُن کو سیدنا حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کی آمد سے اور اُنکی شہادت سے بےخبر رکھا گیا تھا ورنہ وہ ضرور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی مدد کرتے کہ جس طرح صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے کٹ گئے ویسے ہی سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بھی نواسہ رسول کے لیئے جان قربان کرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔
اوپر آپ کے سامنے دو مؤقف رکھ دیئے۔ آپ جو بھی مؤقف اپنائیں لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان معیار حق ہیں۔ اُنکی شخصیت کو کسی تاریخ دان کی تاریخی کتاب سے نہیں پرکھا جائیگا بلکہ اُن کی شخصیت کو پرکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ قرآن و سنت ہے۔ صحابہ کرام کے متعلق تاریخ کی بھی صرف وہ ہی بات مانی جائے گی جو قرآن و سنت سے میل کھاتی ہو۔ جو بات قرآن و سنت سے ٹکراتی ہو اُسے ردی کی ٹوکری میں پھینکا جائے گا۔
سیدنا سلیمان بن صرد الخزاعی رضی اللہ عنہ شیعوں کے ہاں بھی قابلِ احترام شخصیت ہیں اور وہ بھی اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا میں وہ شامل نہیں تھے۔
اور شیعہ تو اِس سے آگے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ اُن کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ رئیس التوابون تھے اور اُنہوں نے پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ لیا وغیرہ وغیرہ جو کہ موضوع میں شامل نہیں۔
باقی اِس میں کوئی شق نہیں کہ سیدنا حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو کوفہ کے اُن منافقین نے شہید کیا جو اہلبیت علیہم الرضوان کی جھوٹی محبت کا دم بھرتے تھے اور خود کو شیعانِ علی کہا کرتے تھے۔
سلیمان بن صرد (بضم المھملة و فتح الراء)بن الجون بن ابی الجون بن منقذ بن ربیعہ بن اصرم بن حرام بن حبشیةبن سلول بن کعب بن عمروبن ربیعةالخزاعی الکوفی۔(تہذیب الکمال: ۱/۴۵۴، طبقات ابن سعد :۴ /۲۹۲،معرفة الصحابة:۲ /۴۶۱،الاصابة:۲ /۷۵، التاریخ الکبیر:۴/ ۱، الجرح والتعدیل:۴ /۱۲۰، تاریخ بغداد :۱ /۲۱۵ ، سیر الاعلام النبلاء:۳ /۳۹۴ ،تہذیب التہذیب:۴ /۲۰۰،تاریخ الاسلام :۲/ ۴۱۶،طبقات ابن سعد :۴ /۲۹۲ ) ابو مطرف ان کی کنیت ہے ۔ (تاریخ بغداد:۱ /۲۱۵،طبقات ابن سعد:۴/ ۲۹۲)
شرف صحبت
آپ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
(معرفة الصحابة :۲ /۴۶۱، الاصابة ۲ /۷۶)
علامہ ذہبی نے آپ کو صغار صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
(تاریخ اسلام : ۲/۴۱۶ )
لیکن علامہ عسقلانی ،عینی اور قسطلانی رحمہم ا للہ اجمعین نے آپ کو افاضل صحابہ میں شمار کیا ہے۔
(فتح الباری ۲/ ۴۸۴ ، عمدة القاری: ۳/۲۹۷ ، ارشادی الساری : ۱ /۴۹۳)
کسب فیض اور حدیث کی روات
آپ نے براہِ راست مشکوٰة نبوت سے کسب فیض کیا ،حدیث کا سماع حضورصلی اللہ علیہ وسلم، ابی بن کعب ،علی ابن ابی طالب ،جبیر بن مطعم اور حضرت حسن بن علی سے کیا ۔
(الاصا بة:۲ /۷۶، تاریخ الاسلام:۲/۴۱۲،تہذیب الکمال:۱۱/۴۵۵،سیر الاعلام النبلاء:۳/ ۳۹۴، تہذیب التہذیب: ۴/ ۲۰۰)
آپ سے حدیث کا سماع کرنے والے
آپ سے حدیث کا سماع کرنے والوں میں ابواسحاق سبیعی،تمیم بن سلمہ ،شقیر عبدی، شمر، ضبثم ضبی، عبداللہ بن یسار جھنی ،عدی بن ثابت ،ابو الضحیٰ مسلم بن صبیح ، یحیٰ بن یعمراو رابو عبداللہ جدلی رحمہم اللہ شامل ہیں ۔
(تاریخ بغداد :۱/ ۲۱۵، الاصابة:۲ /۷۶ ، تہذیب الکمال :۱۱/۴۵۵، ۴۵۶ ، الجرح وا لتعدیل :۴ /۱۲۰ )
حالات زندگی
اسلام لانے سے قبل زمانہٴ جاہلیت میں آپ کا نام یسار تھا ،جب اسلام قبول کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام یسار سے بدل کر ”سلیمان “ رکھا۔
(الاصابة:۲ /۷۶، تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶، تاریخ بغداد : ۱/۲۱۵،تہذیب التہذ یب :۴ / ۲۰۰ )
آپ اپنی قوم کے بلند مرتبہ اور معزز افراد میں سے تھے ۔
(الاستیعاب: ۲ /۶۴، طبقات ابن سعد :۴/ ۲۹۲،تاریخ الاسلام :۲ /۴۱۳،تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو حضرت سلیمان بن صرد دیگر مسلمانوں کے ساتھ کوفہ تشریف لائے ۔
( طبقات ابن سعد:۴ /۲۹۲،تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶، الاستیعاب: ۲ /۶۳،۶۴)
خطیبِ بغدادی وغیرہ کے بقول آپ نے بنو خزاعہ میں رہائش اختیار کی ، اس کے علاوہ آپ نے مدائن اور بغداد کا بھی سفر کیا ۔
(تاریخ بغداد :۱ ۲۱۵،الاستیعاب :۲ /۶۳،تہذیب الکمال:۱۱/ ۴۵۶)
ابن عبد البررحمةاللہ علیہ نے فرمایا :
”کَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَیْرًا فَاصِلاً لَہ دِیْنٌ وَ عِبَادَةٌ“
(الاستیعاب :۲ /۲۳،تہذیب الکمال:۱۱/ ۴۵۶، تہذیب التہذیب :۴ /۲۰۰)
آپ بہترین فاضل متدین اور عبادت گزار شخص تھے ۔حضرت علی کے ساتھ جنگ جمل وصفین میں شریک ہوئے۔
طبقات ابن سعد :۴ /۲۹۲ ،تہذیب التہذیب :۴/ ۲۰۰، الاستیعاب :۲/ ۶۴، الاصابة :۲/ ۷۶، معرفة الصحابہ : ۲/ ۴۶۱، تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶)
وفات
آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں دو قول ہیں :ابن حبان نے رمضان المبارک کا مہینہ ۶۷ ہجری کو وفات قرار دیا ہے ۔
(کتاب الثقات:۱ / ۳۳۰)
جب کہ اکثر موٴرخین نے ربیع الاول ۶۵ہجری میں ۹۳ سال کی عمر میں وفات کو نقل کیا ہے ،یہی اصح ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔
(تاریخ بغداد :۱ /۲۱۵ ، طبقات ابن سعد :۴/ ۲۹۲ ،۲۹۳ ،تاریخ الاسلام: ۲ / ۴۱۲،الاصابة : ۲ / ۷۶،الاستیعاب : ۲ / ۶۴ ، تہذیب الکمال :۱۱/ ۴۵۶ ،۴۵۷،سیر اعلام النبلاء: ۳/ ۳۹۵ ، معرفةالصحابہ :۲ / ۴۶۱،تہذیب التہذ یب :۴ / ۲۰۱)
حضرت سلیمان بن صرد کے حوالے سے بھی کتب ِ تاریخ خاص کر تاریخِ طبری :۳/ ۲۷۷، ۳۹۰ ، ۳۹۱ ،۳۹۷، ۴۰۵،۴۲۰۔ ابن اثیر جزری کی ” الکامل “
(الکامل فی التاریخ :۳/ ۳۸۵، ۴۸۶، ۴۹۰،۴ / ۳ ، ۱۲)،
اور ان دونوں سے منقول ہو کر ابن ِکثیر کی ”البدایة والنہایة“وغیرہ میں جو روایات مذکور ہیں، ان کا کچھ حصہ کتبِ رِجال میں بھی نقل کیا گیا ہے ۔
(الاستیعاب : ۲ /۶۴، الاصابة: ۲/ ۷۶ تہذیب الکمال:۱۱/ ۴۵۶، سیر اعلام النبلاء: ۳/ ۳۹۵ ،طبقات ابن سعد: ۴/۲۹۲،۲۹۳،الثقات :۱ /۳۳۰)
ان روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان بن صرد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت حسین کو کوفہ بلانے کے لیے خطوط لکھے ،اور ان کے تشریف لانے پر انھیں اکیلا چھوڑدیا ، ان کی مدد سے پیچھے ہٹے ، ان کی شہادت پر ندامت ہوئی تو ایک لشکر بناکر ان کا بدلہ لینے کے لیے عبیداللہ بن زیاد سے لڑائی کی، وغیرہ وغیرہ۔