Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں

  علی محمد الصلابی

سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ عہدِ صدیقی اور عہدِ فاروقی میں

عہد صدیقی میں

1: مجلس شوریٰ کی رکنیت:

خلافتِ صدیقی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان صحابہ اور اہلِ شوریٰ میں سے تھے جن کی رائے اہم ترین مسائل میں لی جاتی تھی۔ آپ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مرتبہ میں دو میں سے دوسرے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عزیمت و شدائد کے لیے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ رفق و بردباری کے لیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلافتِ صدیقی کے وزیر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جنرل سکریٹری تھے، ناموسِ اعظم اور کاتبِ اکبر تھے۔

(عثمان بن عفان، صادق عرجون: صفحہ، 58)

آپؓ کی رائے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں مقدم رہتی، چنانچہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارتداد کی تحریک کو کچل دیا تو روم پر چڑھائی کرنے اور مختلف اطراف میں مجاہدین کو روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا، اور اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ لینا شروع کیا، خرد مندوں نے اپنی اپنی باتیں آپؓ کے سامنے رکھیں، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں مزید مشورہ طلب کرتے ہوئے فرمایا: آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپؓ اس امت کے خیر خواہ اور مشفق ہیں، لہٰذا آپؓ کسی بات کو عام مسلمانوں کے لیے مفید سمجھیں تو اس کو کر گزریے، یقیناً آپؓ پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

(تاریخ دمشق، ابنِ عساکر: جلد، 2 صفحہ، 63۔ 65 ابوبکر الصدیق، الصلابی: صفحہ، 364)

اس پر سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد، سیدنا ابو عبیدہ، سیدنا سعید بن زید اور اس مجلس میں موجود تمام مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے کہا: سیدنا عثمانؓ نے سچ کہا ہے! جو آپؓ مناسب سمجھیں کر گزریے۔

(ابوبکر الصدیق، الصلابی: صفحہ، 364)

اسی طرح جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپؓ اس شخص کو بحرین کا والی مقرر کیجیے جسے رسول اللہﷺ نے بحرین والوں کے پاس بھیجا تھا، اور وہ آپﷺ کے پاس بحرین والوں کے اسلام اور اطاعت کے ساتھ واپس ہوئے تھے، لوگ ان کو جانتے ہیں اور وہ انہیں اور ان کے ملک کو جانتے ہیں۔ یعنی سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپؓ کی اس رائے پر عمل کرتے ہوئے سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کا والی بنا کر بھیجا۔

(کنز العمال: جلد، 5 صفحہ، 620 14093 تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ، 122 القیود الواردۃ علی سلطۃ الدولۃ، عبداللہ الکیلانی: صفحہ، 169)

جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیماری بڑھ گئی تو لوگوں سے مشورہ لیا کہ وہ ان کے بعد خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے کس کو پسند کرتے ہیں؟ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں مشورہ دیا، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق رائے پیش کرتے ہوئے فرمایا:

اللهم علمی بہ أن سریرتہ خیر من علانیتہ وانہ لیس فینا مثلہ۔

(الکامل، ابنِ اثیر: جلد، 2 صفحہ، 79 الخلفاء الراشدون، محمود شاکر: صفحہ، 101) 

ترجمہ: ’’الہٰی میرے علم کے مطابق ان کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے، اور ہم میں ان کے مثل کوئی نہیں۔‘‘

اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’اللہ آپؓ پر رحم فرمائے اللہ کی قسم‘‘ (الکامل، ابنِ اثیر: جلد، 2 صفحہ، 79)