Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عمرۃ القضا اور ذات السلاسل میں

  علی محمد الصلابی

عمرۃ القضا اور ذات السلاسل میں

الف۔ عمرۃ القضا میں:

ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس عمرہ کی قضا کرنے گئے تھے، جس سے حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ نے روک دیا تھا۔

(تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: صفحہ، 142)

ب۔ سریہ ذات السلاسل میں:

رافع بن عمرو الطائیؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ذات السلاسل کی مہم پر لشکر روانہ کیا اور اس مہم میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو روانہ کیا۔ یہ لوگ جا کر جبل طے کے پاس لشکر انداز ہوئے۔

عمرو بن العاصؓ نے کہا ایسے شخص کو دیکھو جو راستے کا ماہر ہو؟

لوگوں نے کہا اس کام کے لیے رافع بن عمروؓ ہی مناسب ہیں کیونکہ دور جاہلیت میں یہ تنہا لوٹ ڈالنے والے چور تھے۔ رافع کا بیان ہے جب ہم نے مہم پوری کر لی اور اس جگہ واپس آگئے جہاں سے نکلے تھے، میں نے ابو بکرؓ میں خیر محسوس کی آپ پر فدک کی بنی ہوئی عبا تھی، جب سوار ہوتے تو خلال (بٹن) جوڑ لیتے اور جب اترتے کھول دیتے۔

میں نے عرض کیا اے خلال والے! میں آپ میں خیر محسوس کر رہا ہوں، مجھے ایسی بات بتلائیں جسے یاد کر کے آپ لوگوں کی طرح ہو جاؤں، طویل گفتگو نہ فرمائیں کہ میں بھول جاؤں؟

آپؓ نے فرمایا اپنی پانچوں انگلیوں کو یاد رکھتے ہو؟

میں نے کہا ہاں۔

آپؓ نے فرمایا اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، پنج وقتہ نماز قائم کرو، اگر مال ہے تو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، خانہ کعبہ کا حج کرو، رمضان کے روزے رکھو۔ کیا یہ باتیں یاد ہو گئیں؟

میں نے کہا ہاں۔

فرمایا دوسری بات یہ کہ کبھی دو آدمیوں پر امارت نہ قبول کرنا۔

میں نے عرض کیا کیا امارت آپ بدر والوں کے علاؤہ دوسروں کو بھی ملے گی؟

آپؓ نے فرمایا عنقریب امارت عام ہو گی اور تمہیں اور تم سے کم تر لوگوں کو ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے جب نبی کریمﷺ کو مبعوث فرمایا، لوگ اسلام میں داخل ہوئے، ان میں سے کچھ لوگ اللہ کے واسطے اسلام لائے، اللہ نے ان کو ہدایت سے نوازا اور کچھ لوگ تلوار کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے تو سب کے سب اللہ کے مہمان، اس کے پڑوسی اور اس کی امان والے ہیں۔ انسان جب امیر بنے اور لوگ آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کریں اور امیر ظالم سے مظلوم کو بدلہ نہ دلائے تو اللہ اس سے انتقام لے گا، تم میں سے کسی کے پڑوسی کی بکری لے لی جاتی ہے تو وہ اپنے پڑوسی کے لیے غضب ناک رہتا ہے اور اللہ اپنے پڑوسی کی پشت پناہی کرتا ہے۔

وانہا امانۃ وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ إلا من اخذہا بحقِّہا۔

(مجمع الزوائد: جلد، 5 صفحہ، 202/205)

دروس و عبر:

اس نصیحت میں صحابی جلیل ابو بکر رضی اللہ عنہ نے، جن کی تربیت اسلام پر رسول اللہﷺ کے ہاتھوں ہوئی، نونہالان امت کے لیے بہت سے دروس و عبر پیش کیے ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں

عبادت کی اہمیت نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کیونکہ یہ سب دین کے ستون ہیں۔

امارت و قیادت کو طلب نہ کرنا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ابو ذر غفاریؓ کو وصیت کی تھی۔

یقیناً یہ امانت ہے اور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہے مگر جس نے اس کے حق کے ساتھ اس کو سنبھالا۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے کلام کو اچھی طرح سمجھنے والے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا

جو امیر ہو گا اس کا حساب دوسروں کی بہ نسبت لمبا ہو گا اور عذاب سخت ہو گا اور جو امیر نہیں ہو گا دوسروں کی بہ نسبت اس کا حساب آسان ہو گا اور عذاب ہلکا ہو گا۔

(استخلاف ابی بکر الصدیق: جمال عبدالہادی صفحہ، 139)

یقیناً اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ ظلم قیامت کے دن ظلمتیں بن کر نمودار ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے

مَنْ آذٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ

(مسند احمد: جلد، 6 صفحہ، 256 یہ روایت صحیح بخاری میں ہے۔ دیکھیے کتاب الرقاق: صفحہ، 6502 اور اس کے الفاظ ہیں من عادی لی ولیا، جو میرے دوست سے عداوت مول لے گا، مترجم)

جو میرے دوست کو اذیت پہنچائے گا میں اس سے اعلان جنگ کروں گا۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اہلِ ایمان اللہ کے پڑوسی اور اللہ کی پناہ میں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ اپنے پڑوسیوں کے لیے غضب ناک ہو۔

(استخلاف ابی بکر: جمال عبدالہادی صفحہ، 140)

اسلاف کرام کے دور میں امت کے امراء، امت کے بہترین لوگ ہوا کرتے تھے اور پھر ایسا وقت آگیا کہ امارت و سیادت کی کرسی نا اہلوں کے ہاتھ آگئی۔ ابو بکرؓ نے فرمایا یہ امارت آسان ہے عنقریب ایسا ہو گا کہ یہ نا اہلوں کے ہاتھ آ جائے گی۔

(استخلاف ابی بکر: جمال عبدالہادی صفحہ، 140)

غزوۂ ذات السلاسل میں امیر کے احترام سے متعلق ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ممتاز مؤقف واضح ہوتا ہے کہ آپ افراد کی تعمیر اور ان کے تقدس و احترام کے سلسلہ میں انتہائی عظیم اور ممتاز قوت و صلاحیت کے مالک تھے۔

(تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: صفحہ 382)

چنانچہ عبداللہ بن بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ذات السلاسل کی مہم پر روانہ فرمایا، ان میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ جب لوگ جنگ کے مقام پر پہنچ گئے تو عمرو بن العاصؓ نے لوگوں کو حکم دیا کہ آگ روشن نہ کریں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور اس سلسلہ میں عمرو بن العاصؓ سے بات کرنا چاہی، لیکن ابو بکرؓ نے ان کو منع کر دیا اور فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے جنگی مہارت کی وجہ ہی سے ان کو تمہارے اوپر امیر مقرر فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ ٹھنڈے پڑ گئے۔

(الحاکم: جلد، 2 صفحہ، 42اور اس کو صحیح الاسناد قرار دیا اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ کتاب المغازی: جلد، 3 صفحہ، 42)