Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضورﷺ اور آپﷺ کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نماز جنازہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شرکت

  علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹو

حضورﷺ اور آپﷺ کے اہلِ بیت کی نمازِ جنازہ میں صحابہ کرامؓ کی شرکت

رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے جنازہ مبارک میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور دوسرے سب مہاجرین و انصار نے شرکت کی

امام الانبیاء رسول اللہﷺ جب اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے تو صحابہ کرامؓ مہاجرین و انصارؓ مسجد نبویﷺ میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو جب اطلاع ملی تو آپؓ آئے اور حضور ﷺ کے چہرہ انور سے کپڑا اُٹھا کر آپﷺ کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا۔ رسول اللہﷺ نے،سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرۂ مبارکہ میں رحلت فرمائی۔ جب تدفین کا مسئلہ پیش آیا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جس جگہ نبی کی رحلت ہوتی ہے، اُسی جگہ اس کو دفن کیا جاتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں سید المرسلین رسول اللہﷺ کو سیدہ عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ میں دفن کیا گیا۔ سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے غسل و کفن کے لئے سیدنا علیؓ اور سیّدنا عباسؓ اور ان کے فرزندوں کو مقرر فرمایا اور خود مسجد نبویﷺ میں مہاجرین و انصار کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے پوچھا اے رسول اللہ ﷺ کے ساتھی! نبی کریمﷺ کی جنازہ نماز پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ہر شخص علیحدہ علیحدہ تکبیر کہے اور پھر درود شریف پڑھ کر باہر نکل جائے۔ فضائل النبی ترجمہ شمائل الترمذی میں قطب الوقت، استاد العلماء حضرت علامہ مولانا عبدالکریم قریشی بیر شریف والے دامت برکاتہم لکھتے ہیں کہ مستدرک حاکم میں روایت منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے آخری وقت میں سب عزیزوں اور رشتہ داروں کو بلوایا تو اس وقت بعض نے عرض کیا کہ آپﷺ کی نماز کون پڑھائے؟ تو فرمایا کہ جب غسل اور کفن دے رکھو تو کچھ دیر کے لئے سب کے سب باہر چلے جانا۔ سب سے پہلے میری نماز جنازہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پڑھیں گے۔ پھر میکائیل علیہ السلام اور پھر اسرافیل علیہ السلام اس کے بعد ملک الموت اپنے سب معاون فرشتوں سمیت نماز پڑھیں گے۔ بعد میں تم سب جماعت در جماعت ہوکر نماز پڑھنا۔ یہی ترتیبِ نماز سیدنا ابوبکرؓ نے بتائی تھی۔ شیعوں کی کتابوں میں بھی اِس طرح منقول ہے کہ مہاجرین و انصارؓ نے جماعت در جماعت ہوکر نماز پڑھی، کوئی خاص امام مقرر نہیں ہوا:

شیعوں کا محدث محمد بن یعقوب کلینی (المتوفی 328ھ)روایت کرتا ہے:

عن أبي جعفر عليه السلام قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وآله صلت عليه الملائكة المهاجرون والانصار فوجا فوجا  

حضرت محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کا وصال ہوا تو آپ پر فرشتوں، مہاجروں اور انصار نے فوج در فوج ہوکر نماز پڑھی۔

(اصول کافی جلد1 صفحہ 451 کتاب الحجۃ مطبوعہ ایران)

شیعہ مکتبہ شاملہ: الكافي الكليني (1/ 661)

صحابہ کرامؓ کے دشمن یہ بھی ایک غلط اعتراض کرتے ہیں کہ حضورﷺ کا جسم اطہر تین دن پڑا رہا۔ اکثر صحابہؓ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ آپﷺ کا آخری دیدار بھی نہیں کیا۔ اس کے شرف سے بھی محروم رہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ مسجد چھوڑ کر چلے گئے اور نبی اکرمﷺ کے جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوئے۔

یہ بہتانِ عظیم ہے کیونکہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہی کے مشورہ سے غسل، کفن اور دفن کا مسئلہ حل ہوا تھا اور رسول اللہﷺ کی نمازِ جنازہ کا طریقہ بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ہی بتایا تھا۔ شیعوں کی معتبر و مستند کتابوں میں واضح طور پر مرقوم ہے کہ مہاجرین و انصار میں سے کوئی بھی ایسا نہیں رہا، جس نے نماز نہ پڑھی ہو۔ اور جنازہ میں شرکت نہ کی ہو۔

شیعوں کے محدث سُلیم بن قیس ہلالی کتاب سلیم بن قیس صفحہ 79مطبوعہ قم ایران اور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی، احتجاج طبرسی جلد1 صفحہ106 میں لکھتے ہیں:

ثم أدخل عشرة من المهاجرين، وعشرة من الانصار فيصلون ويخرجون حتى لم يبق من المهاجرين والانصار إلىٰ صلىٰ عليه

 پھر سیدنا علیؓ نے داخل کیا دس مہاجرین میں سے اور دس انصار میں سے۔ وہ نماز پڑھ کر نکل جاتے۔ یہاں تک مہاجرین و انصار میں سے کوئی بھی ایسا باقی نہیں رہا، جس نے نماز جنازہ نہ پڑھی ہو۔

جلاء العیون اور حیات القلوب میں بھی اسی طرح مرقوم ہے۔

شیعہ مکتبہ شاملہ: الإحتجاج (9/ 14)

بحار الأنوار - العلامة المجلسي (22/ 506)، (28/262)، (78/385)

وسائل الشيعة (67/ 3)

سليم بن قيس الهلالي (9/ 16)

شیعوں کا مجاہد کبیر سید محسن الامین العالمی (المتوفی1371ھ) لکھتا ہے:

وهكذا كانت الصلاة عليه وسلم حتى صلى عليه اهل المدينة واهل العوالي وضواحی المدينة صغيرهم وكبيرهم ، وذكرهم وانثاهم ولم یبق احد مّنھم الاصلّٰی علیہ۔ فصلوا علیہ یوم الاثنین و لیلۃ الثلثآء حتّٰی الصباح و یوم الثُّلَثَآء۔ 

آنحضرتﷺ پر نمازِ جنازہ اِسی طرح ادا ہوئی۔ حتّٰی کہ مدینہ میں رہنے والے اور مدینہ کے اوپر والے حصے اور گرد و نواحی میں رہنے والے ہر چھوٹے بڑے، مرد عورت نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا، جس نے نمازِ جنازہ نہ پڑھی ہو۔ آنحضرتﷺ کی انہوں نے پیر کے دن، منگل کی رات، صبح تک اور منگل کے دن نمازہ جنازہ پڑھی۔

(المجالس السنیۃ فی مناقب و مصائب العترۃ النبویۃ صفحہ42 مطبوعہ قم ۔ ایران)

اس بات میں شک کی بالکل گنجائش نہیں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ مہاجرین اولین میں شمار ہوتے ہیں تو پھر جنازۃ الرسولﷺ سے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ جنازۃ الرسول ﷺمیں تین دن کی تاخیر کے اہم اسباب یہ ہیں:

مدینہ و مکہ کے گرد و نواح کے مسلمانوں کو اطلاع ہوئی تو لوگ جوق درجوق مدینہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور یہ کوئی معمولی واقعہ تو نہیں تھا۔ نبی آخرِالزمان، سید المرسلین، رحمۃ للعالمینﷺ کی رحلت کا سانحہِ عظیم تھا۔ اس کے علاوہ حجرۂ مبارکہ بھی اتنا وسیع نہیں تھا کہ جس میں بیک وقت زیادہ آدمی آپﷺ کے آخری دیدار کا شرف حاصل کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے دس دس کی جماعت حجرہ شریفہ میں داخل ہوکر، آپ پر درود پڑھ کر نکل جاتی۔ پھر دوسری جماعت اندر جاتی۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنی تعداد میں مسلمانوں کا مدینہ آنا، اور پھر سب کا آپﷺ کے آخری دیدار سے مشرف ہونا، معمولی بات نہیں تھی۔ اس اعتبار سے تین دن بھی بہت تھوڑا عرصہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ دن لگ جاتے تو کچھ بعید نہیں تھا، لیکن یہ صحابہ کرامؓ ہی ہیں، جنہوں نے اتنے تھوڑے عرصہ میں یہ کام مکمل کرلیا کہ قرب و جوار کا کوئی مسلمان آپﷺ کے آخری دیدار سے محروم نہیں رہا (دیکھیں حیات القلوب)

اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ تعلیم نبویﷺ سے پوری طرح واقف تھے۔ ان کو یہ حدیث بھی اچھی طرح یاد تھی کہ انبیآء علیہم السلام کے وصال کے بعد ان کے جسم اطہر میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہوتا اور نہ ہی جسم اطہر کو زمین کھاتی ہے۔ ان کے جسم بالکل صحیح و سالم رہتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کو اس لئے تاخیر میں کسی قسم کا اندیشہ نہیں تھا۔

سیدنا حسنؓ کا جنازہ سیدنا سعید بن العاصؓ نے پڑھایا

غسله الحسين و العباس و محمد إخوته و صلى عليه سعيد بن العاص و كانت وفاته سنة تسع و أربعين

 سیدنا حسنؓ کو ان کے بھائیوں سیدنا حسینؓ، عباسؓ اور محمد نے غسل دیا اور نمازِ جنازہ سیدنا سعید بن العاصؓ نے پڑھائی۔ سیدنا حسنؓ کی وفات 49ھ میں ہوئی۔

(کشف الغمہ جلد1 صفحہ 583، مطبوعہ نجف عراق۔ دیکھیں عکس صفحہ 297)

ابوالفرج اصفہانی شیعی (المتوفی 356ھ) لکھتا ہے:

ان الحسين بن علي قدم سعيد بن العاص للصلاة على الحسن بن علي وقال تقدم

سیدنا حسینؓ نے سعید بن عاصؓ سے سیدنا حسنؓ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے کہا کہ آگے ہوکر نماز پڑھائیں۔

(مقاتل الطالبین صفحہ 50ذکر حسن بن علی مطبوعہ نجف عکس صفحہ 226)

شیعوں کے محدث میر زا محمد بن معتمد خان البدخشی

(المتوفی 1121ھ) کتاب نزل الابرار فی مناقب اہل البیت الاطہار صفحہ86 طبع ایران اور مورخ میر زا محمد تقی سپہر(المتوفی 1297ھ) ناسخ التواریخ جلد2 صفحہ 155 میں لکھتے ہیں:

سعید بن العاص وکان یومئذ امیرا علی المدینۃ فقدمہ الحسین فی الصلوٰۃ علیہ وقال ھی السُّنّۃ

 سعید بن العاصؓ ان دنوں میں مدینہ کے گورنر تھے۔ سیدنا حسنؓ کی نمازہ جنازہ پڑھانے کے لئے سیدنا حسینؓ نے ان کو آگے کیا اور پھر فرمایا کہ یہ طریقہ سنت ہے (یعنی حاکمِ وقت نماز پڑھائے)

سیّدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے پڑھائی

العلامہ المحدث شیخ علی متقی ہندی (المتوفی 975ھ) نے ایک حدیث بیان کی ہے:

عن جعفر بن محمد عن أبيه قال: ماتت فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم فجاء أبو بكر وعمر ليصلوا فقال أبو بكر لعلي بن أبي طالب: تقدم، فقال: ما كنت لأتقدم وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتقدم أبو بكر فصلى عليها. 

سیدنا جعفر صادقؒ اپنے والد محمد باقرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ سیّدہ فاطمہؓ دختر رسول اللہﷺ فوت ہوئیں تو سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں نماز جنازہ پڑھنے کے لئے تشریف لائے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو (نماز پڑھانے کے لئے) کہا کہ آگے تشریف لائیں تو سیدنا علیؓ نے جواب دیا کہ آپ خلیفۂ رسول اللہﷺ ہیں، میں آپ سے پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ پس سیدنا ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر نمازِ جنازہ پڑھائی۔

(کنز العمال جلد12صفحہ 515 باب فضائِل الصحابہؓ حدیث 35677 عکس صفحہ487)

(مکتبہ شاملہ: كنز العمال (12 / 515): حدیث نمبر 35677)

عَنِ الشَّعْبِيِّ: أَنَّ فَاطِمَةَ، رضِيَ اللهُ عَنْهَا لَمَّا مَاتَتْ دَفَنَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَيْلًا، وَأَخَذَ بِضَبْعَيْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَدَّمَهُ يَعْنِي فِي الصَّلَاةِ عَلَيْهَا كَذَا رُوِيَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَالصَّحِيحُ 

شعبی سے روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہؓ فوت ہوئیں تو سیدنا علیؓ نے ان کو رات میں دفن کیا اور (جنازہ کے موقعہ پر) سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے دونوں بازو پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا۔

(بیہقی جلد 4صفحہ 29 کتاب الجنائز)

(مکتبہ شاملہ: السنن الكبرى للبيهقي (4 / 46) حدیث نمبر 6896)

سیدہ اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ کی نمازِ جنازہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے پڑھائی

یہ اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ کی زوجۂ محترمہ تھیں۔ ان کی وفات 49ھ میں ہوئی۔ ہم گذشتہ اوراق میں یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے نو جنازے ایک ساتھ پڑھائے تھے۔ ان میں سیدہ اُمِ کلثومؓ کا جنازہ بھی تھا۔ (ملاحظہ فرمائیں نسائی کتاب الجنائز) شیعوں کی کتابوں میں بھی واضح طور پر یہ بات تحریر ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے سیدہ اُمِ کُلثومؓ کی نماز جنازہ پڑھائی ہے۔ آپ کی خدمت میں حوالے حاضر ہیں:

وَاَمَّا ام کلثوم زوجھا ابوھا من عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ لما مات عمر تزوجھا عون بن جعفر بن ابی طالب و بعد فوتھ تزوجھا اخوہ محمد بن جعفر فلما توفی محمد تزوجھا عبداللہ بن جعفر وماتت عندھٗ فی الوقت الذی مات فیہ ابنہا زید بن عمر بن الخطاب و صلی علیہما عبد اللہ بن عمر 

سیدہ اُمِ کُلثومؓ کی شادی ان کے والد(علیؓ ) نے عمر بن خطابؓ کے ساتھ کردی اور سیدنا عمرؓ کی شہادت کے بعد ان کا نکاح عون بن جعفرؓ کے ساتھ ہوا اور ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی محمد بن جعفرؒ کے ساتھ ان کا نکاح ہوا۔ اور پھر ان کی وفات کے بعد ان کا نکاح عبداللہ بن جعفر کے ساتھ ہوا اور ان کی کے نکاح میں اس وقت فوت ہوئیں، جب ان کے بیٹے زید بن عمر بن خطاب فوت ہوئے تھے۔ ان دونوں کا جنازہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے پڑھایا۔

(نزل الابرار فی مناقب اہل البیت الاطہار صفحہ 78 ملاحظہ فرمائیں عکس صفحہ 394)

شیعہ مورخ میر زا عباس قلی خان سپہر لکھتا ہے:

در جنازۂ آن مخدرۂ محترم حضرت امام حسن و امام حسین علیہما حضور داشتند وجماعتی از مشائخ بزرگ وعیان آن زمان چون ابن عباس وعبداللہ بن عمر و ابوہریرہ حاضر شدند و بفرمان امام حسن علیہ السلام۔ عبداللہ بن عمرؓ در نماز تقدم گرفت۔ 

اس محترم بی بی (اُمِ کلثومؓ) کے جنازہ میں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ موجود تھے۔اور اس وقت کے مشائخ اور بزرگوں کی کافی جماعت مثلاً ابنِ عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ موجود تھے۔

 سیدنا حسنؓ کے حکم سے عبداللہ بن عمرؓ ( سیدنا عمرؓ کے بیٹے) نماز کے لئے آگے بڑھے۔

(طراز المذہب مظفری صفحہ 52 مطبوعہ بمبئی انڈیا دیکھیں عکس صفحہ 285)

سیّدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی نمازِ جنازہ سیدنا ابان بن عثمان بن عفانؓ نے پڑھائی

مات عبداللہ بالمدینۃ سنۃ ثمانین وصلی علیہ ابان بن عثمان بن عفان و دفن بالبقیع

 سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ نے 80ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ ان کی نمازِ جنازہ سیدنا ابان بن عثمان بن عفانؓ نے پڑھائی اور ان کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

¹-عمدۃ الطالب صفحہ 38 عقب جعفر طیارؓ ملاحظہ فرمائیں عکس صفحہ 329

²-منتہی الآمال جلد1صفحہ 205 ذکر عبداللہ بن جعفر طیارؓ عکس صفحہ 357

 توجہ طلب باتیں!

اس باب سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

¹-حضورﷺکی نمازِ جنازہ میں جملہ مہاجرین و انصار بشمول سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ وغیرہ شریک تھے۔

²-سیدنا حسنؓ کی نمازِ جنازہ سیدنا سعید بن العاصؓ نے پڑھائی۔ سیدنا حسینؓ نے ان کو جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا اور اس طریقہ کو سنت قرار دیا۔

³-سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا علیؓ المرتضیٰ کے کہنے پر پڑھائی۔

⁴-سیدہ اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ کی نمازِ جنازہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے پڑھائی۔سیدنا حسنؓ نے ان کو جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا۔ اور سیدنا حسینؓ نے ان کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی۔

⁵-سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ کی نماز جنازہ سیدنا ابان بن عثمانؓ نے پڑھائی۔

قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ صحابہ کرامؓ اور خاندانِ رسول اللہﷺ کے درمیان کیسا نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے، جو محبت، اخوّت، ایثار و ہمدردی سے مربوط ہے۔ وہ ایک دوسرے کے دکھ و درد میں ہر وقت شریک ہیں اور کبھی علیحدہ نہیں ہوئے، بلکہ اس طرح ہیں جیسے ایک ہی لڑی میں موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دشمانانِ صحابہؓ ان حضرات کی شان میں گستاخانہ زبان استعمال کرتے ہیں اور بکواس کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں کہ یہ دشمنی انہوں نے کہاں سے مول لی ہے۔ جس سے اپنی دنیا و آخرت برباد کئے جارہے ہیں۔ حالانکہ صحابہ کرامؓ کی جو عزت و احترام سیدنا علیؓ سیدنا حسینؓ نے کی ہے، اس کا اندازہ ان کے عمل سے ہوتا ہے کہ اپنے عزیزو اقارب کی نمازِ جنازہ میں صحابہ کرامؓ کو ہی امامت کا شرف و اعزاز بخشتے رہے ہیں اور خود ان کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے رہے ہیں۔

دشمنانِ صحابہؓ سے میرا یہ سوال ہے:

اگر بقول شیعہ صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت عظامؓ کے درمیان برادرانہ تعلقات نہیں تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے تو پھر ان کو اپنے عزیزو اقارب کی نماز جنازہ میں امام کیوں کرتے؟ ان صحابہ کرامؓ کو امام بنانا کس بنیاد پر تھا؟ آیا ایمان و اسلام کی بنیاد پر تھا یا کفر و نفاق کی بنیاد پر؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کو امام بناتے ہیں اور خود مقتدی بنتے ہیں؟

لہٰذا یہ بات تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ کے درمیان کوئی بھی کشیدگی اور بغض نہ تھا۔ بلکہ وہ آپس میں رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ کی بہترین مثال تھے۔