ملت جعفریہ کا مطلب
حُجتہ اللہ حجازیبسم الله الرحمن الرحيم
تعارف ملت جعفریہ
ہمارا محبوب ملک پاکستان عظیم سُنی اکثریت کے علاوہ بہت سی اقلیتوں کا مسکن بھی ہے اور یہ اقلیتیں اپنے اکثریتی برادران وطن کے ساتھ خوش اسلوبی سے زندگی بسر کر رہی ہیں ۔البتہ دو اقلیتیں اکثریت کی کھلم کھلا دلآزاری کرنے ، جارحیت پر مبنی انتہا پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے اور دھونس کے ذریعے اپنے نامعقول مطالبات منوانے میں خصوصی شہرت حاصل کئے ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک تو ملت احمدیہ(قادیانی) ہے۔ دوسری ملت جعفریہ۔
چونکہ رفع اختلاف اور اصلاح احوال کا اگر کوئی امکان ہوسکتا ہے تو آ گاہی اس کی پہلی اور بنیادی شرط ہے اس لئے ہم ملت جعفریہ کے متعلق ضروری بنیادی معلومات پیش کر رہے ہیں۔
ان معلومات کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ بغیر علم کے یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کون دوست ہے اور کون دشمن اور جو لوگ بغیر معلومات کے اس قسم کے فیصلے کر لیتے ہیں، انہیں بالآخر اس وقت پچھتانا پڑتا ہے جب پچھتانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
اخبارات پڑھنے والے اس سے واقف ہیں کہ شیعہ اثنا عشری اپنے لئے ملت جعفریہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ شیعہ عقائد کی سب سے پہلی اہم ترین کتاب اصول کافی کے دیباچہ میں بھی شیعوں کے علیحدہ ملت ہونے کا بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔ نئی ملت کلمہ کے فرق سے بنتی ہے مثلا حضرت نوح کے زمانے میں لا الہ الا اللہ کے بعد کلمہ میں ان کا اسم گرامی تھا۔ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں ان کا اسم گرامی اور حضرت موسی کے زمانہ میں ان کا اسم گرامی ۔سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ تشریف لائے تو آپ کی ماننے والی ملت محمدیہ کے لئے کلمہ طیبہ کے پہلے جو لا اله الا اللہ کے ساتھ آپ کا اسم گرامی محمد رسول اللہ کہنا ضروری ہوا لیکن چونکہ شیعہ حضرات خود کو ملت اسلامیہ یا ملت محمدیہ سے جدا سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنا کلمہ بھی جدا کیا اور اپنا نام بھی ملت جعفریہ مقرر کیا۔ شیعہ ملت جعفریہ کا کلمہ یہ ہے:
لا إله إلا الله محمد رسول الله على ولى الـلـه و وصى رسول الله وخليفته بلافصل
( یہ شیعہ کلمہ شیعوں کی دور حاضر کی مذہبی کتب میں اور خاص طور پر اسکولوں میں پڑھائی جانے والی شیعہ نصاب دینیات کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے )
ملت اسلامیہ اور ملت جعفریہ کے کلمہ میں فرق یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے کلمہ میں ایمان کی بنیاد صرف دو باتوں پر ہے ۔
اللہ کی توحید کا اقرار اور
آنحضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار
جبکہ ملت جعفریہ کے نزدیک یہ ناقص کلمہ ہے ۔ ان کے نزدیک کلمہ کے یہ دونوں حصے اس وقت تک بے کار ہیں۔ جب تک ان کے ساتھ حضرت علی کی امامت یعنی اللہ کی طرف سے پوری دنیا پر ان کی حکمرانی کا اقرار نہ کیا جائے۔ جس طرح مسلمانوں کے نزدیک صرف
لا إله الا اللہ
کہنے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ وہ
محمد رسول اللہ
نہ کہے۔اسی طرح ملت جعفریہ یعنی شیعوں کے نزدیک
لا إله إلا الله محمد رسول اللہ
کہنا بیکار ہے ۔ جب تک کہ
علی ولی الله ووصى رسول الله و خليفته بلافصل
کا اقرار نہ کیا جائے۔ اس اہم ترین اور بنیادی فرق کی وجہ سے مسلمان اور شیعہ دو جدا گانہ ملتیں ہیں یعنی ملت اسلامیہ ( یا ملت محمدیہ ) اور ملت جعفریہ ،شیعہ حضرات اپنے کلمہ کے اس تیسرے جز کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ہر اذان میں
اشھدان لااله الا الله
اور
اشهدان محمد رسول اللہ
کی گواہی کے ساتھ
اشهد ان علیا ولی اللہ
کی گواہی بھی لازمی دیتے ہیں ۔ جس کا جب جی چاہے شیعہ اذان سن کر تصدیق کر سکتا ہے، اسی لئے شیعہ حضرات اپنی کتابوں میں حضرت علی کا تذکرہ بطور بانی مذہب کے کرتے ہیں ۔
مثلا Echo of Islam
مطبوعہ تہران صفحہ 268
اور نہج البلاغہ کا تصورالوہیت صفحہ14 از سید محمد تقی ملاحظہ ہو۔
چونکہ شیعوں کا کلمہ جدا ہے اور مسلمانوں کا کلمہ جدا، یعنی ملت اسلامیہ( ملت محمدیہ ) جدا ہے اور ملت جعفریہ جدا، اسی لئے دونوں کا دین بھی جدا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملت جعفریہ نے جداگانہ شیعہ دینیات کا مطالبہ پیش کیا ، جسے حکومت نے منظور کر لیا ہے ،غرض یہ کہ ان کا کلمہ جدا، ان کی ملت جدا، ان کا دین جدا، اگر دونوں کا کلمہ دونوں کی ملت اور دونوں کا دین ایک ہوتا تو دونوں کی دینیات جدا کیوں ہوتیں؟