Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسئلہ قضاء و قدر

  مولانا مہرمحمد میانوالی

سوال 11تا14: کیا وہ حاکم خطا وار نہ ہوگا جو اپنی مرضی سے حکم دے کے پھر محکوم کو سزا دے تو نفع و ضر، خیر و شر موافق قضاء و قدر ماننے میں خدا کو خطا وار ماننا ہو گا، یا اسے عاجز و ریا کار کہا جائے گا؟

سوال 15: اگر عاجز یا خوف زدہ یا مجبور ہے تو پھر خدا کیوں کر ہوا؟ 

 جواب:ان کا مفصل جواب ہم سائل کے رسالہ ”اصول دین“ کے جواب ”ہم سنی کیوں ہیں؟“ صفحہ 105 تا صفحہ 109 میں سائل کے سوال نمبر 25 کے تحت دے چکے ہیں۔ یہاں خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا ہر کام خالق کے علم ازلی، تقدیر اور مشیت کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ اسی نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی تقدیر بنائی۔

 وَخَلَقَ كُلَّ شَىۡءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقۡدِيۡرًا (سورۃ الفرقان: آیت 2)

ترجمہ: اور جس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کو ایک نپا تلا انداز عطا کیا ہے۔

اب اگر کوئی کام اس کے علم، تقدیر اور ارادے کے مطابق نہ ہو تو اس کا جاہل اور عاجز ہونا لازم آتا ہے، جس سے وہ پاک ہے، اور وہ بندے کو نیکی کا حکم دیتا ہے برائی کا نہیں دیتا ویَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ بندہ اپنے کسب و ارادہ اور خدا داد محدود قوت سے جب نیکی اور بدی کا کام کرتا ہے تو وہ جزا و سزا کا حقدار بنتا ہے وہ تقدیر کی اور خدا کے علم ازلی کی آڑ لے کر یہ نہیں کہ سکتا کہ جب میری تقدیر و قضاء تونے یہی لکھی تھی تو میں ارتکاب سے مجرم کیوں؟ اور مجھے سزا دینا تیرا ظلم ہو گا؟ کیونکہ بندے کو تو یہ علم نہیں کہ میری تقدیر میں کیا لکھا ہے؟ وہ تو ہر کام اپنے ارادہ و شوق سے کرے گا، چونکہ حکم خدا کے تحت وہ نیکی کا پابند ہے برائی سے روکا گیا ہے تو خدا کے علم و تقدیر سے وہ برائی کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا جب اس پر جبر ثابت نہ ہوا تو عادل خدا سزا دے کر نہ خطاوار و ظالم بنا اور نہ ایسی ریاکاری کی کہ بندے سے گناہ کرا کر اسے سزا دے دی۔ الغرض حق تعالیٰ خالق خیر بھی ہیں اور خالق شر بھی۔

(اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ٘) لیکن خیر سے راضی ہے، شر سے راضی نہیں( وَلَا یَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ) نور و ظلمت، طہارت و نجاست، فرشتے اور شیاطین، نیک و بد سب اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں مگر نیکوں سے راضی ہے اور بدوں سے ناراض مشئیت اور رضا کے درمیان یہ بڑا دقیق فرق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اہلِ سنت والجماعت کو ہدایت فرمائی اور شیعہ وغیرہ فرقے گمراہ ہوگئے کہ یا وہ بندہ کو مجبور محض مان کر خدا کی سزا کو ظلم کہتے ہیں، یا بندوں کو اپنے افعال اور امور کا خالق مان کر صفت خلق میں اربوں شریک بناتے ہیں، تو خدا مجرم کو سزا دینے میں ظالم نہیں ہے کیونکہ وہ کفر و گناہ پر راضى نہ تھا اور اس کی قضاء و تقدیر کے بغیر بھی یہ کام نہیں ہوئے کیونکہ وہ جہل و غفلت سے پاک ہے اور عجز و خوف اس پر طاری نہیں ہوتا نہ وہ مجبور ہے نہ اس کے خدا ہونے میں کوئی شک و شبہ ہے ہاں شیعہ خود خدا کی صفات و کمالات میں شک و شبہ کر کے مومن نہ رہے جبکہ کسبِ قبیح برا کام ہے خلق قبیح، قبیح نہیں ہے۔

سوال 16:  رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ کہہ کر ابلیس ملعون نے سنی عقیدہ بتایا۔

جواب: اغواء سے مراد نیکی کی توفیق نہ دینا ہے اور یہ اضلال کے ہم معنیٰ ہے جس کا مقابل ہدایت و اھداء یعنی نیکی کی توفیق دے دینا ہے۔ ان دونوں کاموں کی نسبت بارہا خدا نے اپنی طرف کی ہے۔

قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَ(سورۃ الرعد: آیت 27)

ترجمہ: آپ فرمائیے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ 

اور خیر و شر کی یہی قضاء و قدر ہے جس کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی ہے، شیطان نے خدا کو رب کہا تو ہم اس کی اتباع میں خدا کو رب نہیں کہتے بلکہ تعلیم خداوندی سے کہتے ہیں۔ اسی طرح اغوا و اضلال کی بصورت خلق و تقدیر (نہ بطور سبب و عمل)خدا کی طرف نسبت کر کے ہم اتباع شیطان نہیں کرتے، اتباعِ رحمٰن کرتے ہیں۔

سوال 17، 18: اگر بندہ فاعل اپنے افعال کا مختار نہیں تو وہ اس سے حسب مرضی کیسے سرزد ہوئے، اگر خدا ذمہ دار ہے تو جزا و سزا کیوں کر معقول ہے؟ 

جواب: بندے کے افعال دو قسم کے ہیں اضطراری اور غیر اختیاری، جیسے نبض کا چلنا اور حرکت قلب رعشہ وغیرہ ان میں بندہ مختار نہیں ہے، تو سزا و جزا کا بھی حق دار نہیں۔ جیسے دو سالہ بچہ اور رعشہ دار بوڑھا کوئی برتن ہاتھ سے گرا کر توڑ دے تو ہر عقل مند اسے معذور سمجھے گا۔ دوسرے افعال اختیاری ہیں جیسے اپنی آنکھ کو غیر محرم سے بچانا یا دیکھنا، ظلم کی نیت سے کسی کو پکڑنا یا ہاتھ نہ لگانا، قادر ہو کر نیکی کا کام کرنا یا نہ کرنا، ان میں بندے کی مرضی اور خواہش کو ضرور دخل ہے تبھی تو جزا و سزا کا حق دار ہے تو ایسے کام کا ذمہ دار ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں کہتے بلکہ کاسب، عامل اور ذمہ دار بندہ خود ہے۔ خدا تو خالق، قاضی اور تقدیر ساز ہے۔ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا (سورۃ الفرقان: آیت 2) اور یہ کسب سے جدا چیز ہے، تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کوئی حرف نہیں آتا، ائمہ اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی مذہب ہے شارح عدہ وغیرہ نے ایسی بہت سی روایات نقل کی ہیں”کہ بندوں کے کام خدا کے پیدا کیے ہوئے ہیں“ (کذافی التحفہ) اصول کافی صفحہ: 55، جلد1 پر حدیثِ نبویﷺ ہے: جو یہ عقیدہ رکھے کہ سوال 19 کا جواب بھی اسی سے ہو گیا کہ خدا نہ بندوں پر ظلم کرتا ہے نہ مذہب اہلِ سنت خدا کو ظالم بتاتا ہے اور یہی قرآن و سنت کے مطابق خدا اور رسولﷺ کا حقیقی اسلام ہے اور عقل و فطرت کے مطابق دین ہے۔

سوال 20: بجلی دیکھنا جب نا ممکن ہے؟ تو دیدار خدا کیوں ضروری ہے؟ 

 جواب: نصوص کے مقابلہ میں ڈھکوسلہ بازی حرام ہے ارشادِ خداوندی ہے کہ: وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ، اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (سورۃ القیامۃ: آیت 22،23)

ترجمہ: اس دن کچھ چہرے ترو تازہ ہونگے اپنے رب کو دیکھتے ہونگے۔

 عقل کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ خدا بندوں کا سب سے بڑا محبوب ہے، محب محبوب کی زیارت کے لیے بے قرار رہتا ہے، محبوب جب محب سے راضی اور اس پر مہربان ہے خصوصاََ قیامت کے دن تو ضرور ان کو اپنے جمال و انوار سے مشرف و منور فرمائے گا اور شیعہ وغیرہ منکر زیارت لوگ، اس نعمت سے محروم ہوں گے۔

كَلَّاۤ اِنَّهُمۡ عَنۡ رَّبِّهِمۡ يَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ‌،ثُمَّ اِنَّهُمۡ لَصَالُوا الۡجَحِيۡمِ (سورۃ المطففين: آیت 15،16)

ترجمہ: یقیناً وہ اس دن اپنے رب سے پردے میں ہوں گے، پھر دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔