طائف کے میدان میں
علی محمد الصلابیطائف کے میدان میں
طائف کے محاصرہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو زخم آئے اور شہادتیں پیش آئیں، رسول اللہﷺ محاصرہ ختم کر کے مدینہ واپس آگئے۔ غزوۂ طائف میں شہید ہونے والوں میں حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ان کو ایک تیر لگا جس کے نتیجے میں نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد مدینہ میں فوت ہو گئے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 4 صفحہ، 193)
جب بنو ثقیف کے لوگ مدینہ میں اعلانِ اسلام کے لیے حاضر ہوئے تو جیسے ہی ان کا قافلہ مدینہ سے قریب پہنچا تو ان کے قبول اسلام کی بشارت رسول اللہﷺ کو سنانے کے لیے سیدنا ابوبکر اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما بے تاب ہو گئے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ ان کے آنے کی اطلاع سب سے پہلے وہ رسول اللہﷺ کو دے چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اس میں کامیاب ہوئے اور سب سے پہلے رسول اللہﷺ کو اس کی بشارت سنائی۔
(تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: صفحہ، 151)
جب ان لوگوں نے اسلام کا اعلان کر دیا اور رسول اللہﷺ نے ان کے لیے تحریری اسلامی ضمان عطا کیا اور ان پر امیر مقرر کرنا چاہا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا جائے حالانکہ وہ ابھی ان میں کم عمر تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اس نوجوان کو ان میں سب سے زیادہ اسلام کا علم حاصل کرنے اور قرآن سیکھنے کا شوقین پایا ہے۔
(تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: صفحہ، 151)
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی یہ حالت تھی کہ جب لوگ دوپہر کو سو جاتے تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے دین کے بارے میں سوال کرتے اور قرآن پڑھتے، یہاں تک کہ دین کی بصیرت اور علم حاصل کر لیا اور جب کبھی رسول اللہﷺ کو سوتا ہوا پاتے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتے اور اپنی قوم پر اس کو ظاہر نہ کرتے۔ رسول اللہﷺ کو ان کی یہ ادا بہت بھائی اور آپ ان سے محبت کرنے لگے۔
(تاریخ الاسلام للذہبی: المغازی، صفحہ، 670)
جس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شخص کا پتہ چلا جس نے آپ کے لخت جگر حضرت عبد اللہؓ کو تیر مارا تھا اس وقت آپ نے جو بات کہی وہ آپؓ کے ایمان کی عظمت پر واضح ثبوت ہے۔ امام قاسم بن محمدؒ سے مروی ہے کہ طائف میں سیدنا عبد اللہ بن ابی بکرؓ کو تیر لگا اور وہی زخم رسول اللہﷺ کی وفات کے چالیس روز بعد تازہ ہو گیا اور اسی میں وفات پا گئے۔ ثقیف کا وفد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ تیر آپؓ کے پاس محفوظ تھا۔ آپ نے اس تیر کو ان کے سامنے پیش کیا اور پوچھا کیا تم میں سے کوئی اس تیر کو جانتا ہے؟ تو بنو عجلان میں سے سعید بن عبید نے کہا میں نے ہی اس کو تیز کیا اور پر لگایا تھا اور میں نے ہی اس کو کھینچ کر مارا تھا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہی وہ تیر ہے جس سے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا ہے۔ اللہ کے لیے ہر طرح کی حمد و شکر ہے کہ اس نے تمہارے ہاتھ سے اس کو شہادت کا شرف بخشا اور تمہیں اس کے ہاتھ سے ذلیل نہ کیا۔ یقیناً اللہ کی رحمت تم دونوں کے لیے وسیع ہے۔
(خطب ابی بکر الصدیق: محمد احمد عاشور، صفحہ، 118 لیکن یہ روایت منقطع ہے)