Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حبیب کو حبیب سے ملا دو۔ (تحقیق)

  خادم الحدیث سید محمد عاقب حسین

حبیب کو حبیب سے ملا دو۔ ایک مشہور روایت کی تحقیق:

واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا اے علیؓ جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس ہاتھ سے تم نے حضور نبی اکرمﷺ‎ کو غسل دیا تھا، اور مجھے خوشبو لگانا اور حضورﷺ کے روضہ اقدس کے پاس پہنچا کر تدفین کے لیے اجازت طلب کرنا، اگر دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا، ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا، تا وقت کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔
سیدنا علیؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپؓ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضہ رسول کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی، میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ سیدنا ابوبکرؓ آپﷺ سے داخلے کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی
حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو، بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے۔
امام ابو القاسم ابنِ عساکرؒ (المتوفى: 571ھ) نے فرمایا:
أنبأنا أبو علی محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدی وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموی عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقی سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثنی أبو طاهر المقدسی عن عبد الجليل المزنی عن حبة العرنی عن علی بن أبی طالب قال لما حضرت أبا بکرؓ الوفاة أقعدنی عند رأسه وقال لی يا علیؓ إذا أنا مت فغسلنی بالكف الذی غسلت به رسول الله وحنطونی واذهبوا بی إلى البيت الذی فيه رسول الله فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بی وإلا فردوی إلى مقابر المسلمين حتیٰ يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول اللهﷺ‎ هذا أبو بکرؓ مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسیٰ بن محمد بن عطاء المقدسی وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذی غسل أبا بکرؓ امرأته أسماء بنت عميسؓ۔
(تاریخِ دمشق لابنِ عساکر: جلد، 17 صفحہ،381)
موضوع:
خود امام ابنِ عساکرؒ اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: هذا منكراور یہ امام ابنِ عساکرؒ کا منہج ہے کہ وہ جس روایت کو منکر کہتے ہیں وہ ان کے نزدیک موضوع منگھڑت ہوتی ہے:
امام نور الدین ابنِ عراق الكنانیؒ م963ھ فرماتے ہیں:
كثيرا ما يقتصر ابنِ عساكرؒ على وصف الحديث بالنكارة وهو عنده موضوع۔
ترجمہ: ابن عساکرؒ اکثر حدیث کو نکارت یعنی منکر کے ساتھ وصف کرنے تک محدود رکھتے ہیں اور وہ ان کے نزدیک موضوع یعنی من گھڑت ہوتی ہے۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة: جلد، 2 صفحہ، 277)
ثابت ہوا کہ حافظ ابنِ عساکرؒ کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے۔
شیخ الاسلام والمسلمین امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب لسانُ المیزان میں اس روایت کو باطل کہا ملاحظہ ہو:
وعنه أبو طاهر المقدسی بخبر باطل أورده ابنِ عساكرؒ فی ترجمة أبی الصديقؓ وفيه: أن علياؓ قال: لما حضر أبو بكرؓ قال لی: إذا مت فاغسلونی واذهبوا بی إلى البيت الذی فيه النَّبِیﷺ۔
(لسان الميزان: جلد، 3 صفحہ، 448)
امام شمس الدین سخاویؒ نے حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ کے کلام کی موافقت کی۔
(التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة: صفحہ، 109)
اس کی سند میں واقع راوی أبو الطاهر موسیٰ بن محمد بن عطاء المقدسی کذاب راوی ہے۔
1: أبو زرعة الرازیؒ: كان يكذب۔
ترجمہ: ابوزرعہ رازیؒ فرماتے ہیں وہ جھوٹ بولتا تھا۔
2: أبو جعفر العقيلیؒ: يحدث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات۔
ترجمہ: ابوجعفر عقیلیؒ کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں سے جھوٹی اور من گھڑت روایات بیان کرتا ہے۔
3: موسیٰ بن سهل الرملی: أشهد عليه أنه كان يكذب۔
ترجمہ: موسیٰ بن سہل کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جھوٹ بولتا تھا۔
(تاريخ مدينة دمشق: جلد، 61 صفحہ، 202)
(كتاب الضعفاء والمتروكين لابنِ الجوزی: جلد، 2 صفحہ، 149)
(الجرح والتعديل لابنِ أبی حاتم: جلد، 8 صفحہ، 113)
4: أبو حاتم بن حبان البستی: لا تحل الرواية عنه كان يضع الحديث۔
ترجمہ: امام ابنِ حبانؒ کہتے ہیں کہ اس سے روایت کرنا حلال نہیں کیونکہ یہ احادیث گھڑنے والا ہے۔
(المجروحين لابنِ حبانؒ: جلد، 1 صفحہ، 242، 243)
(لسان الميزان: جلد، 6 صفحہ، 165)
5: أبو أحمد بن عدیؒ الجرجانج: منكر الحديث، يسرق الحديث۔ 
ترجمہ: امام ابنِ عدیؒ نے فرمایا یہ منکر الحدیث ہے اور روایات چوری کرتا ہے۔
(الكامل فی ضعفاء الرجال: جلد، 8 صفحہ، 63)
6: الذهبی: أحد المتروكين، ومرة: كذاب متهم وقال فی حديثه: هذا كذب و موضوع و باطل۔
ترجمہ: امام ذہبیؒ فرماتے ہیں یہ ان میں سے ایک ہے جن کی روایات کو ترک کیا گیا پھر دوسری کتاب میں فرماتے ہیں یہ جھوٹا ہے اور اس پر جھوٹا ہونے کا الزام ہے اور پھر آپ نے دوسری کتاب میں اس کی روایات کو نقل کرکے ان پر موضوع ٬ باطل اور کذب کا حکم لگایا
(تاريخ الإسلام ت بشار: جلد، 5 صفحہ، 708)
(المغني فج الضعفاء: جلد، 2 صفحہ، 686)
(ميزان الاعتدال: جلد، 4 صفحہ، 219، 220)
7: أبو حاتم الرازی: كان يكذب ويأتی بالأباطيل۔
ابو حاتم رازی فرماتے ہیں وہ جھوٹ بولتا تھا اور جھوٹی روایات کرتا تھا۔
(الجرح والتعديل لابنِ أبی حاتمؒ: جلد، 8 صفحہ، 161)
اسی وجہ سے یہ روایت باطل و مردود ہے نیز سند میں اور بھی علتیں ہیں:
امام عبد المنعم بن عبد الوهاب الحرانؒ (المتوفیٰ: 596ھ) نے فرمایا:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِج، إِجَازَةً، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَتِيقِی، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الزَّيَّاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّقْرِ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسىٰ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانُ، حَدَّثَنِی أَبُو طَاهِرٍ الْمَقْدِسِی عَنْ عَبْدِ الْجَلِيلِ الْمُرِّی، عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِی، عَنْ علیؓ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بکرؓ الْوَفَاةُ أَقْعَدَنِی عِنْدَ رَأْسِهِ، وَقَالَ لِی: يَا علیؓ إِذَا أَنَا مُتُّ فَغَسِّلْنِي بِالْكَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُولَ اللہﷺ وَاذْهَبُوا ابی إِلَى الْبَيْتِ الَّذِی فِيهِ رَسُولُ اللہﷺ فَاسْتَأْذِنُوا، فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ فُتِحَ فَحُطُّونِی وَإِلا فَرُدُّونِی إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ قَالَ علیؓ فَغُسِّلَ وَكُفِّنَ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ بَادَرَ إِلَى الْبَابِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِﷺ‎ هَذَا أَبُو بکرؓ يَسْتَأْذِنُ، فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدِ انْفَتَحَ فَسَمِعْتُ قَائِلا يَقُولُ: أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى حَبِيبِهِ فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ۔
(أحاديث منتخبة من مشيخة ابنِ كليب: رقم 18)
اس سند میں بھی وہی ابو طاہر المقدسی کذاب راوی موجود ہے ہماری تحقیق میں اس کی دو ہی اسناد تھیں دونوں میں کذاب راوی موجود ہے لہٰذا عند التحقیق باتصریح ابنِ حجر عسقلانیؒ یہ روایت باطل اور موضوع ہے اس کو نبیﷺ کی طرف ہرگز منسوب نہ کیا جائے۔
 کذاب راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔
امیر المؤمنین فی الحدیث حجۃ اللہ فی الارضین حافظ الدنیا شیخ الاسلام ابنِ حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
فالقسمُ الأوَّلُ، وهُو الطَّعْنُ بكَذِبِ الرَّاوی فی الحَديثِ النبوی هو المَوضوعُ۔
ترجمہ: پس قسمِ اول وہ طعن ہے جو حدیثِ نبویﷺ میں راوی کے جھوٹ بولنے کے بارے میں ہے ایسے طعن والے راوی کی روایت موضوع ہے۔
(كتاب نزهة النظر فی توضيح نخبة الفكر عتر: صفحہ، 89)
امام تقی الدین محمد آفندی برکوئ حنفیؒ م981ھ فرماتے ہیں:
أما كذب الراوی: فهو أن يكون ثابت الكذب عمداً فی الحديث النبوی فإذا ثبت كذبه فی حديث من الأحاديث فهو مطعون بالكذب، وحديث الراوی المطعون بالكذب سواء كان كذبه فه أو فی حديث آخر يسمىٰ موضوعاً ومختلقاً وليس فی الحديث الموضوع شرط: أن یكون الكذب والوضع فيه بعينه، والراوی المتعمد بالكذب فی الحديث النبوی، وإن وقع الكذب منه فی مدة عمره مرة واحدة فی واحد لم يقبل حديثه وإن تـاب وأحسن حاله۔
ترجمہ: جہاں تک راوی کے جھوٹ کا تعلق ہے تو وہ یہ کہ اس کا حدیثِ نبویﷺ میں قصداً جھوٹ بولنا ثابت ہو جائے اگر اس کی بیان کردہ احادیث میں سے کسی ایک حدیث میں بھی اس کا جھوٹ بولنا ثابت ہو جائے تو وہ راوی کذاب قرار دیا جائے گا اور کذاب راوی کی حدیث کو موضوع بناوٹی قرار دیا جائے گا خواہ اس کا جھوٹ بولنا جس حدیث میں ثابت ہے وہ روایت ہو یا کوئی دوسری روایت ہو۔
اور موضوع حدیث کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ موضوع اسی روایت کو کہا جائے گا جس میں راوی کا بعینہ جھوٹ بولنا یا روایت کو گھڑنا ثابت ہو جائے وہ راوی جو جان بوجھ کر حدیث نبویﷺ میں جھوٹ بولے اگر اس نے زندگی میں ایک بار بھی حدیث نبویﷺ میں جھوٹ بولا تو اس کی کوئی بھی حدیث قبول نہیں کی جائے گی اگرچہ وہ توبہ کرلے اور اس کی حالت سنور جائے۔
(مقدمة فی أصول الحديث للبركوی: صفحہ، 61)
اس روایت کا متن بھی منکر باطل ہے۔
صحیح آثار سے ثابت ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کو غسل آپؓ کی زوجہ محترمہ سیدہ أسماء بنتِ عميسؓ نے دیا تھا ملاحظہ ہو:
وَحَدَّثَنِی عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی بَكْرٍؓ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍؓ غَسَّلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَؓ حِينَ تُوُفِّی، ثُمَّ خَرَجَتْ فَسَأَلَتْ مَنْ حَضَرَهَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ. فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ وَإِنَّ هَذَا يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ، فَهَلْ عَلَیؓ مِنْ غُسْلٍ؟ فَقَالُوا: لَا۔
ترجمہ: سیدہ اسماء بنتِ عميسؓ نے اپنے شوہر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو غسل دیا جب ان کی وفات ہوئی پھر وہ باہر نکلیں اور موجودہ مہاجرین سے پوچھا کہ میں روزے سے ہوں اور آج سخت سردی ہے تو کیا میرے لئے غسل کرنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ نہیں۔
(كتاب موطأ مالك رواية يحيیٰ: رقم، 3 حسن)
(كتاب موطأ مالك رواية أبی مصعب الزهری: رقم، 1006)
(كتاب موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيبانی: رقم، 304)
مزید شواہد ملاحظہ ہوں۔
1: أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَوْصَى أَنْ تُغَسِّلَهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُؓ
ترجمہ: سعد بن ابراہیم بیان کرتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے وصیت فرمائی کہ ان کو غسل ان کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ دیں گی۔
2: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَرِيكٍ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَيْكَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍؓ أَوْصَى أَنْ تَغْسِلَهُ أَسْمَاءُؓ۔
ترجمہ: ابنِ ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے وصیت فرمائی کہ ان کو غسل سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ دیں گی۔
3: أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍؓ غَسَّلَتْهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُؓ۔
ترجمہ: ابراہیم بیان کرتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو غسل آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے دیا۔
4: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِی حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَؓ غَسَّلَتْهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍؓ۔
ترجمہ: قتادہ بیان کرتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو غسل آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے دیا۔
5: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍؓ أَوْصَى أَنْ تُغَسِّلَّهُ أَسْمَاءُؓ۔
ترجمہ: حسن بیان کرتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے وصیت فرمائی کہ انہیں غسل ان کی زوجہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ دیں گی۔
6: أَخْبَرَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍؓ غَسَّلَتْهُ أسماء بنتِ عميسؓ۔
ترجمہ: امُ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو غسل سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے دیا۔
(كتاب الطبقات الكبرىٰ ط العلمية: جلد، 8 صفحہ، 221)
(كتاب الطبقات الكبرىٰ ط العلمية: جلد، 3 صفحہ، 152)
امام ابنِ الجوزیؒ م597ھ موضوع حدیث کے قرائن بیان فرماتے ہیں:
إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع۔
ترجمہ: جب تم کسی حدیث کو دیکھو کہ وہ معقول سے ٹکراتی ہو یا منقول کے خلاف ہو یا اصول سے مناقص ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔
امام ابنِ الجوزی کے اس بیانیہ کو محدثین نے قبول فرمایا لیکن فی الوقت ہمارا تعلق امام ابنِ الجوزیؒ کے بیان کردہ دوسرے قرینہ سے ہے منقول کے خلاف ہو۔
یعنی اس باب میں وارد شدہ حسن صحیح احادیث کے خلاف ہو۔
(كتاب الموضوعات لابنِ الجوزی: جلد، 1 صفحہ، 106)
(كتاب تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: جلد، 1 صفحہ، 327)
یہی اصول امام احمد رضا خان بریلویؒ بھی بیان فرماتے ہیں:
موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون (1) قرآنِ عظیم (2) سنتِ متواترہ (3) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ (4) یا عقل صریح (5) یا حسن صحیح (6) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہوکہ احتمالِ تاویل و تطبیق نہ رہے۔
( فتاوی رضویہ: جلد، 5 صفحہ، 462)
امام احمد رضا خان فاضل بریلویؒ نے اس اصول کا استعمال بھی کیا چنانچہ فرماتے ہیں:
رہا معاملہ حدیث فقر میرا فخر ہے اور اس پر میں فخر کرتا ہوں کا تو یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے کیونکہ آپ ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ فقر کے فتنہ سے پناہ مانگا کرتے جیسے کہ مالداری کے فتنہ سے پناہ مانگتے۔
( فتاوی رضویہ: جلد، 14 صفحہ، 632)
صحیح حدیث میں وارد ہوا کہ نبیﷺ فقر کے فتنہ سے پناہ مانگتے تھے۔ 
(صحیح بخاری: حدیث، 6377) 
جب کہ موضوع روایت میں فقر کو نبیﷺ کا فخر بتایا جا رہا ہے تو امام احمد رضا خانؒ نے اس روایت کو صحیح روایت کے مخالف ہونے کی وجہ سے موضوع قرار دیا جو کہ اصول پر بلکل درست ہے۔
بعض شبہات کا ازالہ:*ل
کچھ جہلاء اس روایت کے موضوع ہونے پر اتنے اظہر من الشمس دلائل دیکھنے کے باوجود بھی حد درجہ کمزور بنیادوں پر قیام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
1: اس روایت کو امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب الخصائص الكبرى میں نقل کیا اور امام سیوطیؒ نے شرط لگائی ہے کہ ان کی یہ کتاب موضوع احادیث سے پاک ہے۔
2: اس روایت کا ایک شاہد سیدہ عائشہؓ سے خطیب بغدادیؒ کے حوالے سے امام سیوطیؒ نے نقل کیا۔
الجواب وباللہ التوفیق:
1: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امام سیوطیؒ کی شرط کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ آپ نے اپنی اس کتاب میں ان روایات کو بھی شامل کر دیا جن کو آپ نے اپنی دوسری کتاب ذيل اللآلئی المصنوعة میں موضوع قرار دیا ہے محققین کی اس پر تصریحات موجود ہیں:
وفی الخصائص الكبرى أحاديث واهية وموضوعة نبه على بعضها فی ذيل اللآلئى فالسيوطیؒ أخل بشرطه فی الخصائص الكبرى جزما۔
ترجمہ: اور خصائص کبریٰ میں واہی اور موضوع روایات ہیں جن میں سے بعض ذيل اللآلئی المصنوعة
میں مذکور ہیں امام سیوطیؒ نے واضح طور پر خصائص کبریٰ میں اپنی شرط کی خلاف ورزی کی ہے۔
(تنزيه الشريعة المرفوعة: جلد، 1 صفحہ، 326 حاشيہ)
خصائص الکبریٰ کی طرح امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی آخری کتاب الجامع الصغیر میں بھی یہی شرط لگائی تھی کہ اس کتاب میں موضوع احادیث نقل نہیں کریں گے مگر اس میں بھی سینکڑوں موضوع احادیث نقل کی علامہ ابوالحسنات عبدالحئی لکھنوی حنفیؒ م1304ھ فرماتے ہیں:
والأحاديث الموضوعة التی وقعت للحافظ السيوطیؒ فی الجامع الصغير كثيرة غير قليلة كما سيأتی بيان عددها وبعضها قد حكم السيوطیؒ نفسه بوضعه فی كتابه: ذيل اللآلئی۔
ترجمہ: حافظ سیوطیؒ سے جامع صغیر میں چند نہیں بلکہ کثیر موضوع احادیث وارد ہوئی ہیں جیسا کہ تعداد میں بیان کیا جائے گا اور ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جن کو خود امام سیوطی نے اپنی کتاب ذيل اللآلئی میں منگھڑت قرار دیا۔
(الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة: صفحہ، 126)
علامہ احمد بن صدیق الغماری المالکیؒ م1320ھ نے پوری کتاب لکھی بنام المغير على الأحاديث الموضوعة فی الجامع الصغير۔
جس میں انہوں نے امام سیوطیؒ کی کتاب جامع صغیر سے 456 موضوع روایات نقل کیں۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ امام سیوطیؒ کی شرط کا کوئی اعتبار نہیں آپ نے اپنی مشروط کتب میں بھی سینکڑوں موضوع احادیث شامل کیں رفع الله درجتك فی أعلىٰ عليین۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اگر محدثین کی شرائط پر ہی احادیث کی صحت اور ضعف کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر یہ لازم آئے گا کہ مانا جائے۔
صحیح ابنِ حبان
صحیح ابنِ خزیمہ
مستدرک للحاکم
اور ان جیسی وہ تمام کتب جن کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث لانے کی شرط لگائی ان کتب میں تمام کی تمام احادیث صحیح ہیں حالانکہ کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ان کتب میں ضعیف٬ ضعیف جداً٬ موضوع ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔
صرف امام شمس الدین الذہبیؒ ہی کی مستدرک للحاکم پر تلخیص پڑھ کر دیکھ لیں وہ درجنوں احادیث جن کو امام حاکمؒ نے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی شرط پر صحیح قرار دیا امام ذہبیؒ نے ان کو موضوع من گھڑت قرار دیا۔
لہٰذا محدث کا حکم اور اس کی شرط تب ہی فائدہ دے گی جب روایت کے سند و متن میں علت قادحہ واقع نہ ہو . جب کہ ہم اوپر تمام دلائل کے ساتھ ثابت کر آئے کہ زیربحث روایت سنداً متناً اصول محدثین پر موضوع ہے لہٰذا امام سیوطیؒ کا اس کو خصائص الکبریٰ میں نقل کرنا انکا تسامح ہے اگر وہ اس پر صحت کا بھی حکم لگا دیتے تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ روایت اصول محدثین پر موضوع ہے۔
2: پھر یہ کہنا کہ امام جلال الدین سیوطیؒ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حوالے سے خطیب بغدادی سے اس روایت کا ایک شاہد نقل کیا محذ علم تخریج اور علم حدیث سے نہ واقفیت کے سوا کچھ نہیں۔
سیدہ عائشہؒ کے حوالے سے اس روایت کا شاہد ذکر کرنا امام سیوطیؒ کا وہم ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ امام سیوطیؒ کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے والے حضرات پر یہ بات عیاں ہے کہ امام سیوطیؒ سے ایسے اوہام واقع ہوتے رہتے ہیں۔
امام سیوطیؒ کے وہم پر دلیل یہ ہے کہ یہ روایت نا تو امام خطیب بغدادیؒ کی کسی کتاب میں موجود ہے اور نہ ہی کسی دوسرے محدث کی کسی کتاب میں موجود ہے اور نہ ہی کسی دوسرے محدث نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ سیدہ عائشہؓ سے بیان کیا ہے امام سیوطیؒ سے پہلے کسی شخص نے اس روایت کا سیدہ عائشہؓ سے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ کسی کتاب میں مذکور ہے۔
امام سیوطیؒ کے اوہام پر مثالیں:
1: ایک مشہور روایت: الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّهَاتِ۔
ترجمہ: یعنی کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ 
کو امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا اور پھر اس کو صحیح مسلم کی طرف منسوب کر دیا ملاحظہ ہو:
حديث الجنة تحت أقدام الأمهات مسلم من حديث أنسؓ۔
(كتاب الدرر المنتثرة فی الأحاديث المشتهرة: صفحہ 102)
حالانکہ اس روایت کا وجود صحیح مسلم تو کیا پوری کتب ستہ میں نہیں ہے۔
علامہ عبدالرؤف مناوی شافعیؒ م1031ھ نے امام سیوطیؒ کے اس کلام پر تعجب کا اظہار کیا:
وأعجب من ذلك أن المصنف فی الدرر عزاه إلى مسلم باللفظ المذكور من حديث النعمان بن بشيرؓ فيا له من ذهول ما أبشعه۔
اور اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مصنف نے كتاب الدرر المنتثرة میں اس حدیث کو مسلم کی طرف مذکورہ لفظ کے ساتھ سیدنا نعمان بن بشیرؓ کی حدیث سے منسوب کیا ہے یہ ان کی بہت بھیانک چوک ہے۔
(كتاب فيض القدير: جلد، 3 صفحہ، 361)
2: ایک اور روایت: سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ۔
یعنی عوام کا حکمران ان کا خادم ہے اس روایت کو امام جلال الدین سیوطیؒ سنن ابنِ ماجہ کی طرف منسوب کیا ملاحظہ ہو:
حديث سيد القوم خادمهم ابنِ ماجه عن أبی قتادةؓ۔
(كتاب الدرر المنتثرة فی الأحاديث المشتهرة: صفحہ، 131)
حالانکہ اس روایت کا وجود بھی سنن ابنِ ماجہ میں تو کیا پوری کتب ستہ میں نہیں ہے بلکہ مصنف نے خود اپنی دوسری کتاب میں اس کو خطیب بغدادیؒ کی تاریخ بغداد کی طرف منسوب کیا جو کہ درست ہے یہ روایت تاریخِ بغداد میں ہے اور کچھ دیگر کتب میں لیکن سنن ابنِ ماجہ یا کتب ستہ میں سے کسی کتاب میں نہیں۔
(كتاب الجامع الصغير وزيادته: حدیث، 7066)
3: اسی طرح امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَقَدْ صَحَّحَ الْحَاكِمُ فِی مُسْتَدْرَكِهِ حَدِيثَ النَّهْی عَنْ تَعْلِيمِ النِّسَاءِ سُورَةَ يُوسُفَ۔
امام حاکمؒ نے اپنی مستدرک میں عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم نہ دینے کے متعلق حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(كتاب الإتقان فی علوم القرآن: جلد، 3 صفحہ، 231)
جب کہ اس روایت کا وجود مستدرک للحاکم میں تو کیا پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں حدیث کی کسی کتاب میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں جس میں سورہ یوسف کی خواتین کو تعلیم دینے کی نفی ہو۔
امام شمس الدین ذہبیؒ نے مستدرک للحاکم کی تلخیص لکھی اگر ایسی کوئی روایت مستدرک میں ہوتی تو وہ ذکر کرتے لیکن انہوں نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا امام ابن ملقنؒ٬ امام عراقیؒ٬ علامہ عبدالرؤف مناویؒ ان میں سے کسی امام نے مستدرک للحاکم کے حوالے سے اس روایت کا تذکرہ نہیں کیا اور ذخیرہ احادیث میں اس کا وجود نہیں۔
امام جلال الدین سیوطیؒ:  رفع الله درجتك فی أعلى عليين کے اوہام پر ایسے درجنوں دلائل موجود ہیں لیکن تحریر کی مزید طوالت کے ڈر سے تین پر ہی اکتفاء کیا انہی اوہام کی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے خطیب بغدادیؒ کے حوالے سے اس روایت کا شاہد ذکر کرنا بھی امام جلال الدین سیوطیؒ کا وہم ہے کیونکہ ام المؤمنینؓ سے اس روایت کا ذکر نہ ہی امام خطیب بغدادیؒ کی کسی کتاب میں ہے اور نہ ہی ذخیرہ احادیث میں کہیں اور نہ ہی کسی محدث نے امام جلال الدین سیوطیؒ سے پہلے اس کو ام المؤمنینؓ سے نقل کیا۔
خلاصہ کلام:
پوری تحقیق کا حاصل کلام یہ ہوا کہ زیرِ بحث اثر سنداً متناً موضوع من گھڑت ہے اس کی سند میں کذاب راوی ہے جس کی وجہ سے یہ موضوع ہے جب کہ متن بھی صحیح آثار کے مخالف ہونے کی بناء پر موضوع ہے اور جو بعض جہلاء اس روایت کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے بے بنیاد دلائل دیتے ہیں ان کا بھی تشفی بخش جواب دلائل کی روشنی میں اوپر عرض کیا لہٰذا اس روایت کو نبیﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا حرام ہے۔
فقـط واللہ ورسولہٗ اعلم بالصواب۔
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی:
(مؤرخہ 2 محرم الحرام 1444ھ)