Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر کے انتقال پر امت نے نبی کے جنازے پر خلیفہ کے انتخاب کو فوقیت دی ہو اگر ایسی کوئی مثال ما سلف میں نہ ملے تو امت مصطفیٰ اللہﷺ نے ایسا کرنا کیونکر مناسب سمجھا۔

  مولانا مہرمحمد میانوالی

جواب: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت سے عناد کی وجہ سے معترض نے کیا ہی بےتکا اعتراض تراشا ہے تدفین سے قبل ہی ہر پیغمبر کے جانشین پر سب امت کا اتفاق ہوتا تھا پیغمبر کے رشتہ دار خلافت کے لیے رسہ کشی یا نزاع پیدا نہ کرتے تھے جانشین پیغمبر کی موجودگی میں تجہیز و تکفین کا اہتمام ہوتا تھا تمام تواریخ اسی حقیقت کا پتہ دیتی ہیں اگر سائل اس کا منکر ہو تو وہی بات بتائے کہ کسی پیغمبر کی تدفین خلیفہ کے تقرر و تعیین کے بغیر عمل میں لائی گئی؟ عند الناس خلیفہ کے تقرر اور بیعت لینے کے وقت کا سوال اٹھانے کی حاجت نہیں سوال دراصل یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آیا خدا اور رسول اللہﷺ کے ایماء اور مشیت یا نص سے خلیفہ قرار پائے یا امت نے خدا اور رسولﷺ کے حکم کے برعکس زبردستی ان کی بیعت کرلی سو اسی مفہوم کے سوال 13 کے تفصیلی جواب میں ہم وضاحت کریں گے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خدا کی مشیت، حضورﷺ کی ایماء بلکہ پیشنگوئی سے خلیفہ بنے اور سب امت نے آپ کی بیعت کر کے خدا کی مشیت اور وعدہ موعودہ اور پیشینگوئی پیغمبرﷺ کی تصدیق کی خدا اور رسول کے وعدوں اور خبروں میں ہرگز تخلف نہیں ہوتا سوال بالا کا تحقیقی جواب اسی قدر ہے کہ سابقہ پیغمبروں کی مثال کی ضرورت نہیں وہاں ایک پیغمبر کے بعد دوسرا پیغمبر ہی اس کا جانشین بنتا تھا ان کی نبوت و خلافت پر نصِ جلی کا ہونا ضروری تھا سب امت بیعت کا فریضہ سر انجام دے دیتی تھی مگر شریعتِ محمدیہﷺ کئی اصول و فروع میں ان سے مختلف ہے یہاں صاحبِ شریعت پر نبوت ختم ہوگئی اس کا خلیفہ پیغمبر یا مثلِ پیغمبر معصوم اور خود مختار نہیں ہو گا لہٰذا نصِ جلی کی ضرورت نہیں نصِ خفی اور پیشینگوئی کے ساتھ امت کا اتفاق کافی ہے گو سابقہ امم کی طرح یہاں بھی یہی قانون ہے کہ امت قائد و امام کے بغیر نہ ہو چنانچہ مزاجِ شناسان رسول اللہﷺ اور فضلاء دلبستانِ نبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قبل از تدفین چند منٹوں میں بہت صدیقی کر کے لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ الخ۔  (سورۃ النور: آیت، 55)

ترجمہ: کہ یقیناً اللہ ان کو خلافتِ ارضی دے گا کا وعدہ خدائی سچ کر دکھایا۔

تاریخِ طبری میں ہے کہ عمرو بن حریث نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ یکے از عشرہ مبشرہ سے پوچھا کہ حضورﷺ کی وفات کے وقت آپ موجود تھے فرمایا ہاں عمرو نے کہا حضرت ابوبکر صدیقؓ رضی اللہ عنہ کی بیعت کب ہوئی فرمایا حضورﷺ کی وفات کے دن:

كرهوا ان يبقوا بعض يوم وليسوا فی جماعة۔ (طبری)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے مکروہ جانا کہ دن کا کچھ حصہ بغیر جماعت ماتحت خلیفہ کے رہیں۔

 کیا کسی نے مخالفت بھی کی؟ فرمایا نہیں ہاں دین سے پھرنے والے نے یا جو پھرنے کے قریب ہوتا اگر اللہ تعالیٰ ان کو انصار سے نہ بچاتا پوچھا کیا مہاجرین میں سے بھی کوئی الگ رہا فرمایا نہیں سب مہاجرین حضرت ابو بکرؓ کی بیعت پر از خود ٹوٹ پڑے اگلی متصل روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں تھے اور آپ کو اطلاع ملی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے بیعت لے رہے ہیں اسی طرح بڑے کرتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ تاخیر آپ کو ناپسند تھی بیعت کر کے آپ کے پاس بیٹھ گئے پھر کپڑے منگوا کر پہنے اور مجلس میں بیٹھے رہے۔(طبری: جلد، 3 صفحہ، 206)

خود شیعہ کے یہاں یہ اصول مسلم ہے کہ نبی یا امام کا جانشین اس کے آخری لمحات میں بنایا جاتا ہے۔

متىٰ ينتهى اليه الامر قال فی اخر دقيقه من حياة الاول۔

(اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 275)

ترجمہ: عہدہ امامت اسے کب ملتا ہے تو امام جعفرؒ نے فرمایا پہلے امام کی زندگی کے آخری لمحات میں۔

حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد ہی حضرت حسنؓ منبر پر جلوہ افروز ہوئے حمد وثنا کے بعد فرمایا:

اے لوگو اسی رات قرآن نازل ہوا اسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر تشریف لے گئے اسی رات حضرت یوشع بن نون علیہ السلام شہید ہوئے اور اسی رات میرے والد امیر المومنین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے گویا شہادتِ علیؓ مبارک دن میں ہوئی پھر حضرت حسنؓ منبر سے اترے تو سب حاضر لوگوں نے آپ کی بیعت امامت کی۔ (جلاء العیون: صفحہ، 219)

جب شیعہ مذہب میں ہر شیعہ امام موت کے وقت ہی بن جاتا ہے اور قبل از تجہیز و تکفین اس کی بعیت بھی ہو جاتی ہے تو سید الرسلﷺ‎ کا جانشین قبل از تدفین بنا دیا جائے تو کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی سنت اسلام و سنت انبیاء علیہم السلام ہے۔

مدینہ کے اس وقت نازک حالات سے قطعِ نظر کہ اہلِ نفاق اور اسلام دشمن طاقتیں اسلام کو مٹانا چاہتی تھیں عقلاً یوں بھی خلیفہ کا تعیین ضروری ہے کہ امت کا ہر کام امام کی نگرانی میں ہو اور کسی بات میں اختلاف پیدا نا ہو یا پھر اسے ختم کر دیا جائے چنانچہ دفنِ پیغمبرﷺ‎ کے لیے اختلاف آراء ہوا کسی نے جنت البقیع کا نام لیا کسی نے حرمِ کعبہ کے جوار کا حضرت صدیق اکبرؓ کے ارشاد نبویﷺ‎ پیش کرنے پر آپ کو جائے ارتحال پر ہی دفن کیا گیا۔(طبری: جلد، 3 صفحہ، 213)

حضورﷺ‎ نے آخری وصایا متعلقہ تجہیز و تکفین آپ ہی کو فرمائی تھیں اور بامرِ نبویﷺ‎ آپ نے اس کام کو دوسروں پر تقسیم کیا۔

(جلاء العیون: صفحہ، 70 كشف المغہ حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 695) کہا جاتا ہے کہ یہ روایت ثعلبی سے ہے جو سنی ہے حالانکہ ثعلبی شیعہ تھا اور تقیہ کرتا تھا اس کی تالیف مثالب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شیعہ ہونے کی گارنٹی ہے اس کے علاوہ صاحبان کتب مذکورہ نے روایت بالا کو توثیق و تائید کے لیے نقل کیا ہے نہ تردید کے لیے بیعتِ امام ایک اسلامی فریضہ تھا جو بہر حال اداکرنا تھا اگر قبل دفن وجود میں آ گیا تو شیعہ کو کیا دکھ ہے۔

(اصول کافی: جلد، 2 صفحہ، 244 رجال کشی: صفحہ، 8 روضہ کافی، حیات القلوب، کی روایات کی روشنی میں جب سوائے تین شخصوں کے حضرت علیؓ کا طرفدار ہی کوئی نہ تھا تو اگر ایک مہینہ بھی بالفرض انتخاب مؤخر ہو جاتا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو تو خلافت نہ ملتی اور جسے بھی ملتی شیعہ تو اس کے دشمن ہی ہوتے ہاں امتِ افتراق کا شکار ہو جاتی منافق سازش کرتے فتنہ ارتداد اور کفارہ کی یلغار کو دفعہ کرنے والا کوئی نہ ہوتا پیغمبرﷺ‎ کی وفات کے ساتھ اسلام کا جنازہ بھی اٹھ جاتا تو آج شیعہ خوشی سے نغمیں بجاتے جیسے آج بھی ان کا قطعی متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ‎ کی وفات کے بعد سوائے چار آدمیوں کے سب مرتد ہو گئے۔(روضہ کافی: صفحہ، 246، 296) 

یہ ہے ان کی سلام اور پیغمبرﷺ‎ محنت و قربانی اور تعلیم و تربیت سے محبت تُف ایسے عقیدہ و مذہب پر اور امامت کے تکفیر باز مسئلہ پر۔

جنازہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی شرکت:

جھوٹ اور بہتان تراشی میں یہ ماہر فرقہ کہتا رہتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جنازہ نہیں پڑھا اور خلافت کے جھگڑے میں لگے رہے اس لیے اس مسئلہ پر بھی کچھ روشنی ڈالتا چلوں۔

انتخابِ امام میں چنداں دیر نہیں ہوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ بحکمِ نبویﷺ‎ و صدیقی ابھی غسل سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بیعتِ خلافت تام ہو گئی۔ (مراة العقول: صفحہ، 371 احتجاج طبرسی: صفحہ، 52 اور کتاب الروضہ: صفحہ، 159 پر ہے)

قال سلمانؓ فاتیت علیها علیه السلام و ھو یغسل رسول اللهﷺ‎ فاخبرته بما صنع الناس وقلت ان ابا بکرؓ الساعة على منبر رسول اللهﷺ‎۔

ترجمہ: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں حضرت علیؓ کے پاس آیا ابھی وہ غسلِ نبویﷺ‎ دے رہے تھے تو میں نے ان کو سب لوگوں کی کارروائی بیعتِ حضرت ابو بکرؓ بتلائی اور کہا کہ ابھی سیدنا ابو بکرؓ منبر رسولﷺ‎ پر بیٹھے ہیں۔

پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ سب مسلمانوں کے ساتھ جنازے پر جمع ہوئے آگے سیدنا جعفرؒ کی حدیث ملاحظہ ہو:

حضرت عباسؓ حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور کہا تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ حضرت رسولﷺ‎ کو بقیع میں دفن کریں اور حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھ کر حضورﷺ‎ پر جنازہ پڑھائے پھر حضرت علیؓ پہنچ گئے تو فرمایا لوگو حضورﷺ‎ کی زندگی میں آپ کا امام کوئی نہ تھا اب بھی کوئی امامت نہ کرے فرداً فرداً لوگ دعا پڑھیں۔ 

(حیات القلوب: صفحہ، 664 جلاء العیون: صفحہ، 70)

گو اس روایت میں غلط بیانی کر کے حضرت صدیق اکبرؓ پر طعن مقصود ہے کیونکہ تاریخی حقائق کے پیشِ نظر امام نہ بنانے کی رائے حضرت ابوبکرؓ نے ہی دی تاہم جنازہ الرسولﷺ‎ پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتماع اور صدیق پر سب کا اتفاق شیعہ کے گھر سے معلوم ہو چکا وللہ الحمد مزید سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شرکت کی احادیث ملاحظہ ہو'

1: اصولِ کافی باب مدفنہ و صلاتہ میں ہے:

عن ابى جعفرؒ قال الما قبض رسول اللهﷺ‎ صلت عليه الملائكة والمهاجردن و الانصار فوجاً فوجاً۔ 

(تفسیر صافی: صفحہ، 426) 

ترجمہ: سیدنا باقرؒ نے فرمایا جب رسول اللہﷺ‎ کی وفات ہو گئی تو آپ پر سب فرشتوں نے سب مہاجرین نے سب انصار نے گروہ گروہ ہو کر نماز پڑھی۔

حتىٰ لم يبق احد من المهاجرین والأنصار إلا صلى علیہ۔

ترجمہ: حتیٰ کہ مہاجرین و انصار میں سے ایک بھی نہ بچا جس نے نماز نہ پڑھی ہو۔

(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 664 حق الیقین: صفحہ، 13) 

پر ان احادیث کا فارسی ترجمہ موجود ہے اور یہ تصریح بھی ہے:

تا آنکه خورد و بزرگ مرد و زن اہل مدینہ و اطراف مدینہ همہ بر آن حضرت چنیں نماز کردند۔

ترجمہ: حتیٰ کہ چھوٹے بڑے، مرد و عورتیں مدینہ والے اور آس پاس کی بستیوں والے سب نے حضرت پر اس طرح نماز جنازہ پڑھی۔

(ضمیمہ جات مقبول ترجمہ: صفحہ، 145 اور احتاج طبرسی: صفحہ، 56) پر بھی جملہ مہاجرین و انصار کی شرکت اور جنازہ مرقوم ہے۔

ان صریح احادیث کے باوجود یہ کہنا کہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جنازہ نہیں پڑھا کتنا بڑا جھوٹ ہے کیا مدینہ و اطراف مدینہ مہاجرین و انصار مرد و زن خورد و کلاں کے عموم سے یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خارج ہیں پھر سیدنا جعفر صادقؒ کیوں بیان کرتے ہیں حضراتِ شیخینؓ کی استثناء کیوں نہیں کرتے آخر آپ کو ان سے کیا ڈر تھا؟

جب اپنے گھر سے لاجواب ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کتبِ اہلِ سنت میں ان کی شرکت جنازہ کی صراحت نہیں ملتی حالانکہ کتاب کسی بھی مذہب کی ہو ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شرکت بتانے کے لیے سب مہاجرین و انصار کل مرد و زن اور مدینہ و اہلِ مدینہ خورد و وکلاں جیسے عمومی الفاظ بیان کیے جاتے ہیں نہ کہ شخصی نام کیا دس دس آدمیوں کے جنازہ خواں گروہوں میں کسی میں حضرت علیؓ اور دیگر چار مؤمن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھی شرکت کی صراحت ملے گی؟ اگر نہیں تو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کے لیے یہ مطالبہ کیسے کیا جاتا ہے عموم سے استثناء کے لیے خصوصی اور قوی ترین دلیل درکارہ ہوتی ہے یہ ایک اصولی بات عرض کی ہے کہ شیعہ حضرات دو طرفہ بےانصافی کرتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمومی مناقب سے حضراتِ خلفائے کرام و اکابرینؒ امت کو بلا دلیل خصوص نکالتے اور دلیل خاص کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اپنا مذہب کشیدہ کرنے کے لیے عموم سے خصوص پر استدلال کرتے ہیں اور دلیل خاص کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ اساطین امت ہیں ان کا تذکرہ خصوصیت سے بھی یقیناً ملتا ہے البدایہ والنہایہ میں ہے۔

لما كفن رسول اللهﷺ‎ ووضع على سریرہ دخل أبو بكرؓ و عمرؓ فقالا السلام عليك أيها النبی ورحمة الله وبركاته ومعهما نفر من المهاجرين و الانصار قدر ما يسع البيت فسلموا كما سلم ابو بکرؓ و عمرؓ ما فی الصف الاول قال رسول اللہﷺ اللهم انا نشهد الله قد بلغ ما انزل اليه ثم یخرجون و يدخل آخرون حتىٰ صلوا علیہ الرجال ثم النساء ثم الصبيان۔  (البدایہ: جلد، 5 صفحہ، 625)

ترجمہ: جب حضورﷺ کو کفن دیا جا چکا اور چارپائی پر آپ کو رکھا جا چکا تھے تو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ داخل ہوئے اور فرمایا سلامتی ہو آپ پر اللہ کی اور رحمتیں او برکتیں اے اللہ کے نبیﷺ اور ان کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت بھی داخل ہوئی جتنے حجرے میں آسکتے تھے انہوں نے سلام کیا جیسا حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے سلام دیا تھا حضرت ابوبکرؓ صفِ اول میں حضورﷺ کے سامنے تھے اور یوں کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ آپ نے وہ پیغام پوری پہنچا دی جو آپ نے ان کی طرف وحی کی تھی پھر یہ نکلتے تھے اور دوسر سے داخل ہوتے تھے یہاں تک کہ سب مردوں اور عورتوں بچوں نے نماز و سلام کا فریضہ ادا کیا۔

جنازہ مبارک پڑھنے کی یہی کیفیت طبقات ابنِ سعد: جلد، 5 صفحہ، 201 اور سیرت حلبیہ: جلد، 3 صفحہ، 364) پر موجود ہے۔

 اور بخاری شریف میں حضرت ابوبکرؓ کا گھر سے آتے ہیں حضورﷺ کا چہرہ کھولنا اور جھک کے بوسہ دینا اور رونا بھی پھر مشہور خطبہ دینا مذکور ہے۔ 

سنی و شیعہ ان تصریحات کے باوجود کیا اب بھی کسی شخص کو یہ جھوٹ بولنے کی گنجائش ہے کہ حضراتِ شیخین شریکِ جنازہ نہ تھے ان صحیح و معتبر روایات کی روشنی میں اس قسم کی ضعیف و شاذ کوئی روایت کیسے قبول ہو سکتی ہے۔

جس میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ جنازہ و دفن میں موجود نہ تھے جیسے کہ کنز الاعمال کی روایت ہشام بن عروہ سے نقل کی جاتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ حضورﷺ کے دفن کے بعد لوٹے حالانکہ ہشام تو عروہ کا بیٹا ہے خود عروہ کی ولادت حضرت عمرؓ کی خلافت کے اخیر میں یا حضرت عثمانؓ کی خلافت کی ابتداء میں ہوئی۔ (تذكرة الحفاظ: جلد، 1 ١صفحہ، 59 تہذيب التہذيب: جلد، 7 صفحہ، 183) 

لہٰذا اس واقعہ میں خود عروہ کی موجودگی محال ہے چہ جائیکہ اس کا بیٹا ہشام موجود ہو بہر حال یہ روایت منقطع اور غیر معتبر ہے متناً شاذ ہے تو روایات مسند صحیحہ کے مقابلے میں مردود ہے۔ 

(بحوالہ جنازہ الرسول از علامہ تونسوی صاحب)