Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہادت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ (قسط ہفتم)

  نقیہ کاظمی

شہادت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ: قسط ہفتم

سیدنا عثمانِ غنیؓ کی شہادت کے المناک نتائج حضرت عثمانِ غنیؓ کی شہادت نے مسلمانوں کو کس افسوسناک اور المناک صورت حال سے دو چار کر دیا یہ آپ پڑھ آئے ہیں آپؓ کی شہادت پر جو تلوار میان سے نکلی اس نے بہت سے مسلمانوں کو خاک و خون میں تڑپایا اس حادثہ فاجعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت علی المرتضیٰؓ بھی شہید کر دیئے گئے جنگ جمل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خون میں نہلائے گئے جنگ صفین میں مسلمان فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہو گئیں پھر بھی اس کی پیاس ٹھنڈی نہ ہوئی مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا اور جو امن و سکون مسلمانوں کو اس سے پہلے حاصل تھا اب وہ خوف وہراس، بے چینی اور بد امنی میں بدل گیا اسلامی وحدت اور یک جہتی پارہ پارہ ہو گئی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ایک خاص انداز میں شہادتِ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا جائزہ لیا ہے آپؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر خلافتِ خاصہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ 
سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کی شہادت سے جو تغیر ہوا اور اس کے جو مفاسد مرتب ہوئے وہ سب سے بڑھا ہوا ہے رسول اللہﷺ نے اس تغیر کو زمانہ خیر و زمانہ شر میں حد فاصل قرار دیا ہے اور اپنے اشارہ کا مرجع اسی تغیر کو بنایا ہے بہت سی حدیثوں میں جو بحیثیت مجموعی متواتر ہیں اور اس تغیر سے خلافتِ خاصہ منتظمہ ختم ہو گئی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بہت سی حدیثوں میں اس کو صاف بیان کیا ہے اور رسول اللہﷺ نے بہت سی حدیثوں میں تینوں خلفاءؓ کا ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اور اگر تم غور سے دیکھو تو جہاں کہیں خلافتِ خاصہ منتظمہ بالفعل کا ذکر ہے وہاں تینوں خلفاءؓ کا ذکر ایک ساتھ ہے اور جہاں کہیں خلافتِ خاصہ کا ذکر حضورﷺ کے سامنے یا آپﷺ کے پیچھے مہمات میں مداخلت کے ساتھ ہے وہاں صرف شیخینؓ کا ذکر ہے، سیدنا عثمانؓ کی شہادت سے وہ تینوں قرن جن کی خیریت کی شہادت دی گئی ہے ختم ہو گئے تیسرا قرن حضرت ذوالنورینؓ کی خلافت کا زمانہ تھا جو قریب بارہ سال کے رہا ہے۔ حضرت ذوالنورینؓ کی روش میں بنسبت شیخینؓ کے کچھ فرق تھا کیونکہ سیدنا ذوالنورینؓ کبھی عزیمت سے رخصت کی طرف اتر آیا کرتے تھے اور ان کے حکام بھی شیخینؓ کے حکام کے مثل نہ تھے اور رعیت بھی ان کی ویسی مطیع نہ تھی جیسی سیدنا صدیقؓ اور سیدنا فاروقؓ کی مطیع تھی گو ویسی خشونت بھی رعیت کی طرف سے ظاہر نہیں ہوئی تھی اور مخالفت کی کیفیت دل و زبان سے ہاتھ اور ہتھیار کی طرف منتقل نہ ہوئی تھی مگر اس قرن کے پورے ہو جانے کے بعد ان باتوں میں سوا مکابر کے کوئی نزاع نہیں ہو سکتا 
(ازالۃ جلد، 1 صفحہ، 586) 
محقق العصر حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وحدت امت کا نشان تھے آپؓ شہید ہونے تک وحدت امت کی فکر میں رہے جان تو دے دی مگر وحدت امت کو پارہ پارہ نہ ہونے دیا اور آپؓ گو کہتے رہے کہ میرے بعد تم سب ایک پلیٹ فارم پر نہ رہ پاؤ گے تاہم آپؓ کی آخری وقت کی دعا بھی وحدتِ امت کی تھی، آپؓ کی شہادت نے سب سے پہلے جس چیز کو متاثر کیا وہ وحدتِ امت تھی۔ آپؒ لکھتے ہیں
آپؓ کے بعد امت اعتقاداً نہیں امارۃ آپس میں مختلف ہوئی اور حالات اس طرح ترتیب پائے:
1: حضرت عثمانِ غنیؓ کے باغی خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ایک چیلنج بن گئے اور حضرت علیؓ کو کہنا پڑا کہ يملكوننا ولا نملكھم ان کی بات ہم پر چلتی ہے ہماری بات ان پر نہیں چلتی۔
2: حضرت علی المرتضیٰؓ کی اس بے بسی پر سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ ان کا ساتھ چھوڑ گئے ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو ظالموں پر قابو نہ پا سکے وہ قوتِ خلافت کس طرح رکھ سکتا ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے نقض بیعت قرار دیا تاہم معرکہ جمل میں وہ حالات کی نزاکت کو سمجھ گئے اور انہوں نے حضرت علیؓ سے مصالحت کر لی اور ان کی مخالفت سے دست کش ہو گئے لیکن مفسدین نے انہیں پھر بھی نہ چھوڑا۔
3: گورنر شام سیدنا معاویہؓ اور فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی بیعت کو ایسا معرضِ التواء میں ڈالا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے خلاف چڑھائی پر مجبور ہوئے، جنگ صفین دو حکموں کے تحکیم پر ختم ہوئی اور وہ کسی درجے میں بھی فیصلہ کن نہ ہو سکی۔
4: تحکیم کے نتیجہ میں مسلمانوں میں پہلا اعتقادی فتنہ اٹھا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ خوارج حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں کے خلاف اٹھے انہوں نے خلیفہ راشد حضرت علیؓ کو شہید کر دیا اور حضرت معاویہؓ کے خلاف ان کی سازشِ قتل ناکام رہی۔ 
امت میں یہ اختلافات کب اٹھے؟ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد اس سے پوری دنیا نے جان لیا کہ حضرت عثمانؓ واقعی وحدتِ امت اور اختلافِ امت میں ایک تاریخی فاصلہ رہے ہیں، حضرت عثمانؓ کا اپنے آخری وقت تک وحدت امت کا نشان بننا آپؓ کی خلافت کے برحق ہونے کی ایک کھلی تکوینی شہادت ہے۔
(خلفائے راشدین: جلد، 2 صفحہ، 92)
اور یہ بات خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے آخری وقت میں کہہ دی تھی آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے تو تمہاری وحدت ختم ہو جائے گی تم انتشار و خلفشار میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ آپؓ نے قسم کھا کر کہا
والله لئن قتلتمونى لا تتحابوا بعدى ولا تصلوا جميعا أبدا ولاتقاتلوا بعدى عدوا جميعا أبدا۔
(البدايه: جلد، 7 صفحہ، 180)
لو قتلتموني لا يتحابون بعدى ابدا۔ 
(المصنف لابن ابی شیبہ: جلد، 7 صفحہ، 441) 
خدا کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو تم آپس میں کبھی محبت سے نہ رہ پاؤ گے اور نہ اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ کبھی اکٹھے ہو کر دشمن کے ساتھ لڑ سکو گے. 
ایک سوال اور اس کا جواب:
سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت میں کیا کسی صحابیؓ کا کوئی ہاتھ تھا؟ اور کیا ان میں سے کوئی ایک صحابیؓ بھی ایسا تھا جو آپؓ کی شہادت سے کبھی راضی ہوا ہو؟ 
الجواب: حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس کے دل میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کوئی بوجھ ہو، ان سب کو معلوم تھا کہ حضورﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو ہمیشہ نگاہ محبت و عزت سے دیکھا ہے اور آپؓ کے بارے میں بڑے فضائل و مراتب بیان فرمائے اور اشاروں کنایوں میں آپؓ کے خلیفہ ثالث ہونے کی بشارت اور آپؓ کے شہید اور جنتی ہونے کی بشارت دی ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضورﷺ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حق اور ہدایت پر بتائیں اور آپؓ کے اچھے ہونے کی گواہی دیں اور انہیں اپنے مؤقف پر استقامت سے رہنے کی تاکید فرمائیں اور دوسری طرف آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان سب ارشادات کو بیک نظر مسترد کرتے ہوئے ان کے قتل میں شامل ہو جائیں. جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سیدنا عثمانِ غنیؓ کے قتل میں شامل بتاتے ہیں اور انہیں اس گندگی میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پر حضرت عثمان غنیؓ کو نشانہ طعن بنا سکیں۔ استغفر الله العظيم۔
امام ابوبکر بن العربی المالکیؒ (543 ہجری) لکھتے ہیں:
ان احدا من الصحابة لم يسع عليه ولا قعد عنه.
(العواصم من القواصم: صفحہ 143) 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں آگے بڑھا اور نہ وہ آپؓ کی حمایت سے دست کش ہوئے 
(صحیح مسلم کے شارح اور محدث امام نوویؒ (676 ہجری) کھل کر لکھتے ہیں)
يشارك في قتله أحد من الصحابة 
(نووی شرح مسلم: جلد، 2 صفحہ، 143) 
سیدنا عثمانؓ کے خون میں کسی بھی صحابیؓ کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔
شیخ الا سلام حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
ومعلوم بالتواتر أن أهل الامصار لم يشهدوا قتله فلم يقتله بقدر من بايعه وأكثر أهل المدينة لم يقتلوه ولا أحد من السابقين الاولين دخل في قتله كما دخلوا في بيعته۔
(منهاج السنۃ: جلد، 8 صفحہ، 313) 
آپؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ان جماهير المسلمين لم يأمروا بقتله ولا شاركوا فى قتله ولا رضوا بقتله.. خيار المسلمين لم يدخل منهم في دم عثمان لا قتل ولا أمر بقتله وإنما قتله طائفة من المفسدين في الارض من أوباش القبائل وأهل الفتن 
(منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ، 323) 
علامہ ابو الشکور سالمیؒ التمہید میں لکھتے ہیں:
ولم يكن معهم من الصحابة أحد فنقبوا جداره ودخلوا عليه وقتلوه مظلوما۔
(التمهيد: صفحہ، 164) 
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر گھسنے والوں میں کوئی بھی صحابیؓ نہ تھا، یہ دوسرے لوگ تھے جو دیوار پھاند کر اندر داخل ہو گئے اور آپؓ کو ظلماً قتل کر دیا۔
مؤرخ شہیر حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں۔
ليس فيه أحد من الصحابة.
(البدايه: جلد، 7 صفحہ، 185/198)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
کہ آپؓ کے ساتھ زیادتی کرنے والے مصری اور ان کے ساتھی تھے ان میں کوئی صحابیؓ اور ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیچھے چلنے والا کوئی تابعی نہ تھا۔
قومی از مصریاں کہ نہ از بعد صحابه بود ندونه از تابعین لهم باحسان۔ 
(قرة العینین: صفحہ، 143) 
اس بارے میں سب سے زیادہ نام حضرت علی المرتضیٰؓ کا لیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اپنے مذموم اپنے مقاصد کے تحت انہیں شہادت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار بتاتے ہیں، یہ بات بالکل غلط ہے، بیشک بعض معاملات میں آپؓ کو سیدنا عثمانؓ کی پالیسی سے اختلاف ہوا اور آپؓ نے ان کی نشاندہی بھی کی تاہم آپؓ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار بتانا سیدنا علی المرتضیٰؓ کی سیرت کو داغدار کرنا ہے جو ہرگز جائز نہیں۔ آپؓ سیدنا عثمانؓ کی مدافعت کرنے والوں میں تھے اور اپنی ممکنہ حد تک آپ نے یہ کوشش بھی کی۔ آپؓ نے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور فرمایا آپؓ کے لیے پانی بھیجنے کا انتظام کیا ان کوششوں کے باوجود تقدیر الہٰی پوری ہوئی پھر جب آپؓ کو شہادت کی خبر پہنچی تو آپؓ رو پڑے اس پر سخت دکھ کا اظہار فرمایا اور قاتلوں سے کھلے عام اظہار براءت کیا اور فرمایا کہ نہ میں نے کبھی اس کا حکم دیا تھا نہ میں ان کے اس عمل سے راضی ہوں خدا ان کو غارت و برباد کرے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے یہ بیانات آپ پہلے پڑھ آئے ہیں۔ 
پیش نظر رہے کہ حضرت علیؓ کو شہادت سیدنا عثمان غنیؓ کا ذمہ دار بتانے والے رافضی اور خارجی ہیں اور دونوں نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت آپ کو اس میں رگیدنے کی کوشش کی ہے رافضی گروہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عثمانِ غنیؓ چونکہ مستحق قتل تھے اس لئے یہ سب کچھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ہوا تھا اور اس میں حضرت علیؓ حق بجانب تھے اس لیے آپؓ نے سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ اودھ (انڈیا) کے ایک رافضی ملا حسین بخش کا یہ دل آزار بیان دیکھیے۔
قتل عثمان ( رضی اللہ عنہ) قطعی کوئی جرم نہیں تھا بلکہ یہ تو اسلامی معاشرے کے اعلی مقاصد کے عین مطابق تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ) کے دفاع کے لیے راضی نہیں تھے۔
(امامت و ملوکیت ص 123)
جبکہ خارجی گروہ سیدنا علیؓ کو بدنام کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ آپؓ نے ایک مظلوم خلیفہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں انہیں آپؓ پر قتل کا الزام لگانے میں کوئی حیاء نہیں آئی (استغفر اللہ) 
ابن تیمیهؒ ان دونوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
فكان أناس من محبى على ومن مبغضيه يشيعون ذلك عنه فمحبوه يقصدون بذلك الطعن على عثمان بانه كان يستحق القتل وأن عليا أمر بقتله ومبغضوه ويقصدون بذلك الطعن على على وأنه أعان على قتل الخليفة المظلوم الشهيد الذي صبر نفسه ولم يدفع عنها ولم يسفك دم مسلم في الدفع عنه فكيف فى طلب طاعته وأمثال هذه الأمور التي يتسبب بها الزائغون على المتشيعين العثمانية والعلوية۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ: جلد، 35 صفحہ، 73) 
جبکہ اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ کا دامن ان تمام آلائشوں سے پاک ہے جو آپؓ کی طرف رافضی اور خارجی لوگوں نے منسوب کر رکھا ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا حضرت علی المرتضیٰؓ اور آپؓ کے گھر والوں کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، آپؓ نے کبھی حضرت عثمانؓ کی بد خواہی کی اور نہ آپؓ کی عزت و احترام پر کبھی کسی سے کوئی سودا کیا تھا، آپؓ نے ہمیشہ انؓ کے فضائل و مناقب بیان کئے اور اپنے تمام معتقدین کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ادب و احترام کی تلقین و تاکید کی۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کے خلاف بولنے والے کے سخت خلاف تھے اور ان سے کھلے عام براءت اور لاتعلقی کا اعلان کرتے تھے آپؓ بار بار کہتے تھے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مؤمن کامل ہیں حضورﷺ کے دوہرے داماد ہیں اور اہلِ جنت میں سے ہیں۔