Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شریک بن سجماء رضی اللہ عنہ نے زنا کیا۔ (اسد الغابہ) 2 عمرو بن حمزہ رضی اللہ عنہ اسلمی نے زنا کیا۔ (اسد الغابہ) 3_ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کی بیوی سے زنا کیا، رجم کرنے کا حکم۔ (کتاب المختصر فی اخبار البشر) 4 خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان کو قتل کرنے کے بعد اسی رات اس کی بیوی سے زنا کیا۔ (کتاب الاصابہ فی تمیز الصحابہ)

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

1 شریک بن سجماءؓ نے زنا کیا۔ (اسد الغابہ)
2 عمرو بن حمزہؓ اسلمی نے زنا کیا۔ (اسد الغابہ)
3_ خالد بن ولیدؓ نے مالک بن نویرہ کی بیوی سے زنا کیا، رجم کرنے کا حکم۔ 
(کتاب المختصر فی اخبار البشر)
4 خالد بن ولیدؓ نے ایک مسلمان کو قتل کرنے کے بعد اسی رات اس کی بیوی سے زنا کیا۔ 
(کتاب الاصابہ فی تمیز الصحابہ)

 الجواب اہلسنّت

یہ تین واقعات ہیں جو دراصل اصحابِ رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی کردار کشی کے لیے اُچھالے جاتے ہیں حالانکہ ان مذکورہ کتابوں میں ہر واقعہ کی اصل حقیقت اور اس کی تلافی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قارئین کرامؓ کی خدمت میں عرض کیا جاتا ہے کہ

1۔ اہل السنّت والجماعت انبیاء علیھم السلام کے علاوہ کِسی کو معصوم نہیں جانتے۔ 

2۔ انبیاء علیھم السلام کے بعد سب سے بلند مرتبہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے شاگردوں کا ہے جِن سے کبھی کبھار بشری کمزوریوں کی بنا پر کوئی قصور سرزد ہو جاتا ہے تو اللّٰه تعالٰی اس کی تلافی کے فوری اسباب مہیا فرما دیتے ہیں۔ 

3_ جب کِسی قصور وغیرہ کی تلافی ہو جائے تو اُس قصور کی نشر و اشاعت کرنا جائز نہیں کیونکہ یا تو یہ غیبت ہوگی یا چغل خوری، جو اِسلام میں بدترین عادتیں اور سخت سزا کے مستوجب جرائم شمار کیے جاتے ہیں۔ ان ابتدائی گزارشات کے بعد جواب ملاحظہ فرمائیں۔ 

1۔ عمرو بن حمزهؓ سے شیطان نے ایسا قصور کروا دیا جِس کی وجہ سے عمروؓ کو حد کی سزا سہنا پڑی، اس واقعہ کو نقل کر کے صاحبِ اسد الغابہ نے مذکورہ صحابی رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی عظمت پر تین طرح سے استدلال کیا۔

1۔) فنزعه الشيطان کے لفظ سے اشارہ کیا کہ یہ غلطی شیطان کے ورغلانے کی بنا پر ہوئی جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: "فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا" (البقره آیت 36) کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو شیطان نے ورغلا بہکا دیا جو ان کے جنت سے نکالے جانے کا باعث ہوا۔ لہٰذا اسی دُشمن کی یہ کارستانی ہے جو ازل سے محبوبانِ خُدا کی بدخواہی میں لگا ہوا ہے بلکہ اب تو بد خواہوں کی چنگی بھلی جماعت بنا ڈالی ہے جو مقربانِ رب العالمین کی بدخواہی میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ 

2۔) فاتى النبي فاخبره الغ کہ یہ قصور ہو جانے کے بعد جلد ہی غلطی کا احساس ہوا گویا زمین قدموں کے نیچے سے سرکتی نظر آئی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا کہ اُف یہ مُجھ سے کیا ہو گیا، لہٰذا فوری طور پر اپنے محبوب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ازالہ قصور کی صورت دریافت کی۔ یہ فوری طور پر حاضر ہونا اور ندامت سے خود بخود اعترافِ قصور کرنا دلالت کرتا ہے کہ ثم يتوبون من قریب کے مصداق صحابی نے فوری طور پر توبہ کی اور اس قصور کا ازالہ کروانا چاہا۔ 

3۔) فقام عليه الحد کہ شریعت کے مقرر کردہ طریقہ کے مطابق اس قصور کا ازالہ کر دیا گیا تو اب وہ صحابی اس قصور کے ہو جانے کے بعد بالکل پاکیزہ دل کا مالک ہو گیا جیسا کہ اس سے وہ قصور ہوا ہی نہیں۔ 

اربابِ اوصاف ان گزارشات سے اچھی طرح جان گئے ہوں گے کہ اسد الغابہ میں جو کُچھ بتایا گیا ہے وہ اس کے مقامِ محفوظیت پر خوبصورت استدلال ہے نہ کہ اُس قصور کا اشتہار و اعلان۔ یہ محض شیعہ صحبان کی کج روی اور بد فہمی ہے کہ جِس عبارت میں صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے مقامِ بلند کا تذکرہ ہوا ہے یہ بُرائی قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ 

2- قریب قریب اسی طرح کی فریب کاری اسد الغابہ کے حوالے سے حضرت شریک بن سحماءؓ کے بارے میں کی گئی ہے کیونکہ مذکورہ صفحہ پر صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے قصور کیا ہے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے الزام لگانے والے کو فرمایا کہ البينة والاحدٌ في ظهرك کہ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر جھوٹے الزام لگانے کی حد لگائی جائے گی۔ اب الزام لگانے والے کے پاس گواہ نہیں تھے۔ اسی لیے تو انہوں نے عرض کیا کہ اللّٰه تعالٰی میری پیٹھ کو حد لگائے جانے سے محفوظ فرمائے گا۔ لہٰذا یہ الزام گواہوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اور کتاب میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ یہ الزام عائد تو کیا گیا مگر اسے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اور غیر ثابت شده الزام کو دہرانا بہتان کہلاتا ہے، جِس کا ارتکاب روافض شیعہ نے کیا۔

3- زنا کا یہ الزام بدترین فراڈ اور دجل ہے اتنی بات پر تو کسی کو ذرا بھر اختلاف نہیں کہ جِس کی بیوی سے زنا کا الزام حضرت خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی ذات گرامی پر دہرایا جا رہا ہے وہ شخص مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے گرفتار ہو کر قتل ہوا تھا جِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عورت نہ تو آزاد تھی اور نہ ہی ذمیہ بلکہ حربی کافر کی قیدی بیوی تھی۔ اور امیرِ وقت قیدی عورتوں کو بحیثیت لونڈی تقسیم کر کے مجاہدینِ اِسلام کو عطاء کرتا ہے۔


مذکورہ عورت کو امیرِ لشکرِ اِسلام نے اپنے لیے خاص کیا اور بجائے لونڈی بنا کر رکھنے کے آزاد کر کے باقاعدہ اپنی بیوی بنا لیا اور بیوی کے ساتھ مباشرت اور ازدواجی تعلق رکھنا نہ زنا ہے اور نہ حرام کہ اعتراض کیا جا سکے۔ 

باقی رہا یہ سوال کہ مالک بن نویرہ کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنے کا ثبوت کیا ہے ؟ تو ملاحظہ فرمائیے تاریخ لابن الاثیر الطبری جلد 3 صفحہ 278 تحت ذکر البطاع وغیرہ پر عبارت ہے۔ وتزوج خالد ام تميم ابنة المنهال۔

"یعنی خالد (بن ولید) نے ام تمیم کے ساتھ نکاح کیا۔"

(بحوالہ فوائد نافع صفحہ 160 جلد 1) 

اسی عکسی صفحہ 898 کی سطر نمبر 21 پر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں جہاں لکھا ہوا موجود ہے: 

و تزوج خالد بعد ذالك امرة مالك 

"یعنی مالک (بن نویرہ) کے بعد اس کی بیوی سے خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے نکاح کر لیا۔" 

اب اگر عقل پر پردے پڑ جائیں تو علاج کوئی نہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق کا نام زنا نہیں ہے۔ شیعہ لوگوں کا مزاج بھی عجیب و غریب ہے متعہ کے نام پر زنا کی کھلے بندوں اجازت ہے مگر اپنی بیوی سے جو شخص ضرورت پوری کرے تو ان کی نظر میں وہ زانی ہے اور حد لگانا ضروری ہے۔ خُدا ناس کرے حسد کا، ایسا مرض ہے کہ جِس کو لگ جائے اس کی عقل کو ایسا ماؤف کر دیتا ہے کہ حق و باطل میں تمیز نہیں رہتی ۔ 

4_یہ اعتراض بھی بے جا اور سراسر غلط ہے کہ ایک طہر جو کہ قیدی عورت کے استبرا کے لیے شریعت نے مقرر فرمایا ہے یہ بھی نہ گُزرا تھا کہ خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے اس عورت سے مباشرت کر ڈالی۔ درست یہ ہے کہ خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے مذکورہ عورت سے ایک طہر کی مدت تک کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا چنانچہ آپ عکسی صفحہ پورا کا پورا ملاحظہ فرما لیں پورے صفحہ میں یہ دونوں باتیں بالکل نہیں۔ 

(1۔) اسی رات 

(2۔) بلا عدت۔ 

بلکہ اسی عکسی صفحہ کی آڑ بنا کر شیعہ لوگوں نے اپنے اندر کی بھڑاس نکالی ہے ورنہ سچ یہی ہے کہ حضرت خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے ایک طہر گزرنے کے بعد ازدواجی تعلق قائم کیا تھا۔ ملاحظہ ہو: وتركها ينقضي طهرها ۔ 

"کہ اس عورت کو چھوڑے رکھا۔" (کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا) یہاں تک کہ ایک طہر اس کا گزر گیا۔ 

(تاریخ لابن الاثیر الطبری جلد 3 صفحہ 278، طبع جدید مصر)

لہٰذا قبل از طہر ازواجی قائم ہی نہیں کیا تو اعتراض کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ 

کرم فرماؤں نے مذکورہ مقام پر جو اعتراض اٹھایا اس کا ضروری جواب تو ہو گیا تفصیلی جواب کا موقع اس لیے نہیں کہ کتاب کا طول بڑھتا جا رہا ہے جبکہ راقم اختصار کا خواہش مند ہے۔ البتہ چند ضروری باتیں عرض کی جاتی ہیں جِن کا جان لینا فائدہ سے خالی نہیں کہ خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے جِس مالک بن نویرہ کو قتل کیا تھا یہ وہی شخص ہے جِس کے گھر میں خاتم المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال پر ملال پر خوشی منائی گئی تھی۔ دف بجائی گئی۔ عورتوں نے مہندی لگائی اور لوازمِ شادی ادا کیے گئے۔ (تحفہ اثنا عشریہ) ایسے شخص کا قتل خالد بن ولید رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی ایمانی غیرت، اسلامی حمیت اور جذبہ حب رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا کھلا ثبوت ہے اور اس محبتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کرنا اور الزام دینا جِس چیز کا پتہ دیتا ہے وہ کِسی ایماندار سے ذرا مخفی نہیں، شرط یہ ہے کہ کوئی ناخن بھر انصاف کی رتی بھی ہو۔

5_۔ کتاب المختصر فی اخبار البشر صفحہ 66 عکسی صفحہ کی جِس سطر پر اعتراض کی لکیر کھینچی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے: (جب مالک بن نویرہ قتل ہوا تو اس کی برادری نے خاصا شور شرابہ کیا اور اس نے بوجوہ مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی) جب یہ خبر حضرت ابوبکر صدیق و عُمَر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہما کے پاس پہنچی تو حضرت عُمَر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ سے عرض کیا کہ (اس خبر سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ) خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے زنا کیا ہے لہٰذا اس کو تو رجم کرنا چاہیے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے (سرسری معلومات کے بعد) فرمایا اُس نے زنا نہیں کی بلکہ اُس نے تاویل کرنے میں غلطی کی ہے۔ حضرت عُمَر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: (ان بتانے والوں سے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ) خالد رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے مسلمان شخص کو قتل کیا ہے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا اس نے مسلمان کو قتل نہیں کیا بلکہ تاویل کرنے میں غلطی کی ہے (عکسی صفحہ سطر نمبر 5-6) اندازه فرمائیے جِس عبارت میں خلیفۂ وقت خالد بن ولید رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کی صاف برأت کا اعلان فرما رہے ہیں اس سے شیعہ لوگ خالد بن ولید رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو مجرم قرار دے کر رجم کا مستحق ظاہر کر رہے ہیں جو کہ سراسر شیطانیت اور بدترین دجل ہے۔

نوٹ:- مالک بن نویرہ کے قتل اور اس کی بیوی سے زنا کے بارے میں سیف من سيوف اللّٰه خالد بن ولیدؓ پر جو الزامات رافضی شیعہ امت نے جاری کیے ہیں ان کے جوابات علامہ ابن تیمیہ، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، حضرت مولانا مہر محمد صاحب، حضرت مولانا محمد نافع صاحب، حضرت مولانا اللّٰه یار خاں رحمۃ اللّٰہ علیھم اور اکابرین علماء ارشاد فرما چکے ہیں ان جوابات کے باوجود رافضی شیعہ امت عوام کو بہکانے اور گُمراہ کرنے اور عوام کو پروپیگنڈے میں مبتلا رکھنے کا مشغلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔